منگل، 28 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(53)۔

یادوں کی تتلیاں" (53)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ یادوں کی تتلیاں جب ذہن کے اُس پَرت کو کھولنے کی کوشش کرتی ہیں ، جو میرے ذہن سے محو ہو چکا ہو ، اور لکھتے ہوۓ یکدم ایسی بھولی بسری یاد سامنے آجانے سے، مسکراہٹ بھی خود بخودچہرے پر آجاتی ہے ، اور کبھی تتلیاں ایسے نیم اندھیرے کونے میں چلی جائیں ، جہاں کوئی پرانی تصویر ، یا کوئی تحریر رکھی ہو ، جسے دیکھ کر آنکھ کے کونے چمکنے لگتے ہیں!!! اور زندگی تو شاید اسی کا نام ہے!۔
کانونٹ سکول میں مجھے چار سال مکمل ہوچکے تھے ، جب ہمارے پرانے پڑوسی ( شاہدہ رشید ) اور ہماری عزیز سہیلی کے فون آنے لگے ،یا جب ہم ملتے تو یہ موضوع بھی ضرور زیرِبحث ہوتا کہ تم ، دونوں بہنیں مل کر واہ میں سکول شروع کرو ، وہاں اچھے سکولوں کی کمی ہے ، اب تم دونوں کا چھوٹے بچوں کی تعلیم کا کچھ تجربہ بھی ہو چلا ہے وغیرہ،،، لیکن ہم دونوں ( میں اور جوجی) اس کی باتیں سُنتیں اور انشا جی کےایک شعر کے اس مصرعے کوکچھ ردوبدل کے ساتھ چُپ ہو جاتیں ،،،،،،
؎ ہم ہنس دیۓ ، ہم چُپ رہے ، منظور تھا پردہ "اپنا " !
دراصل وہ قریباً دس سال سے اسلام آباد میں ایک کامیاب سکول چلا رہی تھی ، اور اب اس کا ارادہ کالج تک پہنچنے کا تھا۔ اس نے ایک نہایت مخلص دوست ہونے کے ناطے ہمیں یہ مشورہ دیا تھا،،،،،،، نیز یہ کہ اس کے پیچھے دو مردوں کی فُل سپورٹ تھی ایک اپنے والد اور دوسرے اس کے شوہر !!! لیکن وہ خود اپنی ذات میں بھی ایک باحوصلہ " مرد " ہے !!! ہم دونوں شاید اس دور میں بہت حوصلہ مند بھی نہ تھیں اور ہم اگر ، مگر کے چکروں میں تھیں ۔ جسے شاہدہ نے مسترد کر دیۓ اور ، ،، سب سے ذیادہ اباجی کے "گھر "نے ہمیں تقویت دی تو ہم نے یہ ناممکن قدم اُٹھالیا ،،،،، باقی حوصلہ بڑے بھائی جان کی وجہ سے ہوا ،،، جو شروع میں شاملِ پراجیکٹ تھے ،لیکن خودچند ما ہ بعدہی ہمارے اس پراجیکٹ سے نکل گۓ کہ اب میں اپنے دونوں بچوں کی شادی میں مصروف ہونے جا رہوں اس لیۓ مزید شاید ایکٹو نہ رہ سکوں گا! ۔
بہر حال بات ہورہی تھی کہ شاہدہ کا یہ اصرار کچھ عرصہ معمول کے مطابق چلتا رہا ، لیکن ایک دن اس نے صاف کہا ، اگر تم دونوں نے سکول کا پراجیکٹ شروع نہ کیا تو ،،،، میں نے وہاں سکول کھولنا ہے اور انچارج تمہی نے بننا ہو گا " !!! اس کی اس "" مخلصانہ ،،، اور قدرِ " ظالمانہ" دھمکی کام کر گئی۔تب ، انہی دنوں اباجی کا ذاتی گھر جو کراۓ پر لگا تھا ، خالی ہوا تو ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ اباجی سے آخری کراۓ کے حساب سے یہ گھر لے لیا جاۓ ، تاکہ کسی اور جگہ لیں گے ، تو کیا پتہ وہ کسی بھی وقت خالی کرنے کا نہ کہہ دے ، کرایا بڑھانے کا نہ کہہ دے وغیرہ ،،،،! ! ہم دونوں نے اپنی " بالکل ذاتی جمع پونجی" کا جائزہ لیا ،،، ( جو ہم دونوں نے سکول اور کالج کی جاب کے دوران اکٹھی کر رکھی تھی )اور اللہ کا نام لے کر استخارہ کر کے، ، ، اُس جدوجہد کا آغاز کیا ، جس کا ہمیں کوئی تجربہ نہیں تھا ،،،، جہاں تک تعلق تھا ، پڑھانے ، سلیبس سیٹ کرنے کا وہ تو ایک ٹیچر ہونے کے ناطے خودبخود ٹریننگ ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن سکول چلانے کا ایک کاروباری انداز بھی، اب سیکھنے کی ضرورت تھی ، اور جب بات اُصول و ضوابط کے ساتھ نبھانے کی ہو! تو بہت احتیاط کی ضرورت تھی کہ " اباجی اور بڑے بھائی جان " کی صورت دو فوجی مزاج بندے ہم پر کڑی نگاہ بھی رکھے ہوۓتھے، ،! کہ ہم سے کوئی ایسا بلنڈر نہ ہو جاۓ جو قانون کے دائرے کو توڑے۔
سکول کی شروعات ہوئی تو ہم نےبڑے بھائی جان اور آپا کوبھی کہا کہ وہ بھی شامل ہو جائیں ، اب وہ ریٹائرڈ زندگی شروع کر چکے ہیں تو ان کی بھی مصروفیت ہو جاۓ گی، وہ بھی اس پراجیکٹ میں شامل ہو گئے ! گھر اباجی کی طرف سے ملنے پر ہمیں اطمینان ہو گیا کہ اگر کبھی کراۓ کے لیۓ پیسے نہ بھی ہوۓ تو کوئی نکالے گا نہیں ،،، شاہدہ نے لِسٹ بھیجی کہ سب سے پہلے فیصلہ کرنا ہے کہ کون کون سی کلاسز کا آغاز ہوگا ،،، تو وہ فیصلہ ہوا کہ صرف " پلے گروپ ، نرسری ، اور پریپ ، ہی سے شروع کیا جاۓ،، یہ 1990ء کے سال کے ستمبر ، اکتوبر کی بات ہے ۔جب جوجی ، اور آپاکی بیٹی نشمیہ، اپنی اپنی معلومات صفحات پر اکھٹی کرتیں !کیوں کہ نشمیہ (جسے پیار سے چندا کہا جاتا ہے) نے بھی واہ آنے سے پہلے کراچی میں سال بھرنرسری کلاس کو پڑھایا ہوا تھا ،،، میں نے باہمی مشارت سے، ابھی کانونٹ سکول نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ اس لیۓکبھی مجھے انھیں دیکھنے کا وقت ملتا تو دیکھ لیتی ،، ورنہ سب بنیادی خریداری ، مثلاً فرنیچر، ،بورڈز، آیا اور چوکیدار کی سلیکشن ، آفس کا تمام سامان ، بچوں کے لیول کے " تعلیمی ایکوپمنٹس " وغیرہ ،، جوجی نے خریدےحتیٰ کہ سکول کے ایک کارنر میں ریت ڈلوا کر اس کے گرد " فینس" لگوا کر اسے بچوں کے کھیلنے کے لۓ تیار کرنا ،،، ایک پنجرے میں کچھ آسٹریلین طوطے ، رکھے جانا،،، یہ سب کام جوجی نے کرواۓ،،، یہ سب کچھ واہ کینٹ میں اتنا نیا اور تعلیمی لحاظ سے مختلف تھا۔ کہ ہر تعلیم یافتہ ماں اسے بہت سراہتی ! آج بھی ہمارے سکول کی شُہرت میں یہ لفظ شامل سمجھا جاتا ہے کہ " واہ میں پلے گروپ ، نرسری ، اور پریپ کے"پایونئیر" " صرف یہ ہیں۔جوجی کے انٹلیکچول اقدامات سے ہمارے سکول نے آس پاس کے ایف جی سکولوں کی قطار میں چند پرائیویٹ سکول بھی تھے  ان میں ایک خاص مقام پا لیا!،، یہ پرائیویٹ سکولز کچھ اچھے لوگوں نے چلا رکھےتھے لیکن وہ ایک مخصوص ، اور روایتی  سوچ کے مالک تھے ، جن کا ارادہ شاید صرف کاروبار کرنے کا تھا !لیکن ہمیں نہ تو کوئی جلدی تھی، نہ ہم نے کسی سے مسابقت کا سوچا ۔ دراصل ہم دونوں کے لیے آنکھیں سفید کر لینے کا فارمولا قابلِ قبول نہ ہو پایا۔
اللہ رحمت العالمین ، کا شکرادا کرنے کے لیۓ الفاظ کم ہیں جتنی اس کی نوازشیں ہیں، کہ اس نے ہمیں بتدریج ، سیڑھی در سیڑھی آگے بڑھایا ۔ جوجی کو چھوٹی ٹونز کی وجہ سے گھر بیٹھنا پڑا ۔ تو اس وقت تک میں اپنے کام نبٹا کر کانونٹ سے اب پوری طرح سکول میں محو ہو گئی تھی ،،، ،۔
ذرا سا میں سکول کے ابتدائی دنوں کا مزید ذکر کرنا چاہوں گی کہ ہم نے اس کے سلیبس کو بنانے کے لیۓ جینی کو ساتھ ساتھ رکھا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے انگلش کی ٹیچر تھی اور اس فیلڈ میں اس کا بہت تجربہ تھا ،، ہم سب نے کئی ہفتے پنڈی کے بہت سے بکس سٹالز سے انگلش اردو اور میتھس کی کتابیں خریدنا اور پھر جس لیول کے بچوں سے ابتدا کرنی تھی ، اسی لیول کی کتابیں لے کر، آپس میں تقسیم کر لیتیں ، جوجی کاؤنٹنگ ، ڈرائنگ ، یا سٹوری بکس کا مطالعہ کرتی ،، میں نے صرف اردو اور جنرل نالج ، یا اسلامیات کا ذمہ اُٹھایا ، اور جینی کو انگریزی لیول کی مشاورت دی گئی ۔ ،،،،،، کہنے کا ، مقصد یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کو چلانے سے پہلے ہم نے اٹکلپچو انداز اختیار نہیں کیا ،،، بلکہ اسے بہت ذمہ داری سے بہت کچھ سوچ بچار کے بعد شروع کیا۔ کیوں کہ ہم نے قوم کے بچوں سے مذاق نہیں کرنا تھا ، کہ چلو جی اب ہماری آمدن ، دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرے گی،،،، ! ہم نےسوچاتھا کہ ہم مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کو پیشِ نظر رکھیں گے ، اور اُن تک بہترین تعلیم پہنچانے کی کوشش کریں گے ،،،،، اب یہ فیصلہ تو ہمارے ادارے سے فارغ التحصیل ہو کر جانے والے طلباء اور اُن کے والدین ہی کر یں گے کہ ہم کس حد تک کامیاب رہے ،،،، ،،، اس بارے کچھ واقعات ان شا اللہ آگے بیان کروں گی۔
( منیرہ قریشی ، 28 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں