منگل، 5 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں" ( 7 ) ۔

یادوں کی تتلیاں" ( 7 ) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اماں جی ، جیسی ماں آج کل کم ہی نظر آتی ہیں ، شاید ان کی زندگی کم تھی اسی لیے انکی زندگی میں " کوالٹی " زیادہ تھی ۔ انسانی زندگی میں ہمارے دین کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک اہم ترین نکتہ شرک نہ کرنا اور نبی پاکﷺ سے محبت کرنا ہے اماں جی ان دونوں جذبوں سے تو سرشار تھیں ساتھ ساتھ انکی بےغرض ، اور مہمان نواز طبیعت نے انھیں آس پاس کے بےشمار لوگوں میں نمایاں کر دیا تھا ،جن میں سے چند واقعات کا ذکر کروں گی ورنہ تو سلسلہ دراز تر ہوتا جاۓ گا ، اور مجھے معلوم ہے اپنے والدین کی خوبیاں اپنی اولاد کو تو اچھی ،بلکہ اہم لگتی ہیں لیکن دوسروں کو یہ باتیں اس لئے غیر اہم لگتی ہیں کہ " سب کو اپنے ماں باپ نیک پاک لگتے ہیں '' ،،،اسی خیال سے وہ دوسروں کے والدین کی خوبیوں کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے !۔بھلے لوگ جو بھی خیال کریں ،اپنے والدین کے کردار کے اچھے اور روشن پہلو سے دوسروں کوآگاہ کرتے رہیں ، شاید کسی کے دل میں کبھی کوئی خیال آجاۓ کہ " مجھے یہ خوبی اپنانے کی کوشش کرنی چائیے ، کیوں کہ یہ جن لوگوں کا ذکرِ خیر میں پڑھ ریا ہوں اسی آج کی دنیا کے لوگ تھے اگر وہ رزقِ حلال کے ساتھ یہ نیکیاں کما تے رہے تو مجھے بھی کوشش کر لینی چایئے اور سب سے اہم بات کہ ہم ان کے مرنے کے بعد ان کی نیکیوں کو کیوں چُھپائیں ! ہاں انسانی کمزوریاں ہر ایک میں ہوتی ہیں انھیں نہیں اُچھالنا چائیے کہ " پرفیکٹ " تو کوئی بھی نہیں !،،،۔
،اماں جی میں غریب پروری بہت تھی ، اور اگر اباجی اس عادت کو نارمل نہ لیتے تو جیسا کہ اکثر شوہر کرتے ہیں کہ " شک کرنا ، پتہ نہیں پیسے کہاں لٹاتی ہے ،،، یہ بندہ روز اپنے دکھڑے رونے میری بیوی کے پاس ہی کیوں آجاتا ہے وغیرہ وغیرہ !!تو یقیناً گھر میں ایسا کُھلا "سلسلۂ غربا ء یا سلسلۂ اقرباء " نہ چل سکتا ، اماں جی ہر بوڑھے کی سہیلی تھیں اور ہر بیمار کی مدد کے لیےان کا دل بےچین ہو جاتا ،،اور اس معاملے میں ظاہر ہےاباجی کے تعلقات کام میں لاۓ جاتے ! ،،، سرونٹ کوارٹر میں ایک ایسی فیملی رہنے لگی جس میں بوڑھا باپ اس کی درمیانی عمر کی بیوہ، سادہ مزاج بیٹی اور ایک 14 ، 15 سال کا نواسہ شامل تھا ! یہ اتنے سادہ سے تھے کہ ہر بات دو تین مرتبہ بتانے پر سمجھتے ، ان کے بارے میں پتہ چلا باپ بہت بزرگ ہے ، کوئی کام تو کر نہیں سکتا ، سبز لمبا چوغہ پہنے پھرتا رہتا ہے کسی نے کچھ دے دیا تو لے لیا ،،، کوئی سال بھر گزرا تو بیٹی نے ایک دن بتایا بابا جی کو بخار ہے کوئی دوا دے دیں اماں جی نے بخار کی گولی دی ، ( ہمارے گھر ہر وقت فوری ضرورت کے لۓ ایک فسٹ ایڈ بکس تیار ہوتا تھا ، نیز اماں جی کی مسلسل بیماری نے دونوں میاں بیوی کو آدھا ڈاکٹرتو بنا ہی دیا تھا) دو تین دن وہ روزانہ لے جاتی رہی آخر اماں جی کواٹر میں خود چلی گیئں کہ مسئلہ کیا ہے ! دیکھا تو باباجی بخار میں پھنک رہے تھے ، گھرسے تھرما میٹر اور دوا لے گئی تھیں ، بہت کہا سامنے ڈاکٹر بیٹھتا ہے چلو ، لیکن بزرگ نہ مانے ، تب بتایا میرے کولہے پر " پھوڑا " ھے جس کے درد سے بخار ہے ! اماں جی نے کہا مجھے اپنی بیٹی سمجھو اور دکھاؤ ، مشکل سے راضی ہوۓ ! اماں جی نے " معائنہ " کیا گھر سے ایک چھوٹے گھریلو آپریشن کا سامان لیا ،،، گلوز چڑھاۓ اور پھوڑے کو سڑلائز قینچی سے چیرا دیا ، ڈیٹول سے صاف کیا اور " سلفہ " کا پوڈر چھڑک ، مرہم پٹی کر فارغ ہو کر آگیئں !یہ سب " واردات " ہمیں دوسری میڈ اور بابا کی بیٹی نے بتائ ، اماں جی 5، 6 دن " بینڈج " کرنے جاتی رہیں ، باباجی ٹھیک ہو کر پھر اپنے پھرنے پھرانے کے چکر میں مشغول ہو گۓ وہ بہت کم بات کرتے تھے شاید ہفتوں میں دو چار لفظ ! اماں جی کا جب سامنا ہوتا وہ دونوں ہاتھ اُٹھا کر نظریں آسمان کی طرف کر دیتا اور بس !!!۔
اماں جی کی صبح خیزی کی عادت تھی ، لان کی سیر اور پودوں کا بغور معائنہ اس دوران ہوتا ، ایک دن دیکھا کہ ہاتھ پاؤں پر گھسٹتا ایک آدمی گیٹ کے باہر سے گزرا ، دوسرے تیسرے دن بھی یہ ہی ہوا تو اسے بُلایا ، کہ کون ہو اور پہلے کبھی اس طرف نظر نہیں آۓ؟ کیا تکلیف ہے لیکن وہ صرف پشتو بول سکتا تھا، اباجی کا بچپن چونکہ سرحد میں گزرا تھا اس لۓ پشتو ان کے لۓ مادری زبان کی طرح تھی ، چنانچہ اباجی کو کمیونیکیشن کا کام سونپا گیا ، پتہ چلا ،، نہایت شریف اور ، خود دار فیملی اس جوڑوں کی بیماری کے ہاتھوں سب زمین جائیداد بیچ کر اب یہاں آگۓ ہیں ، جس کے سرونٹ کواٹر میں آۓ ہیں وہ صاحب انہی کے علاقے کا ہے اب بیوی اور والدہ ان کے بنگلے میں کچھ کام کرتی ہیں اور گزارا ہو ہی جاتا ہے ! بس اماں جی کا جذبہء خدمت جاگا اور اسے آگاہ کیا گیا کہ تین دن بعد تک تمہارے جوڑوں کے لۓ ایک دواء تیار ہوگی اگر جوڑ ٹھیک نہ بھی ہوۓ تو کم از کم شدید دردوں کا آرام آ جاۓ گا لیکن یہ دواء ہمارے فریج میں رہے گی اور روزانہ صبح پہلے خالی پیٹ اسے آدھی چمچ کھانا ہے اور پھر آدھ گھنٹے بعد ناشتہ کرنا ہے وہ دواء کئی کلو دودھ میں بکنی تھی اور ہمارے گھر بھینس تھی اور ،،،، اس گھر میں فیض پہنچانے والے دل بھی تھے " " چناچہ 7 ، 8 کلو دودھ میں ہلکی آنچ پر دوا  تیار ہوتی رہی اور اسے خراب ہونے بچانے کے لیے فریج میں رکھنا ضروری تھا ، وہ کھانے آنے لگا ، چند دن میں اسے درد کا آرام آیا ،،، تو اسے اعتبار بھی آیا ، اس نے اماں جی سے خود کہا کوئی کام ہو تو میری بیوی کر دیا کرے گی ! اماں جی ان ماوؤں میں