ہفتہ، 25 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(51)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 51) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کونونٹ سکول کو میں نے فروری1988ء میں جوائن کیا۔ اور جس طرح میرا ، اچھا وقت گزرا ، اسی لیۓ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ یہاں میرا " گولڈن پیریڈ" گزرا۔ اس لیۓ کہ میں اندر سے سراپا ٹیچر تھی ،، موقع تین بچوں کی اماں بننے کے بعد ملا،،، میں بھی عمر کے لحاظ سے میچور اور اپنے بچوں کو پڑھا ، پڑھا کر آدھی استانی تو بن ہی گئی تھی ،،، باقی آس پاس کے ہمدردوں نے کمی پوری کی ، اور پھر جو اپنے طور پر سیکھا ، پرنسپل نے ٹھیک 10 مہینے بعد بلا کر کہا،، بی ایڈ کے پیپرز ہونے والے ہیں آپ بھی داخلہ فارم فِل کریں اور بی ایڈ کر لیں ، اور دو ماہ بعد پیپرز بھی ہو گئے ، رزلٹ بھی آگیا ، اور مزید مجھے  مستقل بھی کر دیا گیا ، میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ مجھے شروع سے ہی نویں ،دسویں ،اور آٹھویں کی کلاسز ملیں۔،،،، صرف ایک سال ایسا آیا ،،،،، جب مجھے ساتویں کلاس کی سوشل سٹڈڈیز  دی گئی۔ ہمارے ملک میں یہ مضمون نہ معلوم کیوں ، بہت غیردلچسپ انداز سے ترتیب دیا جاتا ہے ،،، ( مجھے آج بھی یہ شکایت ہے ) ۔ میں تو خود اس مضمون کو بوجھ سمجھ کر پڑھتی رہی، اپنے بچوں کو بھی بڑی بےزاری سے پڑھایا ،،،تو میں اب کیسے ساتویں جماعت کے 55 بچوں سے بےانصافی کرتی ؟ دراصل ، اس سال ایک ٹیچر کی اتفاقی غیرموجودگی پر اس کے پیریڈز بانٹنا پڑ گۓ،، میں نے ذمہ داری لے تو لی لیکن ، اس شرط پر کہ اگلے سال یہ مضمون مجھے نہ دیا جاۓ۔اس کی کتاب لے کر گھر آکر 10 دن خوب اچھی طرح سٹڈی کی (چھٹیاں تھیں) اس دوران اسے دلچسپ بنانے کے طریقے سوچتی رہی سب سے پہلے اس کے تین حصے کیۓ ، ایک حصہ صرف "اوبجیکٹو سوالات کا " دوسرا " سبجیکٹو " ! اور تیسرا زبانی یا وائیوا ,,,,,,, اور جب میں نے بچوں کو بھی یہ ہی آؤٹ لائن لکھوا دی ، تو وہ کچھ حیران ہوۓ کہ وہی  روایتی سوال جواب سے ہٹ کر کیا ہو رہا ہے !!! اصل میں مجھے یہ نکتہ بھی سُوجھ گیا کہ یہ کون سی بورڈ کلاسز ہیں ، کہ مخصوص پڑھانے کی پابندی ہو ، چلو یہ تجربہ کر دیکھوں۔ اور جناب چند دن میں بچوں کا بھی یہ حال کہ وہ مزید پڑھنے پر اصرار کرتے ،،، اسی دوران وہ  باب آیا جب برِصغیر کی مختصر  تاریخ اور اس پر بیرونی حملہ آوروں کا حال بیان ہوا تھا ! تب میں نے ایک اور تجربہ کیا کہ ایک بہت صحت مند بچی کو بہت سستے کپڑے کاایک بڑا سا چوغہ پہنایا جس پر برِصغیر کا نقشہ بنا یا گیا تھا۔ اب دو بچیوں کو محض چہرے کے میک اَپ اور ایک ایک چوغہ ، اطالوی ، پھر دو کو فرانسیسی ، دو کو انگریزوں کے گیٹ اَپ کے ساتھ ،، بہت مختصر انداز سے ایکٹ کر کے کروایا ، اور وہ برِ صغیر پر حملہ کرتے ، پھر مقامی لوگوں کی جدو جہد دکھا دی !!! یہ سب اپنی ہی کلاس روم میں اسی ساتویں جماعت کے بچوں کے سامنے کیا گیا ،اور ان کے یونیفارم کے اوپر چوٖغے پہنا دیۓ، اور اسی سوشل سٹڈیز کے پیریڈ میں کیا ،، اس لیۓ کہ وقت ضائع نہ ہو، اور دوسرے یہ کہ بچے ڈرامے کے ذریعے اپنی معلومات کو دلچسپ انداز سے سیکھیں ،،، پھر مجھے خیال آیا ابھی 25 منٹ کی ریسیس ہونی ہے ،، کیوں نا اپنی واہ واہ کروا لوں ! چناچہ بچیوں سے کہا ، ایک دفعہ اور یہ ایکٹ کر دینا ،،، سسٹر مونیکا سے جا کر درخواست کی کہ آپ بھی بچوں کو " بَک اَپ " کر دیں وہ اور دو تین فارغ ٹیچرز کو بلا کر دکھایا ! سبھی نے اس آئیڈیا کو پسند کیا ، ، بلکہ مسز ظفر کم ہی تعریفی جملے بولتی تھیں ، اس موقع پر انھوں نے بھی دل کھول کر نہ صرف تعریف کی بلکہ ، باقی ٹیچرز سے کہا کہ مسز قریشی نے جس طرح سوشل سٹڈیز کی کتاب کو سیٹ کیا ہے ، آگے آنے والی ٹیچر کو اسے ہی فالو کرنا چایئے،، ایک مدت گزر گئی ،، وہ ساتوٰیں جماعت کہاں گئی! لیکن ایک دن ایک پیاری سی جوان بچی ایک مینا بازار میں ملی ، اور کچھ دیر غور کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا، آپ مسز قریشی ہیں " ؟ ۔۔۔ میں نے جی کہا ،تو وہ محبت اور احترام کے ساتھ بولی " میم ،، آپ نے برِصغیر کی کہانی جس طرح ڈرامہ کر کے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تھی ، اب میں اپنے بچوں کو اسی طریقے سے پڑھاتی ہوں ، تو وہ جلدی سمجھ لیتے ہیں ! میم ، میں نےاِن کی ٹیچر کو بھی یہ طریقہ بتایا تو وہ بھی کرواتی ہے۔  (یاد رہے یہ 28سال پہلے کا قصہ ہے ) اس بچی کا اس طرح کہنا ، مجھے کتنا اچھا لگا ،، میں بتا نہیں سکتی ، کیوں کہ چند ایک کے لیۓ بھی کسی مضمون کو راغب کر لینے میں کامیابی ہو جانا ، بہت کامیابی ہے ( میرے نزدیک)!میں نے کوشش کی اور الحمدُ للہ ! اکثر کامیابی ہوئی ! سکول میں  سالانہ ایسا " ایگزیبیشن " منعقد ہوتاتھا جو کلاس ٹیچرز کے اپنے ٹیلنٹ اور بچوں کی کاوش کا اظہار بھی ہوتا تھا ۔ میں نے پہلے سال دیکھا ، اور صرف سیکھا ! اگلے سال کی تیاری میں نے اس طرح کی کہ ایک طالبہ کو ڈیوٹی دی کہ ہر طالبہ سے ہر مہینہ دو روپے لے، اور ایک کاپی پرسارا حساب لکھتی رہے،جب " ایگزیبیشن " کے دن قریب آۓ ، طالبہ نے حساب دیا ، شاید 50 یا 60 روپے کم تھے وہ خود شامل کیۓ اور میٹریل لا کر سب طالبات سے کہا کہ " سولر سسٹم " ارینج کرنا ہے ،، بچیوں نے بہت ٹیکٹ سے یہ سسٹم بنایا ، اور نہایت آسان طریقے سے سمجھ آجانے والے انداز سے ، سب سوالوں کے جوابوں سمیت تیاری کر لی ۔ دوسرا پروجیکٹ ، پھر سوشل سٹڈیز سے متعلق تھا، بلکہ جنرل نالج ہی سمجھۓ ! کہ دنیا کے اہم پہاڑ جنھیں " سر " کیا جا چکا ہو ، یا کیا جاتا رہا ہے ،،، ان میں سے پانچ پاکستان میں ہیں ،، مٹی سے پہاڑ بناۓ گے اور اوپر روئ سے برف کا افیکٹ دیا ! اور ان پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے پاکستانی جھنڈے نصب کیۓ ان پہاڑوں کے ناموں کے ٹیگ لگاۓ ۔ اور باہر سے آئی ٹِیم ، جن میں دو آئرش سسٹرز اور دو پاکستانی سسٹرز تھیں ، نے اس سال میری کلاس کو سیکنڈ پوزیشن کا حقدار سمجھا ! اور مجھے " ایکسیلنٹ پرفامنس کاسرٹیفیکٹ ملا ، اور میرا خیال ہے کسی نئی ٹیچر کے لیۓ یہ حوصلہ افزائی بہت تھی۔ 
اسی طرح مجھے یہ قصہ بھی آپ سب سے شیئر کرتے ہوۓ خوشی ہو رہی ہے کہ مجھے سکول جوائن کرنے کے پہلے سال جو نویں ، دسویں دی گئیں ،، ان کے جانے کے دن قریب تھے ، اس لیۓ میں ان چند مہینوں ، یا سال بھر کی محنت کو میں اپنے کھاتے میں نہیں رکھوں گی ! البتہ جس کلاس کو آٹھویں سے دسویں تک پڑھایا ،،، وہ خاصی کمزور جماعت کہی جا سکتی ہے ، اصل میں ایک سیکشن سائنس کا تھا جس میں مقررہ پرسنٹیج لینے والی طالبات وہاں لی جاتیں ، دوسرا سیکشن آرٹس گروپ کا تھا ، بقایا سب لڑکیاں یہاں بیٹھتیں ، اب ان بچیوں میں اگر کوئی بہتر یا ذہین لڑکی آ جاتی تو ٹیچر کی خوشی دوبالا ہو جاتی ۔ سائنس گروپ مسز تاج لیتیں تھیں ، ، اور مجھے آرٹس گروپ ملا ، انہی میں چند بچیاں ، پڑھنے والیاں تھیں ، میں نہ صرف کلاس ٹیچر تھی بلکہ اردو ، اسلامیات پڑھاتی بھی تھی ۔ اپنی سی محنت جو کر سکی ، کی ،،، اس زمانے میں نویں ، دسویں کا بورڈ امتحان اکٹھا ہوتا تھا ! باقی آرٹس کے مضامین ، کی ٹیچرز سے اُن طالبات کی پراگریس معلوم کرتی رہتی تھی۔ خیر سالانہ امتحان ہوا ،، رزلٹ نکلا ، اور میری کلاس کی بچی " خمسہ عابد " نے بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن لی ! ! ان دنوں  کُل نمبر 850 تھے خمسہ نے 715 نمبر آرٹس میں لیۓ ۔ بورڈ میں فسٹ آنے والی لڑکی کے 718 نمبر تھے ۔ اُس دور میں رزلٹ اخبار کے گزٹ کے ساتھ آتا ، اور بچوں کی تصاویر اور خبریں جن اخبارات میں چھپیں ! سکول نے بھی سنبھال کر رکھیں ، اور مجھے تو جینفر نے کہا یہ اخبار سنبھال کر رکھنا ، کبھی کام آۓ گا ، اب وہ "پرانے خزانے" میں تلاش کروں گی ، جس وقت ملا ، شامل کروں گی ،،،،، یہ ہی کامیابیاں ،،، اور کچھ سیکھنے کا جذبہ تھا جس نے مجھے " خود " کو دریافت کرنے کا موقع ، مجھے لگا کہ ٹیچنگ لائن میرے مزاج کےعین مطابق ہے ! یہ سب اُس رب کی مہربانیاں ہیں ، کہ اس نے میری انگلی پکڑ کر ، پہلے بی اے مکمل کروایا ، پھر سکول میں تربیت کروائی ،، بی ایڈ کر لیا ،پھر اچھے لوگوں کے درمیان وقت گزروایا ،،، اور ایسی کامیابیوں سے ہمکنار کیا جس سے اعتماد آتا چلا گیا ،،، میرے پیارے اللہ تعالیٰ ، میرے پاس تیری ان نعمتوں کے لیۓ کوئی اظہارِ الفاظ نہیں ! جو تیری شایانِ شان ہوں۔ الحمدُ للہ !!! ۔
( منیرہ قریشی ،25 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں