جمعرات، 23 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(50)۔

یادوں کی تتلیاں (50)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کانونٹ سکول میں اس کلوز گروپ میں ایک ساتھی افتخاردلاور تھیں ، وہ بھی کئی سال پہلے بی اے کے فوراً بعد اس سکول میں آگئی تو ، نیلو کی طرح اب سینئر ٹیچرز میں شمار ہوتی تھیں، وہ اور اسکے شوہر اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے لیۓ سخت محنت کے دور سے گزر رہے تھے ، لیکن اس کا دل بہت بڑا ہے ، گھر میں خوش آمدید کہنا ، اور گروپ کی طرف سے چھوٹی بڑی ذمہ داریاں نبھاتی رہتی ،،، کیوں کی وہ حسن ابدال کے ان بہت پرانے وسیک خاندانوں میں سے ہیں جن کا تعلق حسن ابدال کی اینٹ اینٹ سے ہے ،، محلے داری سسٹم مضبوط ہے ،،، جُڑے جُڑے گھروں کے ایک جیسے ، کھانے ، ایک جیسے پہناوے، ایک جیسے مسائل ، ایک جیسی دوستیاں ، دشمنیاں ،،،، لہذٰا اس کی گھریلو سطح پر ، سُناروں کے گھر آنا ، جانا ہے ، تو رنگریز بھی اپنے ہی ہیں ،،، تو برتنوں والے بھی بس اپنے ہیں ،،، کوئی فکر نہیں ! کوئی مسئلہ ہی نہیں !! ،،، چناچہ ہم سب خواتین نے اپنی اپنی تنخواہوں سے وہیں" کمیٹی " ڈالی ہوئی تھی جس کی کمیٹی نکل آتی ! وہ سب سے پہلے افتخار کو اچھی خاصی رقم دے دیتی، کہ لو بھئ میرے لیۓ، فلاں برتن لے آنا ،، یا فلاں کپڑا ،، یا زیور ،،، اس لیۓ کہ اگر پسند نہ آیا تو واپس ، اگلی دفعہ بھی پسند نہ آیا پھر واپس ،،، اگلی باری ! !  اور یہ دلچسپ سلسلہ چلتا کہ، ایک کے لیۓچیز آتی تو مزید دس کو بھی پسند آجاتی،،، اور بےچاری افتحار کسی کو انکار نہ کرتی۔لیکن یہ ایک ایسا "کاروبار" تھا جو خالص زنانہ دلچسپی کا حامل تھا ،،، جو شاید آج بھی دل لگی کی خاطر جاری ہوگا ، اور افتخار کی جگہ کسی اور نے لے لی ہوگی ،،، لیکن بہت مزا رہتا ۔ افتخار اکثر گھبرائی سی بھی رہتی ،،اور شازیہ اُس کے اِس رویے سے بھی مزاح کا رنگ نکال لیتی ، لیکن اپنی محنت سے اس نے بچوں کو خاص مقام تک پہنچا دیا ۔ آج بڑا بیٹا ڈاکٹر ، چھوٹا انجینئر ہے،اور سب سے چھوٹا سی اے کر رہا ہے ، ایک بیٹی بی اے کے بعد اپنے فوجی شوہر کے ساتھ خوش آباد ہے ، دوسری نے سائیکالوجی میں ماسٹر کر لیا ہے ،،،،۔
ہم سب میں عمر میں کم کوکب تھی ، جو نفیس ذوق کی مالک،بی ایس سی کے بعد اس سکول میں بی ایڈ کے لیۓ آئی اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئی ۔ اپنے خالص اہلِ زبان ہونے کی سُتھری زبان سے ہمیں محظوظ کرتی ،لیکن اس کی چند عادتیں اچھی تھیں کہ ہر ایک کی بہت عزت کرتی ، جو بناتی پرفیکٹ ذائقے کے ساتھ بناتی ، ، جب بھی ہم سب نے اکھٹے کہیں جانا ہوتا، جہاں تحفہ دینا ہے تو یہ ذمہ داری اسی کے حصے میں آتی ،کہ وہ تحفہ خریدے سب کو دکھاۓ ، پیک کرے ، اور سب کی کنٹریبیوشن لیتی ،،،ہاں ایک اس کی بری عادت تھی کہ وہ جب ہمیں دعوت پر بلاتی تو ہم سب اپنی محبت سے اس کے کام کو ہلکا کرنے کے خیال سے ،،، اسکے برتن دھونے کی آفر کرتیں، لیکن وہ صاف کہہ دیتی، آپ لوگ بےشک مجھ سے ہمدردی کریں لیکن ،،، میں سارے برتن دوبارہ دھوؤں گی ! اور ہم کچن سے واپس ہو جاتیں ۔ کیوں کہ اسے کسی کے کام سے تسلی نہیں ہوتی تھی،، اور نہ اب تک ہے !!!، شادی کے دس یا بارہ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے پہلی بیٹی دی ۔ یہ اتنی اہم خبر تھی کہ باقاعدہ سب نے دلی طور پر اس کی خیریت کی دعائیں کیں۔ اور جب ننھی بچی دنیا میں آگئی تو ہم سب نے بھی خوب خوشی منائی ،، اور پھر دوسال بعد دوسری بچی نے آکر ان کی فیملی کومکمل کر دیا ،،،، آج وہ وقت آچکا ہے کہ بڑی بیٹی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے گھر کی ہو چکی ہے اور دوسری کے نکاح کے بعد رخصتی کی تیاریاں جاری ہیں ۔ کوکب ، میری بھانجی لبنیٰ کی کلاس فیلو بھی ہے ، اور ان کلاس فیلوز کا گیٹ ٹو گیدر آج بھی ہوتا ہے،ان کا آپسی دوستی کا محبت کا دریا جاری ہے مللہ اسے دیر تک جاری رکھے آمین !۔
مسز نازش ظفر ،، اور میں نےتقریبا" ساتھ ہی سکول جوائن کیا تھا، وہ ایک پُرکشش ، لمبی سی ، خوب صورت ہاتھ پاؤں کی مالک خاتون تھیں۔اس کے ہاتھ، پاؤں کی رنگت ،، اس کے اصل رنگ سے کافی صاف تھی ، اور کھلی جوتی اس کے پاؤں میں نکھر جاتی ، میں نے اسی لیۓ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ان کے سُتھرے ہاتھ ،پاؤں دیکھ کر مسز تاج نے کہا تھا " لگتا ہے ظفر صاحب نے آپ کو ان ہاتھوں ، پاؤں کو دیکھ کر پسند کیا ہوگا "،،،لیکن اس نے خود بھی اعتراف کیا کہ میں ان کی صفائی کا خاص خیال رکھتی ہوں ،،، شروع دور کے دو تین مہینوں میں جہاں مجھ سے حماقتیں ہوتی رہیں ،،، وہیں مسز ظفر کی بھی پہلی جاب تھی لیکن وہ ذرا رعب ڈالنے کے رویے کو اپناۓ ہوۓ تھی ، دراصل وہ آئی۔جی کی بیٹی تھی ، اور اسے رعب دار لہجہ شاید نارمل لگتا ہو گا۔ اس لیۓ شروع میں اس کا لہجہ اُونچا بھی ہو جاتا ، لیکن جینی ، اور نیلو نے بہ احسن ،،، ہمیں ٹریک پر کر لیا ، اور بعد میں آپس میں کبھی قیل قال ہو جاتا تو یہ ہی دونوں عقل مند بیبیاں ، درمیان میں آجاتیں ۔ اس سب کے قطع نظر، وہ ایک بہترین ، اور محنتی ٹیچر ثابت ہوئی ، جینی کے انگلینڈ جانے کے بعد نازش نے ہی بورڈ کلاسز کو انگلش لی ، اور بہت اچھے رزلٹ سامنے آۓ۔ نازش کے ایک بیٹا ایک بیٹی ہے،بیٹی کی شادی بی اے کے فوراً بعد کر دی اوروہ امریکا میں سیٹل ہے جبکہ نازش اور ظفر صاحب بھی اب امریکن شہری ہیں ، بیٹے کی شادی اس نے پاکستان میں کی کیوں کہ وہ یہیں رہتا ہے اس موقع پر اس نے سب پرانی کولیگز کو بلایا،اور ایک طرح سے ہماری " ری یونین "بھی  ہو گئی !۔ 
یہ جو میں مختلف لوگوں ،، یا اپنی کلاس فیلوز ،، یا کولیگز کی جوانی کی سچویشن لکھ رہی ہوں کہ شروع دور میں کیا کچھ حالات تھے، پھر سعی اور جہد کے دور کی سچویشن بھی لکھ رہی ہوں کہ اللہ نے انھیں کہاں تک پہنچایا۔تو اس لیۓ کہ ، اس قسم کے دور سے گزر، رہے لوگ صرف اللہ سے" بہترین گمان" کریں ، اللہ ضرور سب کی سنتا ہے اور حالات میں تبدیلی بھی آہی جاتی ہے، اور محنت کا اجر اللہ پاک ضائع نہیں کرتا ۔
صرف اُس ذات پر یقینِ کامل ہو ، اور یہ کہ میرے لیۓ جو بہترین ہے میرا اللہ وہ چیز ، مقام ضرور دے گا۔
کانونٹ سکول کی ٹیچرز کی تنخواہیں کم ہی تھیں ، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ وہاں اس دور میں کوئی خاص سیاست نہ تھی ، ہر کوئی اپنے کام کو " دی بیسٹ " کرنے کی کوشش کرتا ، اور ماحول نہایت شریفانہ ، اور محفوظ بنا دیا گیا تھا کہ جو آیا پھر سالوں رہا ۔ لیکن اِن تھوڑی سیلریز میں بھی برکتیں ہوتیں ، انہی سے سکول میں ویلفیئر کے کام بھی ہورہے ہیں ، زیور ، کپڑے بھی آرہے ہیں ، اور سب سے بڑی بات کہ موقع کے مطابق "ٹریٹ " بھی شاندار طریقے سے دی جارہی ہیں ،،، مجھے آج بھی یاد ہے ، جس دن مجھے بی ایڈ کی ڈگری ملی ، تو سارا سٹاف سَر ہو گیا کہ دعوت ہونی چاہیے ، تو میں نے ان 70 کے قریب سٹاف کو نان کباب اور کھیر ، کھلائی ، اور بہت کچھ بچ بھی گیا ۔ اگرچہ اُس ایک ماہ کی  تنخواہ   وہیں لگ جاتی ،، لیکن ہر فرد سرخوشی میں ہوتا ، شاید کھلانا ،،،، اللہ کو پسند ہے اسی لیۓ دل بھی ایک عجیب خوشی کی کیفیت سے گزرتا ہے !! الحمدُ للہ !۔
( منیرہ قریشی ، 23 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

1 تبصرہ:

  1. 17 اگست 2017۔۔۔23 نومبر 2017۔۔۔
    17 اگست 2017 سےسفر آغاز کرنے والی، صبح کی نرم روپہلی کرنوں کی طرح اپنی چھب دکھلاتی"یادوں کی تتلیاں" تین ماہ چھ دن کی مسافت طے کر کے 50 کے سنگِ میل کو چھو گئیں۔۔96 دنوں میں 50 اقساط کے اس سفر نے گویا نصف صدی سے بھی زیادہ کے احساسات،تجربات اور شخصیات کا احاطہ کیا۔
    بحیثیتِ مجموعی یہ محض یادوں کی تتلیاں ہی نہیں بلکہ محبت بھری یادوں کا نادر تحفہ بھی تھیں۔ایسی مہکتی گلاب تتلیاں جو دینے والے کے ساتھ ساتھ پانے والے کو بھی اقدار اور کردار کی مہک دے گئیں۔اور انسان اور انسانیت پر یقین محکم کرگئیں۔
    دعاگو ہوں کہ یادوں کی تتلیوں کا سفر اسی تازگی اور روانی کے ساتھ جاری رہےکہ
    "قدم رکے تو نہیں زندگی تھمی تو نہیں"
    یادوں کی تتلیوں کی پہلی قسط۔۔۔ نشرِ مکرر کے طور پر۔۔۔۔
    یادوں کی تتلیاں(1)
    http://munirazafer.blogspot.com/2017/08/1.html
    "یادوں کی تتلیاں " کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے "زندگی" کے ٹیگ کے عنوان سے درج ذیل لنک پر کلک کیجئیے۔
    http://munirazafer.blogspot.com/…/%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%…

    جواب دیںحذف کریں