جمعرات، 7 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (8) ۔

یادوں کی تتلیاں " (8) ۔"

اپنے بچپن کی یادوں کو اچھے معنی میں یاد کرنا ، یا ، اس کو سبق کے طور پر لینا ، ذرا حوصلے کا کام ہے ،اس میں ہمیں اپنوں سے گلے شکوے کرنے کو دل چاہتا ہے اور بچپن کی نفرتوں کو پالنے پر بھی شیطان زور ڈالتا ہے !!لیکن حقیقت یہ ہے (میرے خیال میں ) کہ اگر بچپن ، بُرے حالات میں گزرا ، تو مزاج میں ساری عمر تلخی کا عنصر رہتا ہے اور اگر جوڑ توڑ کی خاندانی سیاست کو دیکھتے ، جھیلتے گزرا تب بھی بڑے ہونے پر ہم اپنی بنیادی نفرتوں کو کبھی نا کبھی اپنی ذات پر چسپاں کر ہی لیتے ہیں اور اگر کسی کا بچپنے کا دور کچھ رشتوں سے محرومی کا گزرا ہے تو وہ اکثر یا تو " سخت دل " ہو جاۓ گا یا بہت " نرم دل " ،،،،،یہ محض ایک بندے کا تجزیہ ہے ورنہ تو دنیا میں جتنے انسان ہیں اتنی " فطرتوں " کے رنگ ہیں ،،، اور بندہ ہر دفعہ اللہ کی اس بوقلمونی پر حیرت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے ! !۔

میں نے یہ سب کچھ برسبیلِ محض ذہن میں آگیا تو لکھ دیا ۔
ورنہ تو اپنے بچپن کی یادوں کو ذرا " آواز" دینے کے لۓ یہ سلسلہ شروع کیا جو ارادہ تھا کہ صرف ایک دو اقساط میں ختم کر دوں گی لیکن ،مجھے اتنا " بک اپ " کیا گیا کہ مجھے لگا کچھ اور لکھ لینے میں کوئی حرج نہیں !۔

اور میری کہانی میں تھوڑے کردار ہیں جنھیں سامنے لاتی رہوں گی کیوں بچپن کے تاثرات ناپختہ ہوتے ہیں اور اب اگر میں اپنی پختہ راۓ شامل کروں گی تو مناسب نہیں ہو گا ۔،،، 
اماں جی 6 بہنیں اور 2 بھائی تھیں ، ان سے بڑی ایک بہن شفیہ بیگم اور ان سے چھوٹا ایک بھائی ، میرے نانا سکول ٹیچر تھے آخر میں اسی گورئمنٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر بنے اور ریٹائر ہوۓ ! نانا جی کا کافی عرصہ مردان میں گزرا ،، جب اپنے پنجاب میں رہنے لگے تو گھر میں ایک تو مذہبی گھرانہ ہونے کی وجہ سے "صرف سخت نہیں بلکہ سخت ترین " پردہ تھا اور دوسرے وہ خود بھی حد درجہ رعب داب والی شخصیت رہے ، اسی وجہ سے اماں جی اور ان کی بہن کے لۓ سکول جانے کا تصور ہی نہیں تھا البتہ نانا جی کے سکول سے وابستگی اور پڑھے لکھے ہونے کی بنا پر دونوں بہنیں ، کچھ نا کچھ اپنے والد سے پڑھتی رییں ، اردو ، عربی اور کچھ تھوڑی فارسی ! بیٹے کو انھوں نے اپنے سکول میں داخل کروایا اور ہمارے یہ ماموں بہت ذہیین اور لائق نکلے ، بعد میں انھوں نے آٹھویں میں اپنے علاقے میں ٹاپ کیا اور دسویں میں ضلع کے تمام سکولوں میں پہلی پوزیشن لی ، حتیٰ کہ کئ بہترین کالجوں کے پرنسپل صاحبان نے انھیں اپنے کالج میں مکمل سکالر شپ پر داخلے کی کوششیں کیں ، لیکن ناناجی کی سادگی یا مالی آسودگی کی جلد کوشش کہ سب کو انکار کر دیا اور انھیں فوج میں بھرتی کروا دیا ،،، جس کا ماموں جان کو افسوس رہا ، بعد میں آرمی میں رہ کرانھوں نے جلد ہی ایف۔ اے پھر بی۔اے اور ایم۔اے کیا اور شاندار کیرئر سے ریٹائر ہوۓ ۔ ،، یہ سب لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ گھر سے ایک لڑکا سکول جاتا اور اماں جی انتہائ شوق سے اپنے بھائ کا یونیفام لٹکاتیں ، اس کی کاپیوں ، کتابوں کو سیٹ کرتیں ، اور پھر جب وہ پوچھتیں کہ آج کیا کچھ پڑھا تھا ، مجھے وہ پڑھاؤ تو وہ ' ٹپیکل بھائ " بن کر پہلے کوئ کام کرواتے پھر اپنا سبق ان کے سامنے دہراتے ، اماں جی کو انگریزی پڑھنے کا شوق ذیادہ تھا ، ان کی انگریزی سے شُد بُد اتنی ضرور ہو گئ کہ اپنے بچوں کی ابتدائ کلاسز میں وہ خود پڑھاتی رہیں ، باقی رہی اردو ، عربی، وغیرہ تو وہ تو والد کی وجہ سے بہترین ہو گئ تھی ، اور مزید یہ کہ اپنے والد کے کتابی خزانوں سے کوئ نہ کوئ کتاب زیرِ مطالعہ رہتی ۔ کتاب کسی بھی موضوع پر ہوتی ہو پڑھنےکی " چُٹک " پوری کر لیتیں ، یہ ہی وجہ تھی کہ اماں جی کی ' نالج "اور " ذوق" اپنے خاندان بھر کی خواتین سے نمبر ون ، بلکہ چند ایک مردوں کو چھوڑ کر مردوں سے بھی بڑھ کر تھا ۔ دراصل وہ بہت ذہین عورت تھیں جن کی سوچ اپنے زمانے سے اگر 50 سال آگے نہیں تو 25 سال ضرور آگے تھی ، اپنی جوانی میں ہی ان کی پسند منفرد ہوتی ،، اور جب ان کی شادی ہو گئ تو سلامی کے پیسوں سے انھوں نے شوہر سے ہاتھ کے بنے تین مناسب سائز کے قالین منگواۓ ، اور اس دور کی اپنے سسر کی " بیٹھک " کو نیا اور اعلیٰ انداز دیا ،، چاۓ کے ان کے اپنے جہیز

