ہفتہ، 11 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(42)

 یادوں کی تتلیاں " (42)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اماں جی کی جدائی کو اُن سے وابستہ مختلف افراد نے مختلف انداز سے لیا ،، لیکن میں نے محسوس کیا اباجی خاموش سے رہنے لگے ، شاید ایک بیٹی اور ایک اکلوتے بیٹے کی ذمہ داریوں سے ابھی سبکدوش ہونا تھا ، اور خاص طور پر بیٹی کے لیۓ فیصلے کو انھوں نے ذہن پر ذیادہ سوار کر لیا تھا ! یا زندگی اب اکیلے کیسے بسر کرنا ہے یہ سوچ بھی ذہن پر حاوی ہوتی ہوگی ،،،، اماں جی جب بھی اپنی " واپسی کے سفر " کا ذکر کرتیں تو یہی کہتیں ! میرے بعد تم اپنے اباجی کے ساتھ رہنا ۔ یہ تمہاری بات سنتے ہیں ،، اور تم بھی اں کے مزاج کی واقف ہو!! وغیرہ ،، میں ہمیشہ ان کی یہ بات ہنسی میں اُڑا دیتی ۔ لیکن جس دن وہ آخری رات جب انھوں نے گھر سے رخصتی لی اور ہسپتال کے لیۓ روانہ ہوئیں ، اس دن بھی میں ان کی طبیعت کی خرابی کے پیشِ نظر ابھی ان کے کمرے میں تھی کہ اب کی بار پھر انھوں نے کہا ،،،" دیکھو اس دفعہ میں بچنے والی نہیں ، بس تم اپنے باپ کو نہ چھوڑنا " میں نے انھیں تسلی کے لیے کہہ دیا " تو میں نے کہاں جانا ہے ، بس آپ یہ ما یوسی کی باتیں چھوڑیں " ، کہنے لگیں " نہیں میری ماں میرا انتظار کر رہی ہے! بس اب چلنا ہی ہو گا "،،، میں نے تب بھی نارمل لیا ! کیوں کہ اماں جی ایسی سخت بیماری سے کئی دفعہ  "سروائیو"کر گئی تھیں ، لیکن آخر کب تک اتنی بیماریوں کو شکست دیتیں ،،،، جب 7 فروری کو اُن کی زندگی کے آخری گھنٹوں کا " کاؤنٹ ڈاؤن " شروع ہوا تو اس دن میری خالہ ذاد ہسپتال سے انھیں دیکھتی ہوئی سیدھی ہمارے گھر آئیں ! اس وقت صبح کے 11 بجے تھے ، انھوں نے روتے ہوۓ کہا تم دونوں جلدی ہاسپٹل چلی جاؤ ،، ان کی حالت اچھی نہیں ، آنکھیں تو کھل ہی  نہیں رہیں ، بس منیرہ کا نام بار بار لے رہی ہیں !! ہم دونوں بہنیں جلدی سے چھوٹے بچوں کو اُنہی کے حولے کر کے ہسپتال پہنچیں ، اباجی اور بھائی جان ان کے آس پاس تھے ! میں نے اماں جی کو آواز دی ، " آنکھیں کھولیں ، دیکھیں میں آگئی ہوں " انھوں نے اسی حالت میں بہت ہی مشکل سے کہا " تم ، ادھر ہی ! تم نا ادھر ہی " میں سمجھ گئی ! وہ کیا یاد دلانا چاہ رہی ہیں ۔ میں نے کہا " ہاں ہاں میں ادھر ہی اباجی کے پاس رہوں گی " جواباً انھوں نے اطمینان بھری لمبی سی " ہاں " کی !!!!! اور یہ ہی ان کی آخری دنیاوی بات تھی ! آنکھیں بدستور بند تھیں ، اور پھر شام 4 بجے تک وہی سبحان اللہ اور صدقے یا رسول اللہ ؐ ! کا ورد ان کے لبوں پر رہا ،، جیسا کہ میں پچھلی قسط میں ذکر کر چکی ہوں ،،،،، 
اماں جی کے مہمان آہستہ آہستہ جانے لگے ! آپا کے جانےکا وقت آیا ، تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ یہ دو بچوں کوکیسے دیکھے گی ،،، فی الحال ایک کو میں ساتھ لے جاتی ہوں ! جوجی بھی انہی دنوں  ایم ایس سی کے امتحان سے فارغ ہو کر آچکی تھی ۔ آپا نے اسے بھی ساتھ لے کر جانا تھا کہ اماں جی کی جدائی کےغم میں اس کا مزید وزن کم ہو چکا تھا ! چنا چہ ،،، میں نے عمر کو ان کے حوالے کیا کہ " یہ کچھ بہتر صحت والا ہے " کمزور بچے کو میں خود دیکھ لوں گی !!! آپا تین ماہ کے بعد عمر اور جوجی کو واپس چھوڑنے آئیں ،،، تو اس دفعہ علی کو ساتھ لے گئیں ، ، پھر 3 ماہ بعد آکر عمر کو دوسری دفعہ لے گئیں ، تب جوجی نے مجھے بتایا " سیالکوٹ میں ابھی تک گیس نہیں پہنچی ! اس لیۓ جب آدھی رات کو منے کو دودھ پلانا ہوتا ہے تو آپا پہلے " تیل والا چولہا " جلاتی ہیں ! دودھ گرم ہوتا ہے پھر منے کو پلایا جاتا ہے ۔