جمعرات، 16 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(45)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( 45)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کی فیکٹری سے بطور چیف سیکیورٹی آفیسر ریٹائرمنٹ 1973ء میں ہوئی۔ وہ اس فیکٹری میں لگاتار 9 سال رہنے والے اب تک کے واحد چیف سیکیورٹی آفیسرتھے ، ورنہ اس پوسٹ پر ذیادہ سے ذیادہ تین سال تعیناتی ہوتی ، اور ایسا اب بھی چل رہا ہے۔ الحمدُ للہ اباجی نے اپنے دور میں قریباًً چار میجر جنرلز کے انڈر کام کیا اور عزت سے ریٹائر ہوۓ ، اس دوران فیکٹری کے گرد بےشمار زمین ویران پڑی تھی وہاں دن کو بھی گیدڑ پھرتے اور لوگ سرِشام وہاں سے نہ گزر سکتے تھے ،،، اب فیکٹری ورکرز کے لیۓ مزید رہائش کی ضرورت پڑی تو اسی زمین پر سرکاری کواٹرز بناۓ گۓ ،،،، کچھ مجبوراً شفٹ ہو گۓ ہمارے رشتہ کے چچا کی شادی ہوئ ، انھیں وہیں  کوارٹر ملا !ایک دن انھوں نے ہماری دعوت کی اس وقت تک اباجی نے کارنہیں خریدی تھی ( 1965ء کے شروع کے دن تھے )، اباجی نے اس 4 میل کے فاصلے کے لیۓ آنے اور جانے کے لیۓ تانگہ " بُک" کرایا ،اور اہلِ خانہ سے کہا کہ شام کا کھانا سات بجے تک دے دیں ، اور جب ہم اُن کے گھر سے چلے تو یہ ایک ڈرانے والے 4 میل تھے ، آس پاس کوئی جاندار اگر راستے میں تھے تو صرف گیدڑ !! جو غول کی صورت پھر رہے تھے ، ان گیدڑوں نے فیکٹری کے اندر جہاں فیکٹری شاپس تھیں نہایت گھنے جنگل تھے انہی میں ان کے ٹھکانے تھے ، وہ آبادیوں میں آکر مرغیوں اور گھر کے پرندوں یا کبوتروں کا شکار کرتے ،،، سردیوں میں ان کی کورس میں آوازیں آتیں تو مجھے اور جوجی کو وہ کہانی یاد آجاتی ،جس میں ایک مالک نوکر سے پوچھتا ہے یہ کیوں چِلا رہے ہیں تو چالاک نوکر کہتا ہے "' انھیں سردی لگ رہی ہے یہ کمبل مانگ رہے ہیں " اور یوں مالک کی بیوقوفی ، نوکر کی چالاکی کو کامیاب کر دیتی !!! ہمیں بھی یوں لگتا جیسے یہ گیڈر کمبل مانگ رہے ہوں ، ہمارے گھر دو رشین کتے تھے ،،، اور ہمارے گھر کے سامنے والوں نے جرمن شیفرڈ پالا ہواتھا ان کے بھونکنےسے گیدڑ اس جانب کم رخ کرتے ،،،،، خیر، جنرل اُمراؤ خان نے اُس ویران جگہ کو استعمال کا سوچا اور انھوں نے نہایت نارمل قیمت پر پلاٹس کی بکنگ شروع کی ، پانچ مرلے سے سے 4 کنال تک کے گھروں کا آیئڈیا ،،، گھر بنا کر دینے کا ٹھیکہ دیا گیا اور اس نئی بستی کا نقشہ بھی بہت ہی اچھا تیار ہو کر بننا شروع ہو گیا ،،، جو" ورکر" فیکٹری سے ریٹائر ہوتا اس کے پیسوں سے جوں جوں گھر تیار ہوتے گئے وہ یہاں شفٹ ہوتے  چلے گئے ،، اور یہ بستی جسے " بستی کاریگر " کا نام دیا گیا ،،، آباد ہوتی چلی  گئی ، ،، اسی میں اباجی نے دو کنال والا گھر بک کرایا ہوا تھا ، ریٹائرمنٹ کے بعد اسی میں شفٹ ہوۓ، اس کے لان کو اماں جی نے بہت سی کیاریوں اور چند درختوں سے سجایا ، انھوں نے اس ذاتی گھر میں صرف تین سال گزارے ! اسی میں وہ میرے فرض سے فارغ ہوئیں ، اسی میں اُن کا انتقال ہوا ، یہیں میرا بیٹا عمررؤف بھی اپنے جنت کے گھر سدھارا اور باقی تینوں بہن بھائی اسی گھر میں اپنا بچپن گزارتے رہے ۔ یہیں جوجی اور بھائی جان کی شادی ہوئی ، اور ،،،، اسی گھر میں میرے تینوں بچے پڑھ لکھ کر فارغ ہوۓ ! ان میں سے لڑکوں نے ایم بی اے کیۓ اور بیٹی نے بی اے کے بعد فائن آرٹس میں ڈپلوما کیا ، اسی گھر میں بڑے بیٹے کامل علی اور چھوٹی بیٹی نشل کی شادیوں سے فارغ ہوئی ،،،اسی گھر میں ، میں پہلے دادی اور پھر نانی بنی ۔اسی گھر میں ہم نے اماں جی کے بعد اباجی کے زیرِسایہ بہت سی خوشیاں دیکھیں اور بہت کم پریشانیوں سے واسطہ پڑا، ،،،، جب اباجی بہت بزرگ ہوتے چلے گۓ ، تو انھیں کوئی جسمانی تکلیف نہ تھی ،،، وہ بہت اچھی صحت کو اپنے رشتہ داروں کے پاس آنے جانے کو تا دیر انجواۓ کرتے رہے ۔ قریباً 70 برس کی عمر تک کار چلاتے رہے ! ان کی بہنیں اکثر ان کے پاس وزٹ کرتیں ۔ ان کے چھوٹے دونوں بھائی 70 ، 72 سال کی عمر تک انتقال کر گئے لیکن دونوں بہنیں اور اباجی 82 ، 84 سال تک کی عمر دیکھ کر گئے ۔ یہ سب بہن بھائی خوش قسمت رہے کہ محتاجی والے بڑھاپے کا دورانیہ بہت ہی کم رہا ۔ اباجی نے صرف ڈیڑھ سال ایسا گزارا کہ انھیں چلنے پھرنے میں مشکل پیش آئی ،،، اصل بیماری اسی دوران " ڈمنشیا " کی تھی ،، اس میں بھی ان پر فیز آتے تھے! کبھی وہ بالکل ٹھیک ہو جاتے لیکن 24 گھنٹے بعد وہ اسی بلینک فیز میں چلے جاتے ۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ اباجی انتہائی تحمل اور صبر سے وقت گزارنے والے مریض تھے ، وہ کم آمیز تو تھے لیکن اس بڑھاپے میں مزید کم آمیز ہو گئے تھے ،،،،،،، انھیں کبھی بہت اچھے اچھے مرغن کھانوں کے شوق نہیں تھے ، ،، ہماری بھی اُن کی ان عادات کو فالو کرانے کا سہرا اماں جی کے سر جاتا ہے کہ وہ ہی پکتا جو اباجی کو پسند ہے ،،، اباجی سلاد پسندکرتے تھے ، اورایک عجیب عادت تھی کہ دوپہر 11 بجے والی چاۓ کے ساتھ ایک گاجر اورتھوڑی سی تازہ مولی ضرور کھاتے ، یا ایک کھیرا ہوتا ۔ کبھی بھی اباجی موٹے نہ ہوۓ ! خیر اس میں وراثتی جینز کاعمل دخل بھی تھا کہ یہ سب بہن بھائی نہ جوانی میں نہ بڑھاپےمیں " اوور ویٹ " نہیں ہوۓ ! اب جب اباجی بیمار ہوۓ ، اور انھیں سنبھال کر کرسی پر بٹھانا پڑتا ، یا نہلانے کے لیۓ واش روم لے جانا پڑتا تو کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی ،! اللہ کا لاکھ شکر ، ہم اولادوں نے تو جو خدمت کی تھی وہ ہمارا فرض تھا ، لیکن اباجی کو انھیں اگلی نسل یعنی میرے بچوں نے انھیں سنبھالنے میں وہ حصہ لیا جو ان بچوں کی خوش قسمتی کا باعث بنے گا آمین ! اس وقت علی ، ایم بی اے میں تھا اور باقی دونوں کالج میں تھے ، علی نے اپنے نانا کو ایک بےبی کی طرح سمجھ لیا تھا ،،، کھانا نہ کھاتے یا دوائ نہ لیتے وہ جس پیار ، سے منہ پر بوسہ دے  دے کر  کے انھیں کھلاتا ،،،، وہ منظر میں نے ابھی تک تو نہیں دیکھا ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ایک دفعہ علی کو اپنے ایک دوست کی مہندی پر دوستوں نے زبردستی روک لیا ،،، تو اباجی نے مجھ سے بار بار پوچھا ،،،، وہ کہاں ہے ؟ میں پوچھتی ،،اباجی کون ؟ اس وقت وہ اس کا نام بھول گئے تھے ۔ آخر کہنے لگے ،،، وہ جو مجھے پیار کرتا ہے !!!!!!! تب میرے لیۓ یہ بات باعث ِسکون ہوئی کہ ہم نے اباجی کو محبتوں کے حصار میں رکھا ،، اور اس پارکنسن کی بیماری میں بھی انھیں احساس ہے کہ مجھے پیار کیا جاتا ہے !!اباجی کو نہلانے ، ان کی شیو کرنے ، انھیں سردیوں میں باہر دھوپ میں بٹھانے ، اور ان کے ساتھ گپ شپ کرنے میں علی پیش پیش رہا ، لیکن اباجی کو اخبار پڑھ کر سنانا ، اور انھیں لباس بدلانے میں ، کھانا کھلانے میں باقی دونوں بچے مجھے پوری مدد دیتے۔ ،،، اباجی کی تیمار داری میں آپا اور ہماری چھوٹی پھوپھی جی نے اپنی اپنی ، خدمت کی مثال قائم کی ، ،،،،،، اباجی کے اس گھر کو جو انھوں نے کراۓ پر چڑھایا ہوا تھا ، ،، جب ایک دفعہ خالی ہوا تو ہم دونوں بہنوں نے ان سے یہ اُتنے ہی کراۓ پر لے لیا ،،، جتنا کرایہ دار نے اس وقت چھوڑا تھا ،،، کیوں کہ جوجی ، کالج کی لیکچرر شپ سے فارغ ہوچکی تھی اور میں ان دنوں کانوونٹ سکول میں پڑھا رہی تھی ! جیسا میں پہلے ذکر کر چکی ہوں کہ ہماری بہت مخلص سہیلی شاہدہ نعیم نے ہمیں بزور یہ سکول (1991ء) میں کھلوانے کے خیال کو عملی جامہ پہنایا ! تو ہم نے بھی بہ مشکل رضا مندی ظاہر کر کے ، یہ سوچ کر اسی گھر میں سکول کھولا کہ ۔۔۔ چل گیا تو ٹھیک ، ورنہ بند کر لیں گے ! ،،،، اپنے قریباً سال کانووینٹ سکول میں پڑھانے کے تجربے نے بہت فائدہ دیا ۔ اور اباجی کی زندگی میں ہم نے اپنے سکول کا پہلا "پیرنٹ ڈے"(ء 1992) میں بھی منایا ،، ۔اس میں چیف گیسٹ " شاہدہ نعیم " کو بنایا ! اگرچہ ہماری صفِ اول ٹیم اباجی اور بڑے بھائی جان تھے جنھوں نے قدم قدم پر اپنی ، ہر قسم کی وہ سپورٹ ساتھ ساتھ رکھی جو اگر نہ ملتی تو ہم کبھی یہ ادارہ چلانے ،کی ہمت نہ کر پاتیں ۔ کیوں کہ ہمارا مختلف دفتری کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا ،،،، اور جب اباجی بیماری کے ہاتھوں بستر کے ہو کر رہ گۓ ، تو میں نے اور آپا نے فیصلہ کیا کہ صبح وہ آجایا کریں گی اور جب میں دو بجے سکول کی چھٹی کے بعد گھر آ جاؤں تو وہ واپس گھر چلی جایا کریں ،،، آپا بھی 20 منٹ کی واک پر رہتی تھیں اورچھوٹی پھوپھی جی ، تو 10 ، 15 منٹ کی واک پر رہتی تھیں ،، وہ تو اپنے بھائی کی محبت میں خود ہی " آن ڈیوٹی " ہو گئیں ! اس طرح یہ دونوں پھوپھی ، بھتیجی صبح آ جاتیں ، اور میں تسلی سے سکول چلی جاتی ، پھر بعد کا دن رات ،مَیں اور بچے مل کر سب کچھ سنبھال لیتے۔ ان دنوں جوجی کی ٹونز بیٹیاں بہت چھوٹی تھیں اس لیۓ اسے ان ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ۔ ابا جی کی بیماری کا یہ دورانیہ ڈیڑھ ، پونے دو سال کا رہا ،،،، لیکن اللہ کا شکر کہ اباجی کو کبھی کسی بے زاری کا سامنا نہیں کرنا پڑا ،،،! ( یہ سچ صرف لکھ نہیں رہی بلکہ اللہ کا مزید شکر ادا کرتے ہوۓ بتا رہی ہوں ) جیسا اکثر بیماربوڑھے لوگوں سے اظہارِ تھکاوٹ ، یا اظہارِ بوریت دیکھنے میں نظر آجاتا ہے ،،، جو ہم سب کے لیۓ وہ امتحان ہے جس کا رزلٹ آنے والے وقت میں ہم نے کھول کر دیکھنا ہوگا۔
( منیرہ قریشی 17 نومبر 2017ءواہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں