پیر، 20 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (48)۔

 یادوں کی تتلیاں" (48)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔1988ءفروری سے میرا روٹین واہ سے حسن ابدال کا شروع ہوگیا ، اس دوران ابھی میرے تینوں بچے واہ کے سرسید سکول میں تھے ، بیٹی پریپ تک پہنچ چکی تھی۔ اور ہاشم جس کا نام قاسم رکھا گیا تھا ، جب اسے نرسری میں داخل کرانے گئےتھےتو اس نے سکول کے آفس میں ہی ضد شروع کردی ،،کہ میرا نام ہاشم رؤف لکھا جاۓ ،، مجبوراً بات ماننا پڑی ! اس بات کو نارمل سا لیا گیا کہ چلو ذرا بڑی کلاس میں دوبارہ قاسم لکھ لیں گے۔لیکن وہ"دوبارہ" نہ آئی اور، آج تک ہاشم ہی چل رہا ہے، یہ اور بات کہ گھر کے لوگوں کے منہ پر ابھی بھی قاسم چڑھا ہوا ہے۔ دراصل جن دنوں پی ٹی وی پر نورالہدیٰ شاہ کا ڈرامہ "دیواریں"چل رہا تھا ، اس کا ہیرو ، ایک مزاج دار ، بہادر اور غیرت مند بتایا گیا تھا۔اس نے پتہ نہیں کیسے ،کتنا یہ ڈرامہ دیکھا اور ہاشم نام اسے پسند آ گیا اور اسی پر اڑ گیا ، ،،وہ اُس وقت کلاس ون میں تھا۔ ایک سال کسی طرح گزرا ، اور نشل بیٹی تو میرے سا تھ ہی سکول میں داخل ہو گئی ، لیکن یہ سکول صرف لڑکیوں کا تھا،،اس لیے دونوں لڑکے وہیں سرسید میں ہی پڑھتے رہے ، علی اس وقت ساتویں میں تھا۔ اُن دنوں میرا روٹین خاصا تھکا دینے والا رہا ، لیکن جوانی میں طاقت اور ہمت ہوتی ہے ، سب کچھ ہموار طریقے سے چلتا رہا ، میں ، جینی اور ایک اور ہماری سمارٹ اور جولی فیلو نگہت بھی اِسی پک اَپ میں جاتیں ،،، کچھ طالبات بچیاں بھی تھیں ، اس طرح پک اَپ خوب بھر جاتی ،،،،، جی ہاں ! ہم ٹیچرز کو ان بچوں کو ہر صورت بیٹھنے کی جگہ دینا پڑتی کیوں کہ ہم اس میں کھڑے نہیں ہو سکتی تھیں ،، کلاس پریپ ، ون اور تھری ، فور کی بچیاں کھڑے ہو کر جاتیں ، باقی ساتویں ، آٹھویں کی طالبات بھی کھڑی نہیں ہوسکتی تھیں ، کہ وہ قد میں لمبی تھیں ، اس طرح کھچا کھچ بھرے ہونےکی وجہ سے بچیوں میں بدمزگی بھی ہو جاتی، تو اس وقت مجھے یہ ترکیب سوجھی کہ میں بیٹھتے ہی کہتی " تو بچو ،، کل میں نے ایک کہانی پڑھی کہ،،،،،، اور اگلے لمحے وین میں مکمل خاموشی چھا جاتی، بچے پوری طرح متوجہ ہو جاتے اور صرف 15،16 منٹ کا راستہ آرام سکون سے گزر جاتا ،،،، یہ کتنا پُراثر انداز تھا جس سے بچوں کو بدمزاجی سے بچایا لیا گیا،،،، گویا یہ ڈانٹ ڈپٹ کی بجاۓ ، ایک مؤثرطریقہ تھا ،،،، حالانکہ مجھے خوب اونچا بولنا پڑتا تاکہ سب تک میری آواز پہنچے ،،، ایک دن میری چھٹی تھی ، اگلے دن مجھے ڈرائیور نے کہا " مس صاب ،کل گاڑی میں بہت ہنگامہ رہا ، آپ نے بچوں کو خوب قابو کیا ہوا ہے ،،، اور کسی سے قابو بھی نہیں آرہے تھے، ،،، تب میں نے سوچا اس بات کا حل ہونا چاہیے، انہی بچوں میں سے دو بچیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ ایک دن آپ نے وہی کہانی سنانی ہے جو میں سنا چکی ہوں، اور دوسرے دن دوسری بچی سناۓگی ۔ خاص طور پر جس دن میں چھٹی کروں۔ لیکن اُن بچیوں سے یہ ڈیوٹی نہ نبھ سکی ،کہ بچیاں انھیں سیریس نہیں لے رہی تھیں۔