سے تھیں جن کے نزدیک گھر کی ہر غذا خالص ہونے کے لۓ مصالحے بھی دھو کر گھر میں پیسے جائیں ! نمک وغیرہ ،،، دھویا جاتا پھر پِیسا جاتا، اور یہ کام اکثر اردلی یا کوئی اور کرتا ،، اماں جی نے اس مرتبہ اسی کی بیوی کو بلا لیا وہ سفید ٹوپی والے برقعے میں آئی ، اور جب اماں جی کے سامنے اس نے بُرقعہ اُلٹایا تو اماں جی کچھ دیر کے لۓ گنُگ رہ گئیں کہ وہاں مکملسرحدی حُسن موجود تھا اور پھر انھوں نے اسے گلے لگا کر رونا شروع کر دیا ، اب اسے محبت کی تو سمجھ آگئی لیکن رونے کی وجہ سمجھ نہ آئی کہ یہاں زبان کا پرابلم تھاخیر اس نے بُرقعے میں ہی اپنا کام نبٹایا اور چلی گئ چند ماہ یہ سلسلہ چلا لیکن اماں جی کا کہنا تھا ، اتنا حُسن اس کے اپنے لیے دشمن ہے اسکے لیے کچھ اور ہونا چائیے ، ،ان دنوں آپا ( ہماری سب سے بڑی بہن اور اماں جی کی تابعدار بیٹی ، یہاں ہی آئی ہوئی تھیں اور ان کو آرڈر ہوا اسے سلائی سکھاؤ ، اور اس لڑکی کا یہ حال کہ اسے سلائی مشین میں دھاگا ڈالنا بھی نہ آتا تھا ، لیکن وہ بھی اچھے ذہن کی نکلی اور آپا نے بھی حوصلے اور جذبے سے اسے سلائی سکھانی شروع کی اور یہ مرحلہ سال بھر چلا ،،،، اماں جی کا اگلا آرڈر آیا کہ اب کچھ پیسے تم اور کچھ پیسے احسان ( ہمارا بھائ جو اس وقت لیفٹیننٹ تھے ) ملاۓاور سی ۔ ایس ۔ ڈی ، سے سلائی مشین لے کر دوگے ، اس حکم پر عمل ہوا اور ٹوٹل 700 کی سلائی مشین جب اس بہادر خاتون کو دی گئی تو اس کے ہی نہیں اسکے شوہر اور بے حد اللہ والی ساس کے بھی آنسو کے ساتھ دعائیں تھیں اب وہ باعزت انداز سے اپنے گھر میں بیٹھے ہی گھر چلانے لگی ، اس کمائی سے اس نے اپنے 4 بیٹوں کو پڑھایا ،،اس بہادر غیرت مند بندے نے بھی پائی پائی جوڑنا اور اماں جی کے پاس امانت رکھواتے جانا ۔ ایک وقت آیا کہ اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ حوالدار کو حکم ملا ان کے گھر کے لیےزمین دیکھو اور اس بابرکت پیسے سے ایک کنال کا ٹکڑا ملا اور پھر بچوں کی کمائی سے ان پر چار پانچ کمرے بن گئے ، وہ مشین جب خراب ہو گئی ( کافی سال بعد ) تو نئی مشین خرید لی گئی لیکن اسِ پرانی مشین کو اس فیملی نے آج بھی سنبھال کر رکھا ہوا ہے ۔ اور ہم بچے اپنے والدین کے لۓ صرف مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں لیکن وہ میاں بیوی اور اس کی ساس جب تک زندہ رہی ہر سال ان کے لیےقرآن ضرور پڑھتے ہیں ( اپنے عقیدےکے تحت )اور ،،،،، میں کیوں اپنے گھر سے باہر اپنے لیے رول ماڈل تلاش کروں ، میری دعا ہے ہمارے خاندان میں ، " انسان دوستی ، احترام اور غریب پروری کا جذبہ اور سلسلہ چلتا رہے آمین ثم آمین۔؎
؎ کہ کام آۓ انساں کے انساں 
۔( منیرہ قریشی ،5 ستمبر 2017ء واہ کینٹ) جاری ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں