اتوار، 24 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " ( 17 )

یادوں کی تتلیاں " ( 17 ).۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگر میں اپنے بچپن کی یادوں تک محدود رہوں تو اچھا ہے ، لیکن کبھی کبھی خیالات کی رو بہتے بہتے ، جوانی میں بھی داخل ہو
جاتی ہے جس کے لۓ معذرت!!!۔
اماں جی نے اگر ہمارے بچپن کے کوئی قصے ہمیں جوانی میں سناۓ بھی تو، وہ ، جو ضروری سمجھے ۔ وہ بچوں کو خاندانی سیاست میں گھسنے یا اس پر تبصرہ کرنے کے سخت خلاف تھیں ۔ لیکن آج کےنوجوان والدین ، اس بات کوبہت نارمل لیتے اور سمجھتے ہیں ! ان کا خیال ہوتا ہے ہمارے بچے بڑے سمجھ دار ہیں ، یہ" ایسے کو تیسا "کر کے اپنی عقل مندی کا ثبوت دے رہے ہیں،،، یا ،،جب اگلا طنز کر رہا ہے تو یہ کیوں نہ جواب دے ! یہ سب سوچیں ، یہ سب اجازتیں ، بچے کو بدلحاظ ، اور بدزبان کر دیتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے یہ ہی "عقل"کی کاٹ انہی والدین پر آزمائی جاتی ہے تب ہم کہتے ہیں،اسے تو چھوٹے، بڑے کی تمیز ہی نہیں رہی! "یہ فلاں ( اپنا ناپسندیدہ رشتہ دار ) پر چلا گیا ہے ! حالانکہ بنیادی غلطی اس کے بچپنے کی تربیت میں ہو چکی ہوتی ہےاور ہم اپنے بچے سے اس کی معصومیت چھین چکے ہوتے ہیں۔
 آج کے جوان والدین دراصل اپنے آپ کو اتنا عقلِ کُل سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے والدین سے بھی کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔یہ ہوا عام چل نکلی ہے کیوں کہ ایک " پسندیدہ جملہ " بولا جاتا ہے آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے اور آج کے بچے ہم سے ذیادہ ذہین ہیں ان سے بات چیت میں دوستانہ طریقہ ہونا چاہیے ، وغیرہ وغیرہ۔
ایک مرتبہ مجھے مشہور ادیب اور دانشور اشفاق صاحب اور ان کی بیگم سے ملنے کا اتفاق ہوا ، دورانِ گفتگو بچوں کی تربیت پر بات آگئی ، فرمانے لگے " بچوں کے دوست مت بنیں ، رہبر بنیں ،، دوست وہ گھر سے باہر بناۓ گا ،،، اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کے لیۓ گائیڈ ،، ،دوست نہیں کر سکتا آپ ہی رہبری کریں گے ،،، دوسرے اسکی تعریف اتنی نہ کریں کہ وہ اپنی تعریف کروانا اپنا حق سمجھنے لگے۔۔۔
یقینا" ان خیالات پر بےشمار اعتراضات لگ سکتے ہیں! لیکن ، میں صرف یہ ہی کہنا چاہتی ہوں ،،،، دنیا کتنی ترقی کر جاۓ ، بنیادی " اقدار " کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔یہ ویلیوز ہی انسان کو " فہم و شعور " والا ثابت کرتی ہیں۔
جیسا میں نے پہلے بھوپال کی سید فیملی کا ذکر کیا تھا تو دونوں فیملیزکا گھر میں آنا جانا ہوا ، ، ، ان کی بڑی بہن چونکہ جاب بھی کرتی تھیں اس لۓ ان کی چھوٹی بہن نسرین جو بہ مشکل 8 سال کی ہوگی ، روٹیاں بہت اچھی ڈال لیتی ، اور رات کو آپا سالن بنا ہی دیتیں ، آپا اور والد کے آنے پر یہ بہن روٹیاں پکا کر سب کے آگے کھانا رکھتی ! اور اس سے پہلے کہ بڑی بہن گھر آۓ ، چھوٹی دونوں بہنیں ساری" نمازیں " لازماً پڑھتیں ۔سال بھر یا  زیادہ گزر گیا تو ہمارے کھیل میں کسی وقت رخنہ آتا کہ ٹھہرو ہم نماز پڑھ لیں تو ہم نے کہنا ، آپا یا ابو تو ہیں نہیں انھیں کیسے پتہ چلے گا !تو انھوں نے کہا " اگر ہم نے نماز نہ پڑھی تو ہمیں کھانا نہیں ملے گا ! اور جھوٹ ہم سے بولا نہیں جاۓ گا ! " ،،،، دراصل یہ بچوں کو نماز کا پابند کرنے کا ایک طریقہ تھا ،،، لیکن ان کی پابندی سے نماز کی عادت نے ہمیں بھی راغب کیا ، کیوں کہ اماں جی کی طرف سے ہم پر سختی نہیں تھی !اس معاملے میں ان کا خیال تھا بچہ اپنی دلچسپی سے راغب ہو ،،، اور دوسرے یہ کہ ایک سخت مذہبی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے انھوں نے نماز روزہ کو سختی سے کرواتے دیکھا تھا جس کا ان پر ری ایکشن بھی تھا۔ خیر ان سہیلیوں سے مقابلے میں پہلے ایک آدھ اور پھر پانچوں وقت  نماز کی عادی ہوئیں ، اور آج بھی ہم نماز کی رغبت کے لۓ اس گھرانے کے لۓ دعا گو ہیں ،اپنی سہیلی سے میں نے روٹیاں بنانی بھی سیکھیں ،،، اماں جی نے اپنی جوانی میں گھر کے خوب کام کۓ تھے وہ ان کاموں سے زیادہ ہماری توجہ پڑھائی پر چاہتی تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ گھر کے کاموں کی طرف کرنے کو نہ سراہتیں ۔ ہم نے جو کچن کا کام سیکھا ، اپنی مرضی اور خوشی سے سیکھا ۔ ،،، اماں جی کی ایک ہی خواہش تھی میری بیٹیاں خوب پڑھی لکھی ہوں ، میں تو کبھی لائق سٹوڈنٹ نہ رہی لیکن میری چھوٹی بہن عذرا جوجی لائق رہی ، وہ ہمارے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ایم۔ایس ۔سی ( باٹنی) کیا لیکن افسوس اس کا رزلٹ اماں جی کے انتقال کے بعد آیا ۔ اور میں صرف بی، اے کر سکی ، اور بعد میں بی ایڈ کرلیا لیکن ،،، اماں جی آج ہوتیں تو بہت خوش ہوتیں کہ ہم دونوں مل کر 26 سال سے ایک کامیاب سکول چلا رہی ہیں۔
اباجی کے ایک انسپکٹر صاحب تھے ، راجہ اشرف ! بےحد ایماندار ، سادہ دل ، سادہ مزاج ،،، اور اباجی کو اپنا آئیڈیل سمجھنے والے ، ان کے ماشا اللہ چھے بیٹے اور ایک بیٹی تھی ، وہ جوجی کی کلاس فیلواور پھر سہیلی بھی بن گئی ،،،، ( ،1967۔1966) انہی دنوں جب صدر محمد ایوب کے خلاف بھٹو صاحب نے تحریک چلا رکھی تھی ، اور طلباء میں یہ تحریک بہت مقبول ہو چکی تھی ۔ جگہ جگہ مظاہرے کیۓ جاتے ، واہ کینٹ میں بھی طلباء یونین بہت فعال تھی ، اباجی بطورِ چیف سیکیورٹی آفیسر ان ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کے ذمہ دار تھے ،،،، ان کا سارا سٹاف ان دنوں ہر لمحہ ڈیوٹی پر ہوتا ، اور ایک دن لڑکیوں کے سکول میں بھی لڑکوں کی یونین کاآرڈر آیا، آج کلاسز نہیں ہوں گی اور باہر نکلنا ہے ، جوش سے سب کا برا حال تھا ، فوراً جھنڈے اور بینر تیار ہو گئے اور دبنگ یونین ممبرز نے گیٹ کھلوا لیا،اور قافلے چل پڑے،ہماری کسی ٹیچر نے ہماری حوصلہ افزائی نہیں کی اور پرنسپل صاحبہ تو تھیں ہی بہت ڈسپلن والی ! نیز وہ لڑکیوں کی اتنی آزادی کی قائل بھی نہیں تھیں ،،،، اب جب قافلہ " زندہ باد اور مردہ باد " کے نعرے لگاتا واہ کی مال روڈ پر سے گزرا تو پتہ چلا میجر صاحب کی صاحب زادیاں بھی آگے آگے تھیں !،،،،،، یہ دلچسپ صورتِ حال تھی۔
رات کو " راجہ صاحب " اپنی اکلوتی ، لاڈلی بیٹی بلقیس کے ساتھ ہمارے گھر آۓ ،اور ڈرائنگ روم میں ہم دونوں کو بھی بلایا گیا ،،،اور مزے کی بات کہ اس وقت تک اباجی نے ہمیں کچھ نہیں کہا تھا،(شاید ،راجہ صاحب کے ساتھ یہ  منصوبہ بنا ہو گا) راجہ صاحب کو ہم چاچا جی کہتی تھیں ۔ ان کی محبت اور سادگی کا انداز ملاحضہ کریں ۔ " بیٹا جی ، آج مجھے بہت شرم آئی جب ہماری ہی بیٹیاں ، ہمارے ہی خلاف نعرے لگا رہی تھیں اور ہمارے لۓ مشکلات پیدا کر رہی تھیں ! اب تم وعدہ کرو کہ آئندہ کسی جلوس میں شرکت نہیں کروگی ،، " بلقیس منہ بُسور کر بیٹھی ہوئی تھی اور ہم دونوں بہت نارمل طریقے سے انھیں دیکھ رہی تھیں ،،، کہ جب انھوں نے کہا وعدہ کرو تو ہم نےکہہ دیا " جی وعدہ ہے ! تب انہوں نے کہا نہیں " کعبے کی طرف منہ کرو اور کلمہ پڑھ کر وعدہ کرو " بلقیس کے لۓ یہ صورتِ حال شاید نارمل تھی لیکن ہم دونوں کے لۓ ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا ، بلقیس نے فورا" کلمہ پڑھا ، منہ بھی کعبہ کی طرف کیا ،،،، ہم دونوں نے منہ تو کعبہ کی طرف کر لیا ، لیکن کلمہ پڑھنا ہمارے لۓ اتنا محال ہوا ،،، کہ کچھ دیر کی کوشش کے بعد " اشرف چاچا " ہمیں چھوڑ کر باہر لان میں کھڑے اباجی کے پاس چلے گۓ اور انھوں نے بتایا " صرف ایک ممبر نے کلمہ پڑھا ہے باقی سے کامیابی نہیں ہو سکی """ یہ بیان اتنا سرکاری قسم کا تھا کہ اباجی بھی ہنس پڑے اور بات آئی گئی ہو گئ لیکن یہ لطیفہ مدتوں ہمارے گھر چلتا رہا ،،،،،،،،،،،،، میں سمجھتی ہوں ، دیانت دار اور سادہ لوح لوگ اس معاشرے کے سرسبز درخت ہوتے ہیں ، ان کی سادگی ہی انھیں یادگار بنا دیتی ہے ، اور یہ دیکھۓ کہ اپنی نہایت لاڈلی کو وہ ساتھ لے کر آۓ اس سے قسم پہلے اُٹھوائی ۔۔۔ کیا ہم آج اپنے بچوں سے اس قسم کے وعدے لے سکتے ہیں !! بلکہ شاید کسی بھی قسم کے وعدے لینے کے قابل نہیں ہیں ۔
بالکل ایسی ہی ایک دوستی کی  داستان اپنے اسی پنڈی والے گھر کے پڑوسیوں سے جڑی ہے ،،، ( مجھے وہ گھر ہمیشہ یاد آتا ہے بلکہ پہلےپہل تو لگاتار اگر کوئی خواب دیکھوں تو یہی گھر خواب میں بھی آتا رہا ، سلسلہ اب مسلسل نہیں رہا لیکن ٹوٹا نہیں ) اس کے ایک جانب بہت خوشحال کاروباری گھرانہ تھا، ان کے بھی ایک بیٹی اور بیٹے ماشا اللہ پانچ تھے ،اس گھر سے بہت ہی پرانا تعلق یہ تھا کہ آپاکی بچپن کی سہیلی ، اس گھر کے سربراہ کی بہن تھیں ، ثرُیا باجی بھائیوں کی لاڈلی اور سب بہن بھائیوں سے چھوٹی تھیں ! شاید یہ محبت بھی درمیان میں تھی اور دوسرے ، اسلم چاچاجی کی اپنی ایک بیٹی مصباح ان کی آنکھوں کا تارہ تھی ۔ مصباح اور جوجی ہم عمر اور خوب سہیلیاں تھیں ، لیکن چوں کہ اسے اپنے اکلوتے ہونے اوربات منوانے کی عادت تھی اس لۓ کھیل کے دوران اگر اختلافِ راۓ ہو جاتا ۔ تو کافی شدید جنگ ہوتی اور وہ رُوٹھ کر فوراً یہ اعلان کرتی ہوئی جاتی ، میں آئندہ زندگی بھر تم سے نہیں کھیلوں گی ،،، جوجی اور میں نے کبھی سہیلیوں کی کمی کو بہت زیادہ محسوس نہیں کیا کیوں کہ ہم آپس میں اچھا وقت گزارنے کی عادی تھیں ۔،،، مصباح کی یہ رات گزر جاتی ، اس کے ابو رات کافی دیر سے گھر لوٹتے تھے ، ان کا کپڑے کی اچھی چلتی دکان تھی ،، جسے بند کرکے آنے میں دیر ہو جاتی ، صبح ناشتے پر باپ بیٹی کی ملاقات ہوتی اور منہ بسُور کر پچھلے دن کی لڑائی کا احوال بتایا جاتا ،،، اسلم چاچا کو بھی پتہ تھا میری بیٹی کی اور کوئی سہیلی تو ہے نہیں ، اور نہ وہ کہیں اسے بھیجتے تھے ،،، اس لۓ اسی رات گۓ ، ہمارا دروازہ بج رہا ہوتا اوراسلم چاچا جی کے ہاتھ میں کبھی کلوآدھ کلو کا جلیبیوں کا لفافہ اور کبھی کبھار ( لڑائی کی شدت پر منحصر ہوتا(: ) ایک لفافہ تازہ سموسوں کا بھی ہوتا" ،،، " پُتر ،،، مصباح تے جوجی نوں کینڑا ں ، کل اکٹھے بہ کے کھاونڑ "۔
یہ اتنا میٹھاس بھرا پیام ہوتا کہ جوجی کو دوستی کرنا ہی پڑتی ،،،،،، ایسا مدتوں چلتا رہا ، بھائی جان کو جب اس " لڑائی اور خاتمے کے طور پر مٹھائی کا قصہ معلوم ہوا تو انھوں نے خوب مذاق اُڑایا کہ "دراصل جب جوجی کا جلیبیاں کھانے کادل چاہتا ہے تویہ لڑائی وقوع پزیر ہوتی ہے " بلکہ بھائی یہ بھی کہتے بھئ " آج جلیبیاں کھانے کو دل چاہ رہا ہے کیا خیال ہے ہو نا جاۓ لڑائی
،،،،،! اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی لیکن پیار بھری لڑائیاں کرتے ہم بڑے ہو گۓ اور مدتوں بعد معلوم ہوا مصباح کی شادی ہوئی چار بچے ہیں لیکن گُردوں کی بیماری سے پریشان ہو کر مستقلاً امریکہ چلی گئ ہے اور اب ڈائیلسز پر ہے ۔ اللہ اسے صحت کاملہ عطا فرماۓ۔آمین ۔ 
ہمارے گھر کے دوسری جانب، ہمارے رشتہ دار رہتے تھے بلکہ اس انتہائی چھوٹے سے گھر کے اُوپری حصے میں وہ دونوں میاں بیوی اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتے اور چونکہ وہ مالی لحاظ سے انتہائی کمزور فیملی تھی اور رشتہ داری بھی تھی ، تو اماں جی نے اپنے فرائض میں خودبخود اضافہ کر لیا اور ان کے لۓ اس گھر سے محبت اور مدد دونوں ملیں ،، ان کے بڑے بیٹا بیٹی تو نارمل تھے لیکن چھوٹا بیٹا ہر وقت بیمار رہنے والے، اور ذہنی  طور پر بھی کچھ پیچھے  تھا ۔ اس کے منہ میں ہر وقت چھالے نکلے رہتے اس لۓ اول تو اس کی غذا مخصوص ، اور بہت کم تھی ،،، اور کھاتا بھی توصرف میٹھی چیزیں ۔ ہمارے گھر اماں جی کی زندگی میں ہمیشہ بھینس رہی، اس لۓ دودھ، مکھن، یا دیسی گھی وافر ہوتا ،،، ہم سب اس بچے کو جوہم سے چھوٹا تھا ، " لُو لُو " کہتے تھے ، صبح ایک نرم دیسی گھی کا پراٹھا اس پر مزید مکھن یا دیسی گھی ، ساتھ ایک چمچ شکر ڈالی جاتی ،،، اور اب رات تک لولو کے لۓ یہ پراٹھا کافی ہوتا وہ اسے کُتر کُتر کر کھاتا رہتا۔ اور مزے کی بات کہ اسے کوئی ڈانٹ نہیں سکتا تھا کہ اماں جی کا کہنا ہوتا ،، یہ تو اللہ لوک ہے بس اس سے دعا کروایا کرو ،، جب بھی ہمارے سکول کے نتیجے کے دن آتے ہم اسے دعا کے لۓ کہتے اور پوچھتے " لولو ، ہم پاس ہو جائیں گی وہ کہتا ہاں ،ہاں ،،، جب اس کی اپنی اور اسکی کزن کا پوچھتے تو واقعی جس کا کہتا کہ یہ فیل ہے تو وہ فیل ہوتی اور جس کا کہتا یہ پاس ،، تو وہ پاس ہوتی ، ایسا اس کی بہن اور کزن کا زِگ زیگ چلتا رہتا لیکن 90 فیصد اس کا کہنا صحیح ہوتا ۔ لُو لُو کبھی سکول نہ گیا کیوں کہ اس کی زبان بھی کسی کی سمجھ میں نہ آتی ، اور صحت بھی ایسی نہ تھی ، حتیٰ کہ وہ قرآن بھی نہ پڑھ سکا ۔ اماں جی کے ہمدرد رویے سے اسے اُنسیت بھی تھی شاید انہی کے حوالے سے وہ ہم سے بھی پیار کرتا ۔ اسکے والدین اتنے سادہ اور توکل والے تھے کہ انھیں اپنے بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہ تھی ، اس خاندان میں چھوٹی عمر میں شادیاں کر دی جاتیں ،، بڑے بھائئ نے میٹرک کر لیا تو فوج میں بھرتی ہو گیا ، یہ سب تو اسی گھر میں رہے لیکن ہم واہ کینٹ  آچکے تھے ، بڑے دونوں بہن بھائی کی جلد ہی شادی کر دی گئی ،،، ظاہر ہے لُو لُو کسی کھاتے میں نہ تھا ،اسے کوئی ہُنر بھی نہ آتا تھا ، انہی کےرشتہ داروں میں سے ایک فرد " دُبئی " گیا تو اس نے بہت سے اپنے غریب رشتہ داروں کو بُلایا ،آخر ایک وقت آیا کہ لولو ، اچھے قد بت کا جوان ہو گیا ، اب اس کی زبان صاف ہو گئئ تھی اور وہ اردو بھی بولنے لگ گیا ۔ اسی دوران اس رشتہ دار نے بطورِ چپڑاسی ویزہ لگوایا اور دبئی بلوا لیا ،، زیادہ تر وہ ان کے گھر کا ملازم رہا لیکن بنک کے چپڑاسی کی حیثیت سے اس کی جاب رہی، یہ چیز ادھر رکھ دو ، اسے پانی پلا دو وغیرہ جیسے آسان کام کرتا رہا ، دُبئی  کے پیسے کی ویلیو تو تھی ،، گھر کی غربت دور ہونے لگی ، اس دوران ماں نے اپنی بھانجی سے شادی کرا دی ،،، اور 20 ،22 سال گزر گۓ ،،،،،، ایک دفعہ میرے بیٹے کا ایک دوست آیا اور بتایا " میرا بیٹا بہت سخت بیمار ہو گیا علاج کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرواتا ، وہاں ایک بندہ ہے مجھے اس پر بہت اعتبار آگیا ہے وہ لیتا کچھ نہیں ، راستے میں کہیں مل جاۓ تو راہ چلتے دعا کے لۓ کہہ دیں تو اسی وقت دعا کر دے گا، اس کے گھر چلے جائیں تو وہاں دعا کر دے گا ،، با لکل بےغرض ہے ، کچھ دو بھی تو نہ کر دیتا ہے ، عجیب بات ہے جب میں نے اسے بتایا میں واہ سے آیا ہوں تو اس نے آپ سب کے نام لینا شروع کر دیئے ، کیا وہ آپ کو جانتا ہے ؟ میں نے اسے بتایا وہ ہمارا عزیز ہے اور ہم اس سے بچپن سے دعا کرواتے آۓ ہیں ۔وہ " سب سے کم ذہن والا جس کے پاس نہ علم تھا نہ ہنر ، لیکن رازقِ حقیقی نے اسے اتنا رزق دیا کہ اس نے اپنے دو گھر بنا لۓ ہیں ایک کراۓ پر اور ایک میں خود رہتا ہے ۔ اپنے باپ کی دفعہ تو نہیں ، کہ اس وقت اس نے ہاتھوں کی خدمت کی ، لیکن بعد میں دبئی  چلا گیا تو ماں کے دل کو جیتا ، علاج میں ، گھر کی سہولتوں میں کوئی کمی نہ رکھی۔
زندگی کی سٹیج پر چند سین گزرتے چلے جاتے ہیں اور پھر آخری سین قدرِ لمبا ہو جاتا ہے ،،،، لیکن کس نے کس انجام تک جانا ہے ،،، بس وہی رب حیران کر دیتا ہے ! ،،،،کسی پڑھے لکھے ماں باپ کے گھر ایسا کمزور فہم بچہ پیدا ہو جاۓ تو تفکرات کا پہاڑ روزانہ سَر کیا جاتا ہے اور روزانہ اس کے لۓ منصوبہ بندی  کی جاتی ہے ،،، ہم اللہ کی  منصوبہ بندی پر انحصار کرنے میں تامل کا شکار رہتے ہیں ،،،،۔
( منیرہ قریشی 23 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

1 تبصرہ:


  1. "پہلے مستنصر مجھے پڑھتا تھا اور اب میں مستنصر کو پڑھتی ہوں" از بانو قدسیہ
    محترمہ بانو قدسیہ نے یہ جملہ مارچ 2014 ،لاہور میں جناب مستنصرحسین تارڑ کی 75 ویں سالگرہ کی تقریب میں اپنے خطاب میں کہا۔
    عزیز دوست منیرہ قریشی کی "یادوں کی تتلیاں" اپنے احساس سے چھوتے ہوئے ہر روز یہ جملہ میری سماعت میں گونجتا ہے بس ذرا سی تحریف کے ساتھ۔۔۔۔
    "پہلے منیرہ مجھے پڑھتی تھیں اور اب میں اُن کو پڑھتی ہوں"

    جواب دیںحذف کریں