لیکن میں نے کہانی سنانے کی پالیسی پورے پانچ سال جاری رکھی ، اسی طرح میں سکول میں کبھی کبھار فارغ ہو جاتی تو پریپ یا ون کی کلاسز میں اس چلی جاتی جب ٹیچر اپنی کاپیاں چیک کر رہی ہوتی ، بچے خاموشی سے بےکار مصروفیت میں ہوتے ، جب ایک دن میں پریپ میں گئی ، ٹیچر سے اجازت لی اور شیر اور گدھے کی کہانی شروع کی ، میں بچوں کی نفسیات کے مطابق اور کہانی کے کرداروں کے مطابق آوازیں بھی نکالتی ، 40 بچوں کی کلاس میں"پِن ڈراپ سائیلنس" تھا ، ان کی آنکھیں پوری طرح کھلی اور منہ بھی کھلے ہوۓ تھے ! کہ اتنے میں سسٹر مونیکا کمرے میں داخل ہوئیں ، اور دوسرے لمحے انھوں نے مجھے جاری رکھنے کا اشارہ کیا اور خود سب سے پیچھے ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ جب میں نے کہانی ختم کی تو سسٹر نے تالیاں بجائیں ،،، تو بچوں کو بھی ہوش آیا اور تالیاں بجائیں !اب میرے شرمندہ ہونے کی باری تھی کہ سسٹرسے اجازت کے بغیر میں اس کلاس میں آگئی تھی ۔ لیکن شکر کہ ان کو احساس تھا کہ کلاس ٹیچر وہیں موجود تھی اور کاپیاں چیک کرتی رہی ،،، باہر آکر میں نے انھیں سوری کہا اور بتایا کہ میں دراصل اس عمر کے بچوں کو پڑھانا چاہتی ہوں ، انھوں نے صاف کہا ، ہمیں ان کو پڑھانے کے لیۓ ٹیچرز مل جاتی ہیں لیکن بورڈ کلاسز کو اردو ، کے مسئلے ہی پڑے رہتے ہیں ، اس لیۓ آپ کبھی کبھی ٹیچر کی مرضی سے کہانی سنا لیں لیکن کلاس نہیں دے سکتی ،،،،،، اس تجربے سے ہمیں ( مجھے اور جوجی کو) علم ہوا کہ کہانی سننے کا بچوں پر کتنا خوشگوار اثر ہوتا ہے ! اور یہ حقیقت ہے کہ کہانی سننا ہر عمر کا بندہ پسند کرتا ہے ۔اس سے ذہنی تصورات کا کینوس ، وسیع ہوتا ہے ۔ اس لیۓ ہم نے اپنا سکول شروع کیا تو باقاعدہ ایک پیریڈ " کہانی " کا رکھا ،،، لیکن افسوس وقت کے ساتھ یہ پابندی جاری نہ رہ سکی۔ اور اس میں ایک وجہ بہت " ڈیڈیکیٹڈ " ٹیچرز کا نہ ملنا بھی تھا ۔
کونونٹ سکول کے گروپ سے متعلق تو پہلے ذکر کیا جا چکا ہےکہ ہم آپس میں اچھی دوستی کے رشتے سے ایسے منسلک ہوۓ کہ آج بھی ہم اگر ملنے ملانے میں کوتاہی کر بھی لیں تو فون پر حال احوال پوچھ لیا جاتا ہے ،،،، نیلو کا ذکرِخیر اس لیۓ مزید کررہی ہوں کہ ہم سب کا کہیں پکنک منانے کا پروگرام ہے یا اکھٹے شاپنگ کا پروگرام بن گیا ہے تو نیلو نے اپنے بھائی کامران صفدر سے کہنا ، وہ اپنی بڑی پیجیرو لے آتا اور ہمیں گھما پھرا کر سب کو ان کے گھروں پر اتارتا ۔ اور یہ محض بہن کی محبت میں ڈیوٹی نبھائی جاتی ۔ اسے بھی احساس تھا کہ یہ بہن ، ماں ، والے سلسلے کو بخیر وخوبی چلا رہی ہے ! تو میں بھی اس کی اتنی بات تو مان سکتا ہوں ،،، ! جب کبھی کہیں اور کا پروگرام نہ بن سکتا ، تو بھی محض دن گزارنے کے خیال سے ہم سب نیلو کی وسیع ، اور ایک نودرات جیسی حویلی میں ، بہترین مہمان نوازی کا لطف لیتیں ، وہ دونوں بہت محبت اور خوشی کے جذبات کے ساتھ یہ مہمان نوازی کرتے ، بلکہ میرے بچوں نے بھی ایک دو مرتبہ اس قسم کی مہمان نوازی کا لطف اُٹھایا۔ علی کچھ سمجھ دار تھا اسے تو یاد ہے لیکن ، چھوٹے دونوں بہت کم عمر تھے ،،، ! نیلو کی شادی میرے جاب جوائن کرنے کے چار سال بعد ہو گئی اور وہ لاہور چلی گئی، کامران نے اتنی بڑی ذمہ داری کو شاندار انداز سے نبٹایا ۔ اسے علم تھا اس کی بہن اپنی سہیلیوں کے اس گروپ میں خوش رہتی ہے ، ولیمے پر اس نے کوسٹر ارینج کی اور بہ اصرار سب کو لاہور جانے کے لیۓمنا لیا، کچھ اور رشتہ داروں اور نیلو کی دو بہنوں کے ساتھ ہم نے لاہور کا یاد گار سفر کیا ، وہاں کامران ( جسے سب کامی کہتے ہیں ) نے چنبہ ہاؤس میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا ہوا تھا ! ولیمہ فنگشن کے بعد واپس آۓ ،،، راستہ بھر ہر دو گھنٹے بعد چاۓ کا پوچھتا، تاکہ ہم رکنا چائیں تو کوسٹر روک لے۔ لیکن وہ سفر ، چنبہ ہاؤس کا قیام ، اتنا دلچسپ تھا کہ ہم سب آج تک نہیں بھولیں !!! اور یقینًا اس میں کامی کا بہت ہاتھ تھا جس نے اس سارے سفر کے دوران ، احترام کا دامن لمحے بھر کے لیۓ بھی نہ چھوڑا ،،، اللہ نے اسے بہت نوازا ہوا ہے ، اور وہ آج بھی اسی احترام سے ملتا ہے اور ہمیں بڑی بہنوں جیسی عزت دیتا ہے، اب تو وہ خود ایک خوشگوار طبیعت والی بیوی اور ایک بیٹی ، اور تین بیٹوں کے ساتھ ، پرسکون زندگی گزار رہا ہے ! دعا ہے اللہ اسے دنیا و آخرت میں ہر کامیابی سے نوازے آمین !۔
اس گروپ میں مسز جولیانہ ناز کا اب ذکر کروں گی ،،، جن کا صاف گورا رنگ، دیکھ کر میں سمجھی یہ پٹھان النسل ہوں گی ،،، اس نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا ہوا ہے ، وہ بھی بہت اچھی ٹیچر ، ایک اچھی بیوی، اچھی بیٹی اور بہن کے ساتھ ساتھ، بہت اچھی سہیلی ہیں ، اس کے شوہر سرجن ہیں اور کرسچین ہاسپٹل ٹیکسلا کے ایم ایس ہیں ۔ اس کا گھر اس کے اعلیٰ ذوق کا عکس ہے ۔ وہ ایسی ہی دوست ہے جس کے ساتھ مل کر ، وقت گزار کر دوستی کی چاشنی ملتی ہے ، وہ ڈاکٹر صاحب کی لاڈلی بیوی ہے ، اور ڈاکٹر صاحب ، نہایت نرم مزاج ، نرمی سے بولنا اور سب سے بڑی بات کہ اردو ادب کے شوقین ہیں ۔ اور اِسے اردو ادب کا کچھ پتا نہیں ،جولیانہ ایک دفعہ بیمار ہوئی تو میں نے اسے وقت اچھا گزارنے کے لیۓ " اشفاق صاحب " کی کتاب زاویہ تحفہ دی ،، تاکہ وہ اپنی بیماری میں اسے پڑھے ،، بک کے اندر کے صفحے پر لکھا " پیاری جولیانہ کے لیے،،، ، کون کہتا ہے عقل بازار میں نہیں ملتی ، دیکھو میں نے تمہیں خرید کر دے دی ہے " ! کچھ ہی دنوں بعد اس نے اپنے مخصوص مزاح کے رنگ میں فون پر کہا " او یار ،،، عقل فیر وی نہیں پہنچ پائی " ،،،، اور وہ کتاب ڈاکٹر صاحب ہی پڑھ رہے ہیں ، میں نے انھیں کہہ دیا ہے جو آپ کو سمجھ آۓ مجھے آسان لفظوں میں سمجھا دینا " ،،،، کہنے کا مطلب ہے ، ہمارا بےتکلفانہ انداز ِدوستی آج بھی برقرار ہے ،، اب وہ بھی اپنے لائق فائق دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادیوں سے فارغ ہو چکی ہے ! میں جب اس کو فون کروں ، اور بچوں میں سے کوئی اُٹھاۓ ، تو میں کہتی ہوں " کہاں ہے تمہاری تھانیدارنی ماں ،،،؟ وہ فوراً ہنستے ہوۓ بتاتے ہیں وہ کہاں ہے ۔ اور اکثر اپنی ماں کو چھیڑنے کے لیے کہتے ہیں آپ کو یہ لقب خوب دیا گیا ہےَ! اور اتفاق سے میں دونوں قابل بیٹیاں کی ٹیچر بھی رہی ہوں ! اس لیۓ وہ آج بھی نہایت عزت و احترام سے ملیں گی اور " مس" کہہ کر مخاطب ہوتی ہیں ۔ اللہ انھیں اپنی عائلی زندگیوں میں شاد و آباد رکھے آمین !۔
( منیرہ قریشی ، 20 نومبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں