منگل، 12 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں "(10)۔

"یادوں کی تتلیاں "(10)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
پڑھنے والوں نے محسوس کیا ہوگا کہ ان دس صٖفحات پر اماں جی کا ذکر زیادہ اور اباجی کا کم ہے ،، اس لۓ کہ ہر وہ شخص جسے ماں کا پیار ملا ہو اس کی زندگی میں پہلی قابلِ ذکر ہستی ماں ہی ہوتی ہے اور چونکہ ایک مصروف والد ذرا ایک قدم پیچھے ہوتا ہے لیکن سب نظام کے تار و پود اسی اہم ترین شخص کے ہاتھ میں ہی نظر آتے ہیں،،،لیکن اس وی آئی پی کے بغیر کوئی بھی گھر یا اسکی یاداشتیں قطعی مکمل نہیں ہو سکتیں،،، ارادہ تو یہ ہی تھا کہ صرف دو اقساط میں اپنے بچپن کی کچھ تتلیوں کی رنگینیاں دوسروں کے ساتھ شیئر کر کے ختم کرلوں گی لیکن اپنے احباب کے گلدستے سے ان تتلیوں نے اُٹھنے سے انکار کر دیا اور میں نے بھی ان لمحات سے فائدہ اٹھایا اور یادوں کا دروازہ مزید کھولا اور مزید تتلیاں آتی چلی گیئں ۔ اب ان کی رنگینیوں سے میں مسحور ہوں اس لۓ چاہ رہی ہوں کہ احباب بھی مجھے کچھ آسانی دے دیں ، لہذاٰ معاملہ یہ ہو گیا ہے ،،،؎ دل کے افسانے نگاہوں سے زباں تک پہنچے !۔
بات چل نکلی ہے ، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔۔۔۔
ہمارے اباجی کا پورا نام ، ظفرالحق قریشی تھا اور اپنے والد فضلِ حق قریشی کے چھ بچوں میں سے پہلی اولاد تھے۔ ہمارے دادا ، جنھیں ہم "آغا جی "کہتے تھے ، میٹرک کر کے پنڈی کے" لاء "کالج میں داخل ہو گۓ تھے لیکن قسمت کچھ اورکہہ رہی تھی ۔ اور انھی دنوں ان کی شادی ہوئی اوراسکے فورا" بعد صوبہ سرحد کے شہر چارسدہ کے قریب ایک گاؤں " عمر زئی " جانا پڑا اور چوں کہ پڑھے لکھے تھے اور ابھی گوئرنمنٹ کی جاب کی عمر بھی تھی لہذاٰ وہاں پوسٹ آفس میں پوسٹ ماسٹرجنرل کے طور پر تعینات ہو گۓ ! اورایک ایسا گھر کراۓ پرلیا جس کے پڑوس میں ایک لمبی چوڑی فیملی، خوب بڑی سی حویلی میں رہتی تھی ۔ اس گھر کا سر براہ قریبی سکول کے ماسٹر اور بعد میں ہیڈ ماسٹر بنے ، یہ پکے پٹھان اور پشتو بولنے والوں کا علاقہ تھا لیکن آغا جی کو جیسے دلی محبت کرنے والے مل گئے۔ ان کے پڑوسی ماسڑ صاحب کا نام بتانے والے اب میرے علم میں نہیں ، لیکن اتنا معلوم ہے کہ ان کے گیارہ یا بارہ بچے تھے ، اور اُن کی بہن " بیگم سلمیٰ تصدق حسین " ،،،صوبہ سرحد میں  تحریکِ پاکستان کی سرگرم کارکن تھیں اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ میں ان کا خاص نام ہے۔شاید گھرمیں عورت کی اس طرح ، جراؑ ت مندانہ مثال نے ماحول بدل کر رکھ دیا تھا اور اس سخت پردے والے اورسخت روایت کے حامل علاقے میں، وہ وجہ بن گئیں ! یہ ہی وجہ تھی کہ ماسڑ صاحب نے اپنی صاحب زادیوں کو بھی ایم۔اے تک پڑھایا اور ایک بیٹا کمشنر بھی بنا ، ایک بیٹی کا نام کلثوم تھا آخری عمر تک اباجی سے  بذیعہ خطوط  رابطہ میں رہیں ،ان کی رہائش لاہور میں تھی ،،، ،، اباجی اور ان سے چھوٹے بھائی انوار الحق اور چھوٹی بہن اقبال بیگم وہیں عمر زئی میں پیدا ہوۓ۔ پشتون ماحول میں آغاجی کے ساتھ ان کے بچے بھی صرف پشتو بولتے اور باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن اباجی کی پشتو بولنے کی صلاحیت ساری عمر تازہ رہی۔اور اتنی بالغ النظراور پڑھی لکھی فیملی کے ساتھ رہنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آغا جی کا سوچ کا انداز دوسروں سے فرق رہا ،آ غاجی جب پنجاب میں رہنے آۓ تو اپنے گاؤں میں پھر نیا گھر تعمیرکیا گیا جس کے بارے میں اباجی بتایا کرتے تھےکہ" میں شوق ، شوق میں اپنے گھر کی تعمیر میں زبردستی گُھسا رہتا ، حالانکہ میرا نو عمری کا زمانہ تھا اور گھر کی خواتین نے مجھے مزدوروں کے کھانے پہنچانے کی ذمہ داری دے رکھی تھی اور یوں مجھے اس گھر سے بہت محبت ہے ۔ اباجی کی والدہ وہیں عمرزئی میں بیمار ہوئیں اور ان ہی نیک دل ماسڑ صاحب کی نیک دل بیوی نے نہلایا ،کفن پہنایا اور باقی تمام کام ماسڑ صاحب کی زیرِ نگرانی جنازہ وغیرہ ہوا ۔ اس وقت آغاجی اپنی جواں سال بیوی کی وفات سے اتنے غمزدہ تھے کہ اپنے پڑوسیوں کی مددکے بغیر کچھ نہ کر سکتے کیوں کہ وہ اپنے ہر رشتے سے کوسوں دور تھے اس وقت یہ ہمدرد لوگ ہی ان کے سب کچھ تھے ، اباجی ذکر کرتے تھے کہ انھوں نے ہی قبر کا انتخاب کیا اور اتارا ، اور لگاتار کئی روز تک کھانا انہی کے گھر سے آتا رہا ، آغا جی تو جیسے بچوں سے بھی بے نیاز ہو گئے تھے اس وقت انکی عمر بمشکل،32،،33 سال تھی ، یہ شادی 7 سال رہی ، بیٹے کے گھر اجڑنے کی خبر پنجاب پہنچنے پر والدین نے انتظامات کر کے ادھر بلوا لیا اور پھر ٹرانسفر بھی کروا لی،،،، اس زمانے میں سواۓ خط کےیا ایمرجنسی میں تار کے کوئی خیر خبر رکھنے کا ذریعہ تو تھا نہیں کہ اکثر پرانے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتیں لیکن اباجی نے فوج میں آنے کے بعد یہ ٹوٹا رابطہ بحال کیا اور کبھی کبھار ان بزرگوں سے اور ان کے گھر میں موجود کسی نا کسی بھائی بہن سے بھی ملاقات ہو جاتی اور پشتو زبان ان کے آسان اور مادری زبان کی طرح کمیونیکیشن کا باعث بنی رہی ، لیکن اس رابطے میں لمبا وقفہ آگیا اور جب اباجی واہ کینٹ کی جاب سے ریٹائر ہونے لگے تو ایک دن کہنےلگے " میں تم سب کو تمہاری دادی کی قبر سے ایک پھیرا لگوانا چاہتا ہوں ، اماں جی تو اتنے لمبے سفر کے قابل نہ تھیں ، جوجی ان کے پاس رہی ، میں ، آپا، بھائی جان اور اباجی کار لے کر چلے تو دن کے 10 بجے عمر زئ پہنچے ِ،،، میں اس وقت سیکنڈائر کر چکی تھی ، لہذاٰ اباجی کا حکم تھا کہ اس علاقے میں سخت پردہ کا سلسلہ ہے اس لۓ برقعہ پہن لو ، آپا کا ایک پرانا برقعہ کام آگیا ، جب ہم وہاں پہنچے تواباجی اچھی یاداشت کے تحت ، حویلی تک فورا" پہنچ گۓ ، تو