اب جب آپا عمر کو چھوڑنے 3 ماہ بعد آئیں تو میں نے انھیں کہا اب میں کافی ماہر ہوگئی ہوں ،،، اور بچے بھی باقاعدہ کھانے پینے لگے ہیں ، اور ان کی عمریں 9،10 ماہ کی ہو چکی ہیں اب میں انھیں سنبھال لوں گی !! اگر میں نہ کہتی تو آپا یہ سلسلہ پتہ نہیں کتنا عرصہ چلاتیں ! آپا کی سب سے چھوٹی اولاد نشمیہ اس وقت 7، 8 سال کی تھی ،،، لیکن آپا میری مشکل کو محسوس کرتے ہوۓ خود نئے سرے سے ایک "منے کی ماں" بن گئیں، حالانکہ دوبارہ ایسی ڈیؤٹی کے لیے اپنے مزاج کو آمادہ کرنا پڑتا ہے ۔ اس سلسلے میں اگر ہمارے بہنوئی کا تعاون نہ ہوتا تو آپا بھی یہ ذمہ داری نہ اُٹھا پاتیں ، میں ان کے اس احسان کو کبھی نہ بھلا سکوں گی ! بہن بھائیوں کے درمیان دراصل اصلی محبتیں یہ ہی ہوتی ہیں کہ مشکل گھڑی میں ہم ہاتھ آگے بڑھائیں ! اور مجھے لگتا ہے ہم بہنوں اور بھائی کا تعلق کچھ ذیادہ گہرا اور میٹھا رہا ،،،، اب ہماری آپا اور بڑے بھائی جان ، اللہ کی سچی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں ،، اللہ ان کی نیکیوں کا انھیں بہترین اجر عطا کرے آمین !۔
دراصل ،، ہمارے مشرقی گھرانوں میں جب لڑکی کسی غیر گھر میں بیاہ کرجاۓ یا اپنوں کے !!! اسے لڑکی نہیں بلکہ "" پا ٹھی "" عورت جان لیا جاتا ہے ! آخر وہ بیوی بنی ہے تو اس کے لیۓ اسے بہت نوجوانی میں ذہنی طور پر تیار کیا جاتا رہتا ہے ،،، لیکن بطورِ بہو ، بطورِ بھابھی ، وہ پہلی دفعہ بن رہی ہوتی ہے ! ابھی وہ انہی رشتوں کی گھمن گھیریوں میں چکرا رہی ہوتی ہے ،،، کہ ماں بننے کا کٹھن مرحلہ آپہنچتا ہے ،،، اب اگر وہ لڑکی سسرال میں ہے یا خود اپنے گھر میں زچگی کا وقت گزار رہی ہے تو ،،، اس نوجوان ماں کو مکمل ریسٹ ،،، اور بہت ذیادہ مددگاری ،،، اور جذباتی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے ! کیوں کہ وہ اپنی زندگی میں بہت کٹھن اور بالکل نئےتجربے سے گزری ہوتی ہے ! اس لیے وہ لڑکیاں جو پہلی مرتبہ ماں بن رہی ہوں اگر والدین آسانی سے انھیں رکھنے کی پوزیشن میں ہوں تو وہ اپنا یہ دور ان کے پاس گزاریں ،،، جو آرام اور سکون والدین دے سکتے ہیں،،،کوئی نہیں دے سکتا !!! (یہ میری ذاتی راۓ ہی نہیں بلکہ اس عمر تک میرا عمومی تجربہ بھی ہے ) ،،،،،میں بہرحال اپنے والدین کے پاس ہی رہی ، اور بہت اچھے سے رہی ۔ اس لیۓ میں اپنی سہیلیوں ،اور رشتہ دار ہم عمروں کو دیکھ کر ہی  یہ تجزیہ کر رہی ہوں !۔ 
مجھے اباجی نے گھر کا مکمل اختیار دیا ہوا تھا مجھے وہ لمحہ آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب اماں جی کے بعد کافی دنوں تک رہنے والے مہمانوں کے جانے کے بعد گھر کی فضا کچھ نارمل ہوئی تو کھانے کی میز پرکھانا لگایا گیا میں بچوں کے کسی کام میں مصروف تھی ،،، آپا ، جوجی اور پھر اباجی کی آوازیں مجھے کھانے پر آنے کے لیۓ بلا رہی تھیں ،،، جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو سب کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے ،، اور میرے لیۓ اکیلی ، الگ کرسی خالی تھی ! جو گھر کے سربراہ کی ہوتی ہے ،،، کچھ لمحے کے لیۓ میرا ذہن ماؤف سا ہو گیا ! لیکن جلد ہی خود کو نارمل کر لیا ! اس کے بعد کے سال اباجی کے ساتھ کیسے گزرے یہ تو اباجی ہوتے تو معلوم کرتی ،،، لیکن اتنا پتہ ہے کہ ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ! الحمدُللہ !۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ،،، اباجی کے دوست ، رشتہ دار جب جب آتے ان کی اسی طرح مدارت ہوتی جیسے اماں جی کے دور میں رہی ،،، اباجی ، مالی اور جسمانی لحاظ سے کسی کے محتاج نہیں تھے ،،، بلکہ میں ان کے زیرِ سایہ رہ کر بہت سے فائدے اُٹھارہی تھی ،،، ! 
حالات کچھ اس نہج پر رہے کہ ہم اپنے بچوں سمیت اباجی کے پاس ہی رہے ، کہ اس دوران جوجی کی شادی ہوئی تو اب اباجی مزید اکیلے ہو گۓ تو یہ ہی قدرت کی طرف سے فیصلہ ہوتا چلا گیا ،،،،،،،،،، لیکن یہاں میں ایک "" دعا """ کا ذکر بھی کرنا چاہوں گی ! جیسا کہ میں نے پہلے شروع کی اقساط میں سے ایک جگہ ذکر کیا تھا کہ اباجی کی والدہ ( ہماری دادی ) خیبر پختون خواہ کے ایک شہر چارسدہ کے گاؤں عمر زئی میں دفن ہیں ! اباجی کا دل چاہا کہ اپنی والدہ کی قبر پر ہو آئیں تو وہ آپا ، بھائی جان اور مجھے ساتھ لے کر عمر زئی کے اپنی پیدائش والے گھرکے پڑوس میں پہنچے ! اور مجھے انھوں نے پہلے اندر بھجوایا ، تاکہ اگر خواتین ہیں تو ان سے پہلے سامنا ہو جاۓ ! جب میں اندر گئی تو اباجی کی والدہ کی سہیلی قریبا" " نوے سال سے اوپر" کی بزرگ خاتون نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور محبتوں کے ساتھ ہماری خاطر تواضع شروع ہو گئی اس دوران انھوں نےہمیں جس " ڈرائنگ روم ٹائپ کمرے میں بٹھایا ، اس میں ایک بڑی سی الماری تھی ، جس میں صرف مہمانوں کے لیۓ استعمال ہونے والے برتن تھے ! سب ہی برتن " نوادرات " لگ رہے تھے ، اتنے میں ایک بوڑھا سا ملازم آیا اور اس نے اباجی سے پشتو میں کہا میں نے یہاں سے برتن نکالنے ہیں ، آپ ایک سائڈ پر ہو جائیں ، اس صوفے پر میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ میں اُٹھی اور "بابا جی سے اس خیال سے ٹرے لے لی کہ میں ہی انھیں یہ برتن نکال دیتی ہوں ایسا نہ ہو ان سے نہ سنبھل سکیں !! دیکھاتو الماری میں دھول کی موٹی تہہ پڑی ہوئی تھی ،، ساری الماری اَٹی ہوئی تھی ، باباجی برتن لے کر چلے گے تو میں نے الماری بند کرتے ہوۓ کہا """ میں تو اپنے ماں باپ کو کبھی اکیلےنہیں چھوڑوں گی ، ان کا بڑھاپے میں کون خیال کرے گا ، کیا ان کا گھر ایسا دھول میں اٹا ہو """میری جذباتی بات کا میرے بھائی، آپا، یا ، اباجی نے کیا جواب دینا تھا،سب  نے نظراانداز ہی کیا ،،، لیکن وہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی ، جب کاتبِ تقدیر نے لکھ بھی دیا ، ،،، اور پھر میں والدین کی محبتوں تلے ہی رہی ،،، اور مجھے آج ،،، 66 سال کی عمر میں یہ لکھنے میں کوئی باق نہیں کہ مجھے اس بات کا لمحہ بھر کا ملال نہیں کہ ایسا کیوں اور ویسا کیوں ہوا ،،،،،! میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے " اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو " خدمت " کے لیۓ خود چُن لیتا ہے ،، اس میں اپنی کوشش یا پلاننگ نہیں چلتی ، اور یہ بھی طے ہے کہ "ماں " بیٹے یا بیٹی کو ایک جسے " درد " سہہ کر جنم دیتی ہے ، تو پھر خدمت کرنے  کے وقت یہ تخصیص کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
( منیرہ قریشی ، 11 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں