پیر، 13 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (43)۔

یادوں کی تتلیاں" (43)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ، اس کا کام گزرتے چلے جانا ہے ،،، اور اِسی بات کا اسے حکم ہے ۔ تو وقت آگے بڑھا ، میرے ٹونز اور ان کی پیاری پیاری باتوں سے گھر میں رونق رہتی اور خاص طور پر اباجی نے خود کو اِن میں خوب مصروف کر لیا تھا ، قریبا" ڈھائی تین سال کی عمر میں دونوں اباجی کے ساتھ ضرور گاڑی میں بازار کا ایک چکر لگاتے ! دونوں بولنے میں تیز تھے لیکن اِبھی بہت صاف زبان کے نہیں تھے ۔ اباجی کو دیکھتے ہی ان میں سے ایک گاڑی کی چابی پکڑ کر لے آتا اور " بلےکپ چی " کا لفظ بولتے ! غور کرنے پر پتہ چلا " بڑے اباجی کی چابی " کو انتہائی تیزی سے اپنی زبان میں ادا کرنے پر یہ الفاظ ادا ہوتے ،، اسی طرح جب کار میں بیٹھتے تو خوشی ان کے انگ انگ میں بھر جاتی ، اور وہ کبھی کبھی " بلے کار " ( بڑے اباجی کی کار)کے الفاظ کو کورس میں گاتے ۔ دونوں کی آوازوں میں بہت ردھم تھا اور جب گاتے تو سمجھ نہ آتا کون گا رہا ہے ،یعنی ایک جیسی آوازیں نکل رہی ہوتیں ! ان کا یہ ہنر انھیں مزید پاپولر کرتا گیا،جوں ہی وہ ساڑھے تین سال کے ہوۓ ،قریبی سکول میں پلے گروپ میں داخل کرایا ، ٹیچر اور پرنسپل کے سکول کے یہ پہلے  جڑواں  بچے تھے اس لیے ذرا توجہ بھی ملنے لگی۔ یہ سکول چند ماہ کے بعد ہمارے گھر کے سامنے والے شفٹ ہو گیا ، اب مزید آرام ہو گیا،دونوں بہت دلچسپی سے سکول جاتے، ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے کلاس کے کافی بچے دوست بن گئے، چند ایک اکثر ہمارے گھر آنے لگے ، ایک دو بچے ایسے تھےجو ابھی اپنے گھر کے اکلوتے تھے وہ خاص طور پر آ جاتے کہ ان سے کھیلنا ہے۔ دراصل ان بچوں کی طبیعت میں لڑاکا پن نہ تھا !! بتدریج آگے بڑھتے رہے ! نرسری اور پھر پریپ میں پہنچ گئے ، اس دوران ہماری زندگیوں میں بھی اُتارچڑھاؤ چلتا رہا ! جوجی کی بھی شادی کا وقت 1979ء میں آگیا ، وہ مقامی ہاسپٹل میں ڈاکٹر تھے ! شادی کے شروع کے دو تین ماہ جوجی اور اس کے میاں ہمارے گھر رہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ملنے والے گھر میں کچھ مرمتوں کا کام تھا ، ،،، کہ ایک دن عمر کو رات کے وقت شدت سے کھانسی آئی کہ اس کا رنگ سرخ اور ہونٹ نیلے ہو گئے ! میں نے گھبرا کر جوجی اور ڈاکٹر صاحب کو جگایا ،،، اس دوران اس کا سانس بھی مشکل سے آرہا تھا ! ڈاکٹر صاھب نے دیکھا اور ہسپتال کا مشورہ دیا ، ہم لے جانے کی تیاری میں تھے کہ وہ نارمل ہوگیا !! تو ہم نے شکر کیا ! بچہ نڈھال ہو چکا تھا ! اور سونا چاہتا تھا ،،، اور شاید یہ ہی ہماری غلطی تھی کہ صبح وہ بھی اتنا نارمل تھا کہ کسی اور ڈاکٹر کو دکھانے کا خیال نہ کیا ،،،، مجھے سیالکوٹ میں آپا کے پاس گزارا وقت بعد میں یاد آیا کہ اس دو ، ڈھائی ماہ کے دوران بچے جب بیمار ہوۓ تو آپا وہاں کے ایک بہت نرم طبیعت چائلڈ سپیشلسٹ کے پاس لے جاتیں ، اس دور میں یہ بہت روتے تھے ، اور سواۓ پیٹ درد کے اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی تو اس ڈاکٹر سے دوسری مرتبہ جب ملاقات ہوئی۔ تو ان کے الفاظ مجھے یاد ہیں کہ انھوں نے کہا تھا۔ ان بچوں کو ڈاکٹر کو " انکیوبیٹر" میں رکھنا چاہیے تھا ! اور یہ حقیقت ہے کہ انھیں نہیں رکھا گیا تھا ، ، ،بہر حال مزید 5سال اور گزر گئے اور 27 فروری 1980ِ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کیا ، وہ بہت پیارا اور خوب صورت تھا ، اس کا نام "قاسم" رکھا گیا ،( اُن دنوں ہمارے بہنوئی کو " پورٹ قاسم " میں بہت اچھی پوسٹ ملی تھی تو بھائی جان نے تجویز کی کہ اس یادگار موقع پر بچہ آیا ہے تو نام بھی اس طرح یادگار ہو جانا چاہیے ) عمر اور علی نے اپنے بھائی کو بہت پیار اور خوش دلی سے قبول کیا ۔وہ چار ماہ کا تھا جب ہمارے اکلوتے بھائی کی شادی 10 جولائی 1980ء میں ہوئی ۔ اور اُن کے ولیمے پر11 جولائی کو ان ٹونز کی پانچویں سالگرہ منائی گئی ، ،،، بعد میں بھائی ، بھابھی کراچی اپنی ڈیوٹیز پر چلے گئے، تین ماہ بعد بھائی جان کی فرمائش ہوئی ،،، کہ بچوں کو کچھ دن کے لیۓ کراچی بھیج دو ! اُن دنوں اُن کی طبیعت خراب تھی ، تو آپا نے بھی فون پر کہا اگربچے آگئے تو احسان کا دل بہل جاۓ گا ، تو ہم نے انھیں ان کی مامی کے ساتھ بائی ایئر بھیج دیا ، بچے 15 یا 18دن گزار کر آۓ تو بہت ہی خوش تھے ، بہت سےتحائف بھی ساتھ تھے ! مزید چار پانچ ماہ گزر گۓ ،،، بھائی جان کا کسی کام سے پنڈی آنا  ہوا ، اپنے کام کی وجہ سے کراچی واپس بائی روڈ جانا پڑا ،،، اور انہی دِنوں 30 ایپریل 81ء کو بچے سکول سے واپس آۓ تو بخار میں پُھنک رہے تھے،دو دن تک معلوم ہو گیا کہ خسرہ میں مبتلا ہیں ، جو اس دوران دوا اور احتیاطیں ہونی چاہیے تھیں وہ کرتے رہے ، لیکن 7 مئی دوپہردو ، تین کے درمیان دونوں بچوں پر نیم بے ہوشی سی طاری تھی ، عمر نے مجھے اسی بےبسی کی حالت میں کہا " اماں پلنگ ٹیڑھا کیوں ہو گیا ہے ،،، ایک دم میرے دل کو دھکا لگا تو میں اسے اُٹھا کر دوسرے کمرے میں لے آئی اور نارمل طریقے سے لٹا دیا ، لیکن کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے اجنبی سی نظروں سے دیکھا ،،، اور پھر کہا اماں یہ پلنگ بھی ٹیڑھا ہو گیا ہے ! تب میں نے ان کے باپ کو بلایا ، اور ہم فوراً اسے لے کر ہسپتال روانہ ہو گئے ، راستے بھر وہ میری گود میں لیٹا رہا ، جب جوجی کا گھر جو ہاسپٹل کے پاس تھا کے قریب سے گزرے تو اس نے نیم باز آنکھوں سے کہا " اماں جوجی خالہ کا گھر آگیا ہے " تو میں نے کہا ہاں بیٹا ،، جوجی خالہ ہاسپٹل پہنچ جاۓ گی ۔ ہم اُسے  میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر عمر کے کمرے میں لے گئے ، جوجی کے میاں کو پہلے ہی فون کر دیا تھا وہ بھی پہنچ گئے۔ڈاکٹرز فوراً اس کی نبض ڈھونڈنے لگے تاکہ ڈرپ لگائی جاسکے ، اس دوران اس نے کہا "پانی" کمرے میں موجود سنک سے ہاتھ میں پانی لے کر اس کے منہ میں ٹپکایا ،،، ساتھ ہی ڈاکٹرز نے مجھے کمرے سے باہر نکال دیا انھوں نے اب اس کی ٹانگ کی رگ ڈھونڈنے کی کوشش کی ،،، لیکن میں باہر ہی کھڑی تھی کہ اتنے میں جوجی کے میاں بہت اداس ہو کر باہر آۓ تو ،،،، جو خبر سنائی وہ ، دنیا کی کوئی ماں سننا نہیں چاہتی ! میں  یکدم  اندر گئی تو اس کا حسین چہرہ باہر کھلنے والی کھڑکی کی طرف تھا اور اس کے حسین بال اس سے آنے والی ہوا سے بہت ہل رہے تھے ،،، جیسے وہ خود ہوا میں اُڑ رہا ہو ! مجھے سارا ہسپتال اس طرح ڈولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جیسے کشتی مسلسل ہل رہی ہو ،،،، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی ، یہ چند لمحوں میں کیا ، کیسے ، اور کیوں ہو گیا ۔،،،جلدی سے دوسرے بچے کو جوجی اور اس کے میاں ہسپتال لے آۓ اور داخل کرا دیا ،،،اس دوران علی کے پاس گھر کی میڈ رہی جب عمر کے چاند چہرے کو ہم اپنے گاؤں کے سر سبز قبرستان کے حوالے کر آۓ تو میں واپسی پر ہاسپٹل میں اُتر گئی ، علی ، بھی نیم بےہوش تھا ، مسلسل ڈرپ لگی رہی ، اس سے بولا بھی نہٰیں جارہا تھا، دن کے وقت آپا اس کے پاس  ہوتیں، اوررات کو میں رہتی۔
جس دن عمر نے ہسپتال میں ہمیں الوداع کہا ،، اس دن اباجی پنڈی گئے ہوۓ تھے ،،، ا نھیں فون پر اطلاع دی گئی !وہ فون کا ہی دور تھا۔لیکن بھائی جان،،جو ان بچوں کے وہ ماموں تھے جن پر اِن دونوں نے خود ہی ایک شعر بنا لیا تھا "ماموں جان ،،، تیری اُونچی شان " ! یہ اُن بچوں کے پیار کا اظہار اس لیے بھی تھا کہ بھائی جان نے بھی انھیں بہت پیار دیا تھا !۔
جیسا ابھی لکھا تھا کہ وہ کراچی کی طرف عازمِ سفر تھے اور وہ راستے میں کہاں پہنچے تھا ابھی کسی کو معلوم نہیں تھا دراصل وہ اس وقت رحیم یار خان کے قریب تھے ،،، بقول اُن کے جب رحیم یار خان سے پہلے کی رات میں ایک بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گیا جہاں قوالی ہو رہی تھی ،ان قوالوں میں ایک بچہ بھی تھا جو اپنی پتلی سی آواز کے ساتھ پورا زور لگا رہا تھا، مجھے وہ عمر جیسا لگا ،، میں نے کچھ دیر قوالی سن کر اس بچے کو خصوصاً کچھ پیسے دیۓ ، اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر اپنے ہوٹل آگیا ، ،،، جب بھائی جان کو یہ غم انگیز خبر ملی تو انھوں نے کار وہیں ، کہیں کھڑی کروا ئی اور بائی ایئر واپس گھر آگئے ،،،،،، آپا اور ہماری بھابھی ، کراچی سے آگئیں ! ان سب کا ذکر،،، کہ اِن بچوں کے حصے میں اپنے ننھیال کی طرف سے اتنا پیا ر ملا تھا ،جو بہت کم بچوں کو ملا ہو گا ۔۔۔۔۔۔
جب جب عمر کے نئے گھر جانے کا وقت قریب آرہا تھا اس کی آنکھیں جو ادھ کھلی تھیں ، بالکل سفید ہو گئی تھیں ۔ دوسری طرف میں جب رات کو علی کے پاس ہسپتال رہتی تو اسے یہ ہی کہتی " عمر کی طبیعت ذیادہ خراب ہے اس لیۓ اسے دوسرے ہسپتال داخل کرایا گیا ہے ،،پانچویں دن جب علی کچھ بولنے قابل ہوا تو اس نے مجھے بتایا " اماں ! میں نے خواب میں عمر کو دیکھا ہے اس نے سفید عربی کپڑے پہنے ہوۓ ہیں اور اس کی آنکھیں بالکل سفید ہو گئی ہیں اور وہ منہ آسمان کی طرف کر کے اللہ میاں سے ہنس ہنس کرباتیں کر رہا ہے " ! میں اس کی چھٹی حس اور جُڑواں ہونے کی اس کیفیت کو سن کر حیران رہ گئ کہ اس کو کسی نے عمر کے انتقال کا نہیں بتایا تھا لیکن اس کی روح نے اس جدائی کی جھلک کتنی صحیح سے دکھا دی۔ جس وقت ان دونوں بچوں کی جدائی ہوئی ،،، اس کے ٹھیک دو ماہ بعد ان کی چھٹی ( 6 ویں ) سالگرہ تھی !۔
جب علی بھی بہتر ہو کر گھر آگیا تو اسے یہ غم و الم کی خبر سنانے کو کوئی تیار نہ تھا ! اگر وہ عمر کاپوچھتا بھی ، تو یہ ہی کہا جاتا اس کی طبعیت خراب ہے ۔ ہسپتال والے اسے چھٹی نہیں دے رہے ! ابھی تک وہ اسی خیال سے بہل رہا تھا، ورنہ اِن چھے سالوں میں وہ ایک دن کے لیۓ بھی جُدا نہیں ہوۓ تھے ، اس لیۓ اس کی طبیعت میں کافی بےچینی ہو رہی تھی ،، قریباًتین ہفتوں کے بعد آپا علی کو ساتھ کراچی لے گئیں ، تاکہ وہاں موقع دیکھ کر اسے اس خبر کو سنایا جاسکے ، علی کو وہاں دو ماہ رکھا گیا ، واپس آیا تو اس کی صحت بہت اچھی ہوئی تھی ،،، لیکن آپا اور بھائی نے فون پر بتایا ہماری ہمت نہیں ہو سکی کہ ہم اسے کچھ بتا سکیں ! ہم اسے یہاں کا وزٹ خوشیوں بھرا دینا چاہتے تھے ،،،،، علی کے ابا نے بھی اس بارے بتانا مشکل تصور کیا ،،، اور وہ بار بار پوچھتا تھا کہ ہاسپٹل والے عمر کو کیوں نہیں آنے دے رہے ! کراچی آنے کے ایک ہفتے بعد ایک رات جب ہم دونوں ہی تھے ، میں اِن کے بچپن اور موجودہ فوٹوز کی البم لے کر بیٹھی اور ہم دونوں مختلف باتیں کرتے رہیں ،،، کہ میں نے اس دوران اسے کہا " بیٹا ،،، عمر کو اللہ تعالیٰ نے پسند کر لیا ہے ، اور اسے جنت کے سکول میں داخل کر لیا ہے ! اس لیۓ اب وہ ہمیں ملنے نہیں آ سکتا " علی کے چہرے پر حیرت ٹھہر سی  گئی ،،، اور اس نے پوچھا ،،،" کیا مجھے بتانے بھی نہیں آسکتا ، کچھ دیر کے لیے بھی نہیں "" میں نے ضبط سے کہا " فرشتے تو چاہتے تھے کہ یہ کچھ دیر کے لیۓ تم سے مل آۓ لیکن اسے نیا سکول اتنا اچھا مل گیا ہے اور دوست ایسے مل گئے ہیں کہ وہ ایک منٹ کے لیۓ بھی آنا پسند نہیں کر رہا "" اسے یہ سن کر حیرت اور افسوس سا ہوا ،،، اب اس کے جذبات کا اُبال شروع ہونا تھا اور میرا امتحان !!! اس نے دوبارہ سارا البم دیکھنا شروع کر دیا اور پھر ،،،ایک دو منٹ کے بعد خوب رویا ،،، میں اسے بلینک ہو کر دیکھتی رہی تاکہ اس کا غم، آنسوؤں میں بہہ جاۓ ! لیکن جب میں نے کہا " اس نے تمہارے لیۓکہلوایا ہے کہ تم یہاں پڑھو ، میں وہاں پڑھوں گا ، دیکھتے ہیں کون اچھا پڑھے گا ! " ،،، تاکہ بعد میں ہم سب کے لیۓ وہ وہاں فرشتوں سے گھر بنوا لے "۔ 
یہ ایک چھے سالہ ذہین بچے کے جسم و جان کے حصے کی جدائی کی اسی کے لیول کے مطابق مرہم رکھی جا رہی تھی ! ،،، بس یہ ایک کوشش تھی ! ورنہ وقت ہی سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے ،،، علی جب اُداسی اور غم کے شکنجے میں آجاتا تو اکثر ڈرائنگ روم کے دروازے کے پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر خوب رو لیتا ! اسی پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر اِنھوں نے عالمگیر کے گانوں کو بہت ہی دلنواز انداز سے گایا تھا ،،،، جن میں ایک گانا " دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا ہے ،، خوشبو کا جھونکا تیرے سنگ کر دیا ہے !!! بھائی جان نے اس کی قبر کے کتبے پر اس کے نام کے نیچے " خوشبو کا جھونکا" ہی لکھوایا ،،،،،،،،،،، ! رہ جانے 
والا صرف اللہ کا نام ہے !۔

عمر کی تصویر اُسی بیماری کے دوران کی ہے ، تصویر میں لفٹ سائڈ پر عمر ہے ! اور یہ واہ گارڈن اپنے ماموں اور مامی کے ساتھ چلے گۓ تھے ! اسی تصویر کو دیکھ کر میں نے چند نظمیہ جملے لکھے تھے !!!۔
مارچ 1983ء
" عمر کی واہ گارڈن کی آخری تصویر دیکھ کر "
کچھ ایسے ہی نظارے ہوں گے 
کچھ عجب مست ہوائیں ہوں گی 
اور پُر کیف فضائیں ہوں گی
!اُنہی حقیقی نظاروں نے تجھے مسحور کیا اتنا
!!کہ مُڑ کے پھر آنا مشکل ہوا

( منیرہ قریشی،، 13 نومبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری )

1 تبصرہ:

  1. Kamil Ali Rauf۔
    I always avoid hearing what all happened that day to my brother... i leave that room where such discussion of past starts.. only coz i can still feel the pain of his last moments even after almost 35 years. Maybe its a twins bonding which is still in effect.
    Alhamdolillah i am glad he is in best of heavens.. Away from this difficult world 🙂
    Being mother, your loss is ofcourse unmatchable, May ALLAH swt bless you with the best reward of losing such a beautiful gift .Ameen

    Umar.. love you bro

    جواب دیںحذف کریں