مجھے پہلے اندر بھیجا کہ اگر مرد ہوں تو برقعہ برابر کر کے انھیں باہر بھجو ، ورنہ خواتین کی صورت میں انھیں بتانا میں کون ہوں تاکہ وہ پھر ہمیں بلالیں گی ،،، میں اس بڑے سے گیٹ سے اندر داخل ہوکواندرونی بر آمدے میں آکر کھڑی ہو گئ کہ کوئی نظر ہی نہ آیا ،، کہ اتنے میں صحن کے بعد کے برآمدے سے ایک بہت بزرگ خاتون جو صاف رنگ ، لیکن قدرِ درمیانے قد کی آہستہ آہستہ چلتی اپنی ملازمہ کا ہاتھ پکڑے سامنے آئیں ، چند لمحے وہ ساکت ہو کر غور سے مجھے دیکھتی رہیں میں نے کہا " السلامُ علیکم " جوابا" انھوں نے وَعلیکم السلام نہیں کہا بلکہ کہا "" تم ظفر کی بیٹی ہو ؟؟ "" میں تو حیران ہو گئی ، اتنی بزرگ ہوکر بھی انھیں اباجی کا بچپن یاد تھا تو ہی انھیں مجھ میں کوئ جھلک نظر آئ ،، پھر تو محبت کے زمزے جاری ہو گۓ ، ہم نے پہلے چاۓ اور پھر کھانے کی دعوت کھائی اور ہمیں کپڑوں کے تحفے دے کر روانہ کیا گیا ، وہ اردو بہت ہی معمولی جانتی تھیں ، سب رابطے اباجی کے ذریعے ہی ہوۓ پھر اپنے ایک پرانے ملازم کو بلا کر ہماری دادی کی قبر تک رہنمائی کا کہا ، وہ قبر اتنی مدت کے بعد بھی خوب اونچی تھی اور اسکے سرہانے ایک سرسبز درخت بھی تھا ۔ وہاں کوئی پکی قبر نہیں تھی ،، ہم سب نے فاتحہ خوانی کی اور واپس آگۓ ،،، میرا خیال ہے وہ ہمدرد لوگ اپنوں کی قبروں کے ساتھ اس دوستی کو بھی نبھاتے رہے ہونگے ،، تب ہی وہ قبر اتنی نمایاں تھی ،، کیسے بےلوث لوگ تھے ،، کہ یادوں میں زندہ ہیں ۔ یہ زندگی بہت کم عرصے کے لیے ملی ہے ، اگر اچھی یادیں یاد رہ جاتی ہیں تو بُری بھی یاد آتی رہتی ہیں ، کیا فائدہ اپنی بری یادیں چھوڑ کر جانے کے بعد لوگ یاد کریں تو ساتھ یہ جملہ بھی کہہ جاتے ہوں " استغفرُاللہ ،،، بس اللہ ہی اسے معاف کرے "،،، اباجی ایک خوش قسمت انسان رہے ! !۔
کیوں کہ انھوں نے ایک بہترین بیٹے ، بھائی ، باپ اور نہایت خیال کرنے والے شوہر کے کردار نبھاۓ،، ان شاؑاللہ وہ اللہ کے حضور سُرخرو ہوۓ ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں بیوی میں کئی باتوں میں اختلاف بھی ہوا لیکن ، مجموعی طور پر اماں جی کی محبت حالات کو جلدتوازن پر لے آتی ، اباجی نے اپنے والد کے آگے کبھی بھی گستاخی نہیں کی ، اپنی بہنوں اور بھائیوں کے حالات سے کبھی غافل نہیں ہوۓ ، اماں جی کے بعد اباجی نے نہایت اعلیٰ ظرفی کے ساتھ ، دامادوں اور ایک بہو کے رشتوں کو نبھایا !اپنے تمام غریب رشتہ داروں کو جس حد تک جاسکتے تھے دامے ، درمے ، سخنے ، مدد پہنچائی !!! اور ان کی زندگی کے بعد میرے بیٹے کو بھی چند ایسے تجربات ہوۓ کہ میں سمجھتی ہوں وہ مرنے کے بعد بھی اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں ،،، اللہ پاک ان کی قبروں پر جنت کے دروازے کھول دے آمین ثم آمین !۔
( منیرہ قریشی ، 12 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں