بدھ، 27 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(19).

یادوں کی تتلیاں "(19)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اپنے والدین کی خوبیاں اور نیکیاں اگر میں لکھ رہی ہوں تو اس کی دو وجوہات ہیں۔
۔1)یہ خوبیاں واقعی ان میں تھیں اور ہم ان کی اولادیں اس بات پر  رب کا ازحد شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں آج اگر  اچھے برُے کا احساس ہے تو ان کی "غیرارادی" تربیت کی وجہ سے ہے، ہماری اگر بری عادتیں ہیں تو ہماری اپنی" ماحولیاتی آلودگی" کی وجہ سے ہیں۔
۔2) اور میں اس لۓ ان کی خوبیاں بیان کر رہی ہوں کہ کیا ہم   والدین اپنی اولاد کے "آئیڈیل " بن رہے ہیں ؟ حالانکہ پہلے کے والدین کی نسبت آج ہم اپنی اولاد کو بہترین سہولتیں دے رہے ہیں۔ اولادیں منہ سے جو نکا لتی ہیں ، پورا کرتے رہتے ہیں ۔ دوستانہ اندازبھی بہت ہے ۔ لیکن بچے اپنے آئیڈیل ، گھرسے باہر ڈھونڈتے ہیں ۔ تو کیوں ؟ ہمیں اس پر اپنا جائزہ لینا ہو گا ۔
ہمارا تعلق ٹیکسلا کے ایک گاؤں " گانگو جمعہ "سے ہے ۔ ہمارے آباء نے نادر شاہ کے دور میں "دلی" سے ہجرت کر کے یہاں کے سرسبز اورپہاڑی علاقے کو اپنا مسکن بنایا،اور دلی میں قیام سے پہلے حجازِمقدس سے وہ خاندان خصوصی طور پر بُلوایا گیا،جسے "قاضی" کہتے تھے کیوں کہ انھیں فقہ کے ماہرین کی ضرورت تھی۔دلی آنے پر اِن کا قیام جہاں ہوا وہ جگہ "حوض قاضیاں" کہلانے لگی جو آج بھی اسی نام سے ہے ۔ ( اتفاق سے میرے بھائی جان کو سرکاری دورے  پر دہلی جانے کا موقع ملا تو وہ خصوصی طور پر وہاں بھی گۓ ، بتا رہے تھے کہ اب وہ جگہ شہر کے ساتھ مل گئی ہے ، لیکن اُس دور کا "حوض " آج بھی ہے اور اسے حوض قاضیاں ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اب یہاں اس علاقے کی ہجرت جان بچا نے کے لیے کی گئی تھی، یہاں بھی انھیں احترام ملا اور لوگوں نے انھیں امامت ، شرعی فیصلے کے اختیار ،وغیرہ دیۓ لیکن چوں کہ یہ کچھ پڑھےلکھے تھے اس لئے اپنی کمائی پر انحصار کرنا چاہتے تھےان میں سے مردوں نے حکومتی نوکری میں " پٹواریوں" کی  نوکریاں کر لیں، یوں ان کی آمدنی کا بہترین سبب بن گیا ۔اسی آمدن سے انھوں نے اس نئی جگہ اتنی زمین لے لی کہ کھیتی باڑی بھی ساتھ ساتھ چلنے لگی ۔پڑھنے کا رحجان ان دو بھائیوں (جو گانگو میں سیٹل ہوۓ) میں رہا ان بھائیوں کے نام "جمعہ"اور "بہادر" تھے۔اسی لۓ یہ گاؤں آدھا گانگو جمعہ اور آدھا گانگو بہادر کہلاتا ہے ۔،،، گانگو کا لفظی مطلب " گاؤں ' ہے۔
ویسے ہی چلتے چلتے سوچا ہلکی سی جھلک اس خاندان کی بھی دیکھ لی جاۓ ۔ ورنہ " پدرم سللطان بود " کا قصہ مجھے نہیں پسند ! ،،، لیکن ایک مرتبہ سردیوں کے دن تھے ہم بہنیں اپنے والدین کے ساتھ آتش دان کے گرد بیٹھے گپ شپ کر رہی تھیں ، ( میں ان دنوں فسٹ ایرمیں تھی )اور اسی دوران باتوں کا رخ اِسی( اصل میں لفظ ہم ، یا ہمارا خاندان کا استعمال کوئی قابلِ فخرلفظ نہیں ، جتنا اُس خاندان کی مثبت سرگرمیوں پرفخر کرنا بنتا ہے) خاندان کی ہجرت وغیرہ کی طرف مڑ گیا اورمیں نے اپنے بڑبولے پن میں کہہ دیا " مجھے ان کہانیوں پر بالکل یقین نہیں ، کیا پتہ ہم ہندؤں سے ہی مسلمان ہوۓ ہوں اور یہاں اس جگہ ہجرت کے بعدبزرگوں نے خود کو عزت دار ظاہر کرنے کے لۓ اپنے نام کے ساتھ "قریشی" کا لاحقہ لگا لیا ہو اور یہ کہناکہ ہم "حضرت ابو بکرصدیق (ر ض ع) کے نسل سےہیں ، مشہور کر دیا ہو ،،، وغیرہ وغیرہ ! اباجی نے اس وقت کوئی بحث نہیں کی ،، بات آئی گئی ہو گئی ،، ،، شاید تین ، چار ماہ گزر گۓ ، اور یہ بحث بھی دماغ سے محو ہو گئی ، کہ ایک رات خواب دیکھا" میں ، اماں جی ،اباجی ،اور میری بڑی خالہ حج کر رہے ہیں اور ہم سب میدانِ عرفات میں ہیں ( ہم میں سے کسی نے حج نہیں کیا ہوا تھا ، اور نہ مجھے حج سے متعلق کسی قسم کی معلومات تھیں کہ عرفات کب جاتے ہیں وغیرہ) اُن دنوں اباجی نے سرخ ووکس ویگن رکھی ہوئی تھی ، ہم سب اسی میں بیٹھے ہیں، اور ارد گرد لاتعداد حاجی احرام میں ایک جانب جا رہے ہیں ، خوب چوڑی سڑک ہے، فضا میں تلبیہ کی گونج ہے ،لیکن اباجی کی گاڑی ایک درخت سے ٹکرا جاتی ہے ، جب مجھے ہوش سا آتا ہے تو، معلوم ہوتاہے، کہ سب افرادِخانہ فوت ہو چکے ہیں ،، میں فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر لوگوں سے مدد کا کہتی ہوں لیکن کوئی توجہ نہیں دیتا ، ایک سارجنٹ بھی آتا ہے اور اتنی مدد کرتا ہے کہ گاڑی میں سے ان تینوں کی لاشیں نکال کر فٹ پاتھ پر رکھ دیتا ہے ، اور یہ کہہ کر چلا جاتا ہے کہ قبرستان میں کوئی جگہ نہیں کہ انھیں دفنایا جا سکے ، میں سخت پریشانی میں ہوں کہ انھیں کیسے اس طرح چھوڑ کر چلی جاؤں ،، کہ اچانک زلزلہ آجاتا لوگ تلبیہ کی بجاۓ کلمہ پڑھنے لگتے ہیں ،اور چند لمحوں کے بعد زلزلہ ختم ہو جاتا ہے ،وہی پولیس سارجنٹ بھاگا آتا ہے ، کہ ہم انھیں لے جا رہے ہیں ، زلزلے کی وجہ سے قبریں ادھر اُدھر ہو گئیں  ہیں اس طرح جگہ بن گئی ہے ۔ میں بےفکر ہو جاتی ہوں اگلے لمحے یہ سوچتے ہوۓ قبرستان جاتی ہوں کہ پتہ تو چلے میرے پیارے کہاں دفن ہیں ! تو بہت سی قبروں کے درمیان ایک بہت نمایاں اور اونچی قبر ہے ۔میں قریب جاتی ہوں کہ معلوم کروں یہ کس کی قبر ہے تو تختی پر " حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ " لکھا ہوتا ہے ،،،، میں حیران رہ جاتی ہوں کہ میرے والدین اور خالہ کو اتنی اچھی جگہ ملی ہے ،،کہ آنکھ کھل گئی ،،،،،،،،،،مجھے یوں لگا کہ میرے بڑبولے پن اور شکی سوچ کا جواب ،مجھے ملا ۔میں مکمل سچائی سےلکھ رہی ہوں، کہ میں نے واقعی یہ سوچا تھا کہ " ذاتیں لوگ خود بناتے ، بدلتے رہتے ہیں ،،،،آج کی قسط مجھےایسی لکھنا چاہیے یا نہیں لیکن بس آج یہاں سوئی اٹک گئی ہےتو سوچا ایسے تو ایسے ہی سہی !۔
میں نے پہلے بھی ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ اماں جی میں خواب کی تعبیر بتانے کی بہت الہامی صلاحیت تھی ، انھیں میں نے صبح یہ خواب سنایا تو انھوں نے کہا ، کبھی مکمل شہادت کے بغیر منہ سے کوئی تبصرہ نہ کرو۔ ۔ یہ بیوقوفیاں تو ہم روز اور اکثر کرتے ہیں اوریہ ہی الفاظ باعثِ شرمندگی بھی بنتے ہیں لیکن ہم باز نہیں آتے۔
( منیرہ قریشی 27 ستمبر ،2017ء واہ کینٹ) ( جاری )

1 تبصرہ:

  1. خواب کے حوالے سے آپ کی یادوں پر ایک تحریر کے آپ کے قارئین منتظر رہیں گے۔ اللہ پاک ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ آپ کے قلم میں روانی برقرار رکھے آمین

    جواب دیںحذف کریں