کےبرتنوں میں چاۓ دانی اور دودھ دان تھے لیکن گاؤں کے رواج کے مطابق مکس چاۓ بنتی ،اور پیش ہو جاتی، اماں جی نے اپنے شوہر اور سسر کے لئے ٹرے میں دودھ دان میں دودھ ڈالنا،چاۓ دانی میں چاۓ اور چینی الگ سے۔یہ سلیقہ،عقل مندخواتین نے سراہا اور ، کم عقلوں نے یہ کہہ کر تبصرہ کیا ، اپنا رعب ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے ، پورے گاؤں میں پہلا ریڈیو دادا جی نے خریدا تو اماں جی نے بھی اسے چلانا سیکھ لیا جب کہ باقی خواتین نے نا صرف سیکھا نہیں بلکہ ان کے خیال میں یہ صرف مَردوں کے کام کی چیز ہے ،،، اماں جی نے اپنے محبوب شوہر سے ایک فرمائش یہ کی کہ مجھے دو رسالے لگوا دیں " حور " اور " زیب النساء"،،،یہ وہ فرمائشیں تھیں جو ہمارے پورےخاندان میں اس وقت تک کسی عورت نے نہیں کی تھیں ، یہ دونوں رسالے اماں جی کی زندگی تک آتے رہے اور بعد میں بند ہوۓ ، جب اباجی دوسری جنگ عظیم میں سوڈان ، مصر وغیرہ کی طرف چلے گئے تو اپنی طرف سے کافی پیسے داداجی کو بھیجتے لیکن اماں جی کے حصے میں صرف 10 روپے آتے ، ان کی گود میں پہلوٹھی کی بیٹی بھی تھی لیکن ان 10 روپے کا مصَرف یہ تھا کہ ہر مہینے 5 روپے ایک ہمدرد بزرگ کو دیۓ جاتے کہ اان پیسوں کا بکرا ذبح کروا کر غُرباء میں تقسیم کردیں ، باقی 5 روپے سے اپنا اور بیٹی کی ضروریات پوری کر لیتیں ، اس وقت اماں جی کی عمر بہ مشکل 20، 21 سال ہوگی ، لیکن اس طرح شوہر کے لۓ صدقے دینا ، اور اپنی ضروریات کو کم 
سے کم کر لینا ، اپنا فالتو وقت کتابوں کے ساتھ گزارنا ، تاکہ خاندانی سیاست میں کم سے کم سننا ، بولنا ملے ،،، یہ ذہانت نہیں تو کیا تھا !،،، اپنے والدین کے گھر میں یہ 4 بہنیں اورایک بھائی ( باقی دو بہنیں اور ایک بھائی بعد میں پیدا ہوۓ ) آپس میں خوب ہنسی مذاق کرتے ۔ ان کا ماحول ہلکا پھلکا اور دوستانہ تھا ، حسِ مزاح خوب تھی ! اسکے برعکس سسرالی ماحول، سخت سنجیدہ ، اور خاندانی سیاست سے بھر پور تھا ، جس میں ضم ہونے کی انھیں کوشش کرنی پڑی ، لیکن ان کا رویہ ہر ایک سے دوستانہ اور احترام کا رہا ، انھوں نے اپنی چھوٹی نندوں کے ساتھ اور اپنے سے چھوٹے دیور کے ساتھ خوب دوستی رکھی اور ہماری بڑی پھوپھو جی کو اہمیت دی یہ سب ان کے خاموش ہی سہی لیکن حمائیتی تھے ! جس کا نتیجہ بعد میں یہ نکلا کہ اباجی کا گھر سب کا " میکہ " بنا رہا ، اور اس میکے کو خوش گواریت دینے میں اماں جی کا ہاتھ تھا ، اور اللہ کا شکر وہ بہترین یادیں چھوڑ کر گئیں! اماں جی کو اپنی دنیاوی زندگی میں کوئی عزیز از جان تھا تو اپنا شوہر، اپنے بچے اور اپنا بھائی ! اس بھائی سے انھیں اتنی محبت تھی کہ کم ہی دیکھنے میں ملا ہے اور ان کا بھی یہ عالم رہا کہ " آپاجی ،آپاجی " کا ورد رہا ،،، حالانکہ ماموں جان ہر بہن سے اتنی محبت کرتے تھے کہ ہر بہن یہ سمجھتی تھی کہ بس میں ہی ان کی چہیتی ہوں ، ،، ہمارے چھوٹے ماموں کے ساتھ اماں جی کا رویہ ماں والا رہا ، کیوں کہ وہ ہماری آپا سے کچھ ہی بڑے تھے اور ان سے چھوٹی بہن تو آپا کی  ہم عمر تھیں ، ایک اور بھائی بھی تھے لیکن وہ 15 سال کی عمر میں دنیا سے چلے گۓ اور آخری میری خالہ تقریبا" مجھ سے ایک آدھ سال بڑی تھیں ، یہ سب آپس میں محبت کے مضبوط بندھن میں جڑے ہوۓ تھے ، میری چھوٹی خالہ کے پڑھائی کا دور آتے آتے بڑے بہن بھائی کا گھر میں کافی کہا سُنا جانے لگا اور وہ باقاعدہ سکول گئیں اور پھر ہوسٹل میں رہ کر میٹرک کیا ، باقی پڑھائی شادی کے بعد کی ،،، ایسی کہ پہلے ٹیچر اور پھر پرنسپل کے طور پر ریٹائر ہوئیں اور اب ریٹائر زندگی بھر پور طریقے سے گزار رہی ہیں !۔
اماں جی کا زندگی کا آخری ایک ماہ ہسپتال میں گزرا ، اور انکے دل نے جب صرف 25 فیصد کام کرنا شروع کر دیا تو ڈاکٹرنے کہہ دیا یہ کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہیں ، ماموں جی ان دنوں کراچی تعینات تھے انھیں اطلاع دے دی گئی ، اس دوران اماں جی اتنی بےطاقت ہو چکی تھیں کہ اپنی آنکھیں بھی کھولنے کی ہمت  نہیں رہی تھی انہی دنوں چھوٹے ماموں آۓ تو اباجی نے ویسے ہی ان کادل رکھنے کو کہہ دیا دیکھو " محمد یوسف " آیا ہے ( نانا جی کے گھر مکمل نام لینے کا رواج یا حکم سختی سےتھا ،) ماموں جی نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ،،، اماں جی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگیں ،، نہیں یہ محمد یوسف تو نہیں ! سب کی آنکھوں میں آنسو آ گے ، کہ آنکھیں نہیں کھولی جا رہیں لیکن بھائی کی محبت، کی خوش بو کی پہچان ہو رہی ہے چھوٹے ماموں نے کہا تو میں بھی تو آپ کا بھائی ہوں تو کہنے لگیں تم تو بیٹے ہو ! یہ سن کو ماموں بہت خوش ہوۓ ! اگلے دن بڑے ماموں جی کو حالت کی خرابی کا فون گیا تو ان کا اپنا کہنا تھا کہ میں نے جلدی جلدی کپڑے بدلۓ اور جب جوتے پہننے لگا تو یکدم بستر پر دھم سے بیٹھ گیا ،،، اور آنکھوں میں آنسو آگۓ ، بیوی نے پوچھا کیا بات ہے تو میں نے کہا " آپاجی نہیں رہیں " اس نے کہا آپ کو کیسے پتا ، کہنے لگے مجھے معلوم ہو گیا ہے اور صرف 10 ، 15 منٹ کے بعد فوتگی کا فون آگیا ،،،! بہن بھائی کی شدتِ محبت بے لوث ہو تب ہی ایسے جذبے جگہ پاتے ہیں ،،، ماموں جی اب بھی زندہ ہیں بہت  بزرگ ہو چکے ہیں لیکن یہ 40 سال قبل کا واقعہ جب بھی سناتے ہیں ، ہر دفعہ آبدیدہ ہو جاتے ہیں !۔
( منیرہ قریشی 7 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری ) 

1 تبصرہ:

  1. ۔خاص دوست کے خوبصورت آغازِ سفر کے نام ۔۔۔۔۔
    "دنیا محض ایک میلہ ہے اور میلہ خانہ بدوشوں کے قبیلے کی طرح ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کوچ کر سکتا ہے۔اللہ کے کرم،اس کی نوازشات اوراُس کے"شکر" کا ادراک جس لمحے ہو جائے،اُس لمحے کو اپنا لیں،مٹھی میں قید کر لیں تو بہت سی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ "لمحے تو تتلی کی طرح ہوتے ہیں یا تو گرفت میں آتے نہیں اور آجائیں توبےجان وجود کی صورت مٹھی سے پھسل پھسل جاتے ہیں"

    جواب دیںحذف کریں