جمعرات، 9 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(41)۔

 یادوں کا تتلیاں " ( 41 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اماں جی کی کمزوری ، بڑھتی جا رہی تھی ، وہ 26دسمبر 1975ء کا دن تھا جب اُن کو سانس لینے میں ذیادہ دقت ہونے لگی اور رات ہی کو انھیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا ، ، ، جب وہ گھر سے کار میں بیٹھیں تو انھوں نے ایک ایسی نظر گھر پر ڈالی ، جوصحیح معنوں میں " آخری نظر '' تھی ۔ پوراجنوری ان کا علاج جاری رہا لیکن ڈاکٹر ز نے واضع کر دیا تھا کہ ان کا دل صرف 25 ٪ تک کام کررہا ہے ، یہ کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہیں ، اباجی کا ذیادہ وقت اُنہی کے پاس گزرنے لگا ، آپا کافی ہفتوں سے رہ رہی تھیں ، کچھ دن کے لیۓ سیا لکوٹ چلی گئیں کہ بچوں کو لے آؤں ۔ اور 7 فروری 1976ء کا دن طلوع ہوا ،،،،،،،،،،،! اباجی جب سے اس نئے محلے کے ذاتی گھر میں منتقل ہوۓ تھے ،، اس گھر کا فون نہیں لگ سکا تھا ، اسی لیۓ ہمارے سامنے رہنے والی فیملی ( جن کے گھر فون کی سہولت موجود تھی)سے ریکوئیسٹ کی گئی کہ اگر کوئی ہمارے متعلق فون آپ تک پہنچ جاۓ تو پلیز ہمیں بلا لیں ،،، یا پیغام دے دیں ،، یہ فیملی والد ، 4 بہنوں اور 4 بھائیوں پر مشتمل تھی، ان کی والدہ 7، 8 سال پہلے فوت ہو چکی تھیں ، سب سے بڑی بہن نصرت میری ہی عمر کی تھی،،، اور ابھی کسی کی شادی نہیں ہوئی تھی ، میری ان سے کوئی دوستی نہیں تھی ، میں اپنے ٹونز کے ساتھ سخت مصروف رہتی ۔ پتہ نہیں کب ، کس وقت ،ان میں سے دوسری بہن ہمارے گھر آتی کچھ دیر اماں جی سے گپ شپ کرتی اور چلی جاتی ،مسرت ، شاید اپنی ماں کو بہت "مِس " کرتی تھی کہ اسے اماں جی کی صحبت میں بیٹھنا اچھا لگتا تھا ،،، وہ اپنا محبت بھرا رابطہ نہ جانے کب اُستوار کرتی رہی ،،، کہ جب اماں جی بیمار ہوئیں تو وہ انھیں دیکھنے اسی 7 فروری کی صبح آئی ،تو اماں جی قریباً بےہوشی میں تھیں ، وہ کچھ دیر اُن کا ہاتھ پکڑے کھڑی رہی ، اور رونے لگی ، نصرت اُسے کمرے سے باہر لے گئی اور وہ وہیں گر کر بے ہوش ہو گئی۔ نرسز نے فوراً اُٹھایا اور اس کی حالت کے پیشِ نظر داخل کر لیا ،،،،، اس دوران ہم دونوں بہنیں ، اباجی اور ہمارے بھائی جان ،، اماں جی کے پاس تھے ، دوپہر 11 بجے جب ہم دونوں ان کے پاس پہنچیں اور کسی طرح انھیں غنودگی سے نکالنے کے لیۓ آہستہ سے آواز دیتیں، لیکن اماں جی اب کسی اور دنیا کے نظاروں میں محو ہو چکی تھیں ، کیوں کہ دل کی طاقت ختم ہو چکی تھی ،، صرف سر کبھی دائیں،کبھی بائیں پھیرتیں ، ،، دائیں طرف سر کرتیں تو کہتیں "سبحان اللہ" ،،،، بائیں طرف سر کرتیں تو کہہ اُٹھتیں "صدقے یا رسولؐ اللہ"،،،، لیکن آنکھیں مسلسل بند تھیں ! ہم سب بےبسی سے ان کے قریب کھڑے کلمہ پڑھ رہے تھے ، ہماری ایک رشتے کی خالہ بھی کمرے میں تھیں جو سورۃ یٰسین پڑھ رہی تھیں اور آخرکار ٹھیک 4 بجےکے قریب شام کو اُن کی روح مالکِ حقیقی کے حکم پر اس اصل جہان کو روانہ ہو گئی ،،،،،،،،،،!۔
صرف دودن بعد ہی میں نے خواب دیکھا " کہ اماں جی کافی کم عمر لگ رہی ہیں ،، اور بہت مسکراتے ہوۓ ، خوشگوار موڈ میں ہیں ، میں اُن سے پوچھتی ہوں آپ کہاں سے آ گئیں ؟ تو وہ کہتی ہیں" جب میں ہسپتال سے باہر نکلی ، تو نیلے رنگ کا ویسپا کھڑا تھا میں اس پر بیٹھی تو اس نے اُڑنا شروع کر دیا ۔ آسمان پر چودھویں کا چاند بھی تھا لیکن آسمان نیلا تھا " !۔ 
مسرت کافی دنوں کے بعد اماں جی کی دعا کے لیۓ آئی تب اس نے بھی بتایا ،،، جب میں آپ کی امی کو ہاسپٹل دیکھنے گئی تو مجھے ایک دن پہلے کا دیکھا خواب یاد آ گیا ، اور میں نے اُن کا ہاتھ تھام لیا ،،، کیوں کہ میں نے ایسا ہی منظر خواب میں دیکھ لیا تھا ! بالکل اسی طرح ہسپتال کا کمرہ ہے ، آپ کی امی بستر پر آنکھیں بند کیۓ لیٹی ہیں اور میں دیکھتی ہوں کہ ان کے دونوں ہاتھ بستر سے ذرا لٹک گئے ہیں میں انھیں پکڑ کر ان کے سینے پر رکھتی ہوں تو ان کے ایک ہاتھ پر مہندی سے کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور دوسرے ہاتھ پر خانہ کعبہ بنا ہوا ہے ، میں دونوں ہاتھ ان کے سینے پر رکھتی ہوں ،، اور کمرے سے نکل جاتی ہوں " ،، یہ ہی وجہ تھی کہ میں شدید جذباتی ہو گئی ،کمرے سے باہر آتے ہی بےہوش ہوگئی ،، مجھے اپنی امی بھی یاد آ گئیں!!۔
جس وقت اماں جی فوت ہوئیں آپا ، معہ بچوں کے واہ میں داخل ہو رہی تھیں ، ،،، اُن کو اس بات کا زندگی بھر ملال رہا کہ وہ مسلسل رہتے ہوۓ ، اماں جی کے آخری وقت میں ان کے پاس موجود نہیں تھیں ! لیکن یہ ہی زندگی ہے کہ جو ہم سوچتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو سوچا بھی نہیں ہوتا وہ پیش آجاتا ہے۔
( منیرہ قریشی ، 9 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں