جمعرات، 28 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(20)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 20)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
واہ کینٹ ہم ستمبر1964ءمیں شفٹ ہوۓ ، اباجی کو (1 )کچنار روڈ ، کا بنگلہ ملا ، واہ اول تو خود بہت خوب صورت علاقہ ہے جو سرسبز درختوں ، چھوٹی چھوٹی پہا ڑیوں اور قدرتی جھرنوں سے سجا ہوا " تھا " ( اب ذرا گندا اور گنجان ہو گیا ہے ) ، اور دوسرے ہمارے لیے موسم یا ماحول نیا نہ تھا کہ ہمارا گاؤں وہاں 20، 25 منٹ کی ڈرائیو پر تھا، اور ہم واہ میں اباجی کے ایک اور "جگری " دوست کرنل محمد افضل سے ملنے کبھی کبھار آتی تھیں ! ستمبر نے ہلکی سردی کی ابتدا کر دی تھی ،اور یہ ہمارا اس نئےگھر اور واہ سے ملنے کا پہلا مہینا اور پہلا دن تھا۔جو " اُداسی" سے شروع ہوا،،،،، ایک تو ہم اپنی سہیلیوں سے دور ہوۓ ، اور دوسرے خوب رونق والی گلیوں کی آباد زندگی نظر نہ آئی ،تو ہم دونوں بہنوں نے کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا جس وقت ہم اس نئے گھر پہنچے تو سہ پہر کا وقت تھا،اور ہم سارے گھر میں بےزاری سے پھر نے لگیں،اس گھر کے صرف دو بیڈرومز، ڈرائنگ روم الگ اور ڈائننگ ( کافی بڑا) روم ، دو اچھے سائز کے سٹور ، کچن اور اسکی پینیٹری ، اور دو غسل خانے تھے، ایک برآمدہ فرنٹ پر اور ایک پہلو کے لان کی طرف تھا، ایک اور سٹور کچن سے باہر تھا جو شاید "ایندھن " سٹور کرنے کے لۓ بنایا گیا ہو گا (کیوں کہ جس دور میں یہ گھر بنے تھے گیس گھروں تک نہیں پہنچی تھی)پچھلا لان خاصا بڑا تھا کم ازکم ڈیڑھ کنال کا اورسائڈ لان دو کنال کا ہو گا، اسی طرح فرنٹ بھی کنال تک کا ،،،،اباجی اور اماں جی بہت خوش تھے، وہ" اپنے " علاقے میں جو آگئے تھے، اور ہمارے لیے اس گھر کے کمروں کی کمی نے بُرا ایمپریشن ڈالا ، پنڈی کا گھر بےشک کم رقبےپر تھا لیکن تین منزلہ اور کمرے بھی زیادہ تھے ۔اور ہمارے گھر آنے والے مہمانوں کو تنگی نہیں ہوتی تھی ،،، خیر یہ تو بعد کی باتیں تھیں اور ویسے بھی ہمارے سوچنے کی نہیں تھیں ، لیکن اس دن کی اُداسی مجھے یاد ہے ، صبح ہوئی جو مزید ڈیپریشن کا باعث بنی کہ دو ،کنال کا پہلو کا لان ،تین تین فٹ لمبی سوکھی گھاس سے بھرا ہواتھا۔ پچھلے لان کی حالت بھی ابتر تھی  ۔ صرف  سامنے کا لان اس طرح کا تھا کہ گھاس یا کیاریاں تو نہیں تھیں بس بجری کی وجہ سے گزرنے کے قابلِ تھا، اور گاڑیاں بھی وہیں کھڑی ہوتیں اس لیے وہاں لمبی گھاس نہیں اُگی تھی۔،،،، یہ سب دیکھ کر ہم دونوں تو حیران پریشان ہی ہو گئیں، تب اباجی نے بتایا ، جس بنگلے میں ہم نے شفٹ ہونا تھا ان صاحب نے عین دو دن پہلےاسے مزید ایک سال تک خالی کرنے سے انکارکر دیا تھا، کیوں کہ ان کی ٹرانسفر جہاں ہو چکی تھی وہاں انھیں رہائش نہیں مل سکی تھی ،اور اگرچہ یہ بنگلہ بھی ابھی دو ماہ پہلے خالی ہوا ہے لیکن اباجی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ " اس وقت کا مشرقی پاکستانی بھائی" اسے اتنی ابتر حالت میں چھوڑ گیا ہو گا ، اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔ اماں جی نے کسی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا ! بہت تحمل سے صرف کچن کی سیٹنگ کرواتی رہیں، اور دو دن کے اندرہم دونوں کے داخلے ہوۓ ، اتفاق سے جب میں واہ آئی تو اسی سال یا ایک سال پہلے یہ " انٹر میڈیٹ سکول اور کالج " بن گیا تھا جو نویں جماعت تا ایف۔اے تک تھا اور جوجی واہ کے کینٹ بورڈ کے تحت چلنے والے 12 سکولوں میں سے "ایف ۔جی سکول نمبر 2 میں داخل کرائی گئی ، جو اس وقت پہلی سے آٹھویں جماعت تک تھے اور اللہ تعالیٰ نے جو ہماری قسمتوں میں لکھا تھا،اس بابِ زندگی کا نیا چیپٹر شروع ہوا،،، ہم دونوں کو اماں جی نے صرف اپنا کمرہ تھوڑا بہت ٹھیک کرنے کا کہا ۔ہمارے کمرے کے ساتھ ایک " اچھے سائز کا بکس روم تھا، لیکن ہمارا سامان کسی صورت اس گھر میں پورا نہیں آرہا تھا، اس گھر کے ساتھ تین سرونٹ کواٹرز تھے۔جن میں سے ایک کو اماں جی نے اپنے لۓ سٹور کے طور پر مختص کرلیا ،تب پنڈی کے گھر سے لایا سامان کچھ وہاں رکھا گیا۔ پنڈی سے آتےوقت ہم کتابوں سے بھری آٹھ کافی بڑی لکڑی کی پیٹیاں جو لاۓ تھے کچھ وہاں رکھوائی گئیں۔
گھر کے خدوخال نکلنے لگے ، اماں جی نے  کام کرنے والوں کی رہنمائی  کی۔ اوران کی خالص" دیہاتی اور فطرت پسند روح" بیدار ہو گئی، سب سے پہلے ٹریکٹرآیا جس نے سارے لان کو ادھیڑا، پھر دو دن بعد "دو بیلوں سمیت ہل " آیا۔ساتھ مزدو ، مٹی کی ٹرالی اور کھاد کی ٹرالیاں آئیں ،، اور یہ کام دو،چار دن جاری رہا ، ہل اس مٹی اور کھاد کے مکسچر کے اوپر چلایا گیا ! اور ایک ہفتے تک کچھ ریت بھی مکس کی گئی ، یہ عمل، آگے ،پیچھے اور سائڈ کے لانز میں کیا گیا ۔ ہم دونوں تو سکول سے آکر تھک کر ایسی سوتیں کہ، جیسے یہ سب ہل وغیرہ بھی ہم نے چلاۓ ہیں ۔ لیکن دوپہر کا ہمارا سونا لازمی تھا کیوں کہ اماں جی بھی سوتی تھیں اورانھوں نے یہ عادت بچپن سے ہی ہمیں ڈال دی تھی ! ابھی تک نہ ہم سکول میں کوئی سہیلی بنا پائیں اور آس پڑوس تو ویسے بھی آرام سے سلسلہ چلتا ہے ۔یہ ہی کافی تھا کہ سارے کمرے سِٹ ہو گئے ، نوکر وغیرہ کا بھی مسئلہ نہ رہا ، اور یوں ایک ماہ گزر گیا، اکتوبر تک مالی بھی اچھا ملا تو اماں جی اور "کِھل" گئیں ! یہ ان کا پسندیدہ شعبہ تھا ، پنڈی سے لاۓ گئے بے شمار گملے سِٹ ہو گئے ، لان میں گھاس کا اہتمام ہوتا رہا،ہمیں ان معاملات سے قطعا" کوئی دلچسپی نہ تھی، ہماری بھینس بھی پہنچ چکی تھی اور اس کے پہنچنے سے پہلے پچھلے لان میں اس کے مناسب سائز کے کچے پکے دو کمرے بنا دیۓ گئے، ایک بھینس کے لیے دوسرا اس کا چارہ اور باقی ضروری اشیاء کے لیے!!!۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے یہ کن تفصیلات میں الجھ گئی ہے ، لیکن آپ اس نوجوانی کی عمر کا ہمارا ری ایکشن دیکھتے تو زیادہ انجواۓ کرتے ، کہ ہم دونوں ،( خصوصا" میں" ) بےبس اور شرمندہ شرمندہ سی رہتیں ،،،،،، کیوں کہ ہمارا خیال تھا ، ہمیں یہاں آکر اپنا دیہاتی پس منظر ظاہرنہیں کرنا چاہیے ،،،،" لوگ کیا کہیں گے ! لوگ کیا سوچیں گے "ہماری حددرجہ بےوقوفانہ سوچ ، اور مخالفت کی اماں جی نے رتی برابر پروا نہ کی !۔
اباجی تو تھے ہی حددرجہ مصروف !! اور اندر سےوہ بھی دیہات سے جُڑے !لیکن ایک دن سب سے پہلا " مہمان " ہمارے گھر " آئیں " ،،،، وہ تھیں دو خواتین ، ایک ان میں سے جوجی کے سکول کی پرنسپل تھیں مسز صفیہ رشید اور دوسری انہی کی پڑوسن بھی ،سہیلی بھی مسز شاہ !، پرنسپل صاحبہ ، ہمارے " بیک سٹریٹ " سے پڑوسی بھی تھیں ! اماں جی نے شربت پلایا ، اور وہ بہت تھوڑی دیر بیٹھ کر رخصت ہو گئیں ، اس وقت عصر کا وقت تھا ، اور یہ اس گھر کی پہلی " وزیٹر" تھیں !!!!۔
( منیرہ قریشی ، 29 ستمبر 2017ء) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں