پیر، 11 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " (9)۔

یادوں کی تتلیاں " (9)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔52 یا 53 کی عمر میں اماں جی نے پرائم وقت گزارا ، شاید زندگی کے ابتدائی 21،22 سال صحت کے گزارے اور باقی میں صبر کی مثال بنیں ! انھوں نے زندگی میں جو کرنا تھا اس میں اپنی صحت کو کبھی آڑے نہ آنے دیا ، ،، جب وہ پہلی مرتبہ شدید بیمار ہوئیں اور 4یا 5 ماہ مسلسل ہسپتال داخل رہیں تو وہ ایک عجیب دور گزر رہا تھا ۔ اپنی سب سے بڑی بیٹی زاہدہ نسیم کی انھی دنوں میٹرک کے فوراً بعد شادی ہوئی ، اکلوتے بیٹے کا کیڈٹ کالج میں داخلہ ہو گیا اور گھر پر صرف ہم اوپر تلے کی دو بیٹیاں 5، اور 4 سال والی یا ملازمین ،،، اباجی کا ایک پاؤں ہاسپٹل اور دوسرا گھر میں ہوتا ! آپا بھی کبھی آکر رہتیں اور یا ہماری ایک چچی صاحبہ کچھ دن رہتیں اور یا اباجی کی ایک بزرگ خالہ اپنے اتھرائٹس کے باوجود ہماری خدمت کرتیں !!اور اباجی ہاسپٹل کے لان میں اکثر سجدہ ریز ہو جاتے ، اور ان کی صحت کے لیے دعائیں مانگتے ، ایک منظر مجھے اپنی یادوں کا اب بھی یاد ہے کہ اماں جی کا آپریشن ہو چکا تھا ،، اور ہم دونوں بہنوں کو ان سے ملانے لایا گیا وہ آکسیجن " ٹینٹ " میں تھیں اور اندر سے ہلکی آواز میں وقفے سے آہ ، آہ کی آواز آ رہی تھی ! ،،،، ۔
بعد کی باتیں اماں جی کی زبانی معلوم ہوئیں کہ بیماری کی صورتِ حال ایسی تھی کہ ڈاکٹر کے خیال میں بچنے کے چانسسز 2 فیصد ہیں ، لیکن اباجی نے سائن کر دیۓ ۔اور اللہ نے انھیں مزید 19 سال زندگی دی جب کہ آپریشن کے بعد ڈاکٹرنے کہا تھا "10 سال بھی گزار لیں تو بہت کئیر بھی کرنا ہو گی " ،،، ۔
آپریشن سے پہلے وہ جس کمرے میں تھیں وہاں ایک اور خاتون بھی داخل تھیں ، ہماری شام کی ملاقات کے بعد اماں جی اکثر دیوار کی طرف منہ کر کے روتیں رہتیں ! انھیں شاید اپنے دکھ دوسروں کے سامنے عیاں کرنا اچھا نہ لگتا تھا ، ایک دن وہ خاتون جو پڑھی لکھی تھیں ،،، نے اماں جی سے کہا " مسز ظفر کیا میں آپ کا ہاتھ دیکھ سکتی ہوں " اماں جی نے وقت گزاری کے لۓ ہاتھ آگے کر دہیۓ ۔ اس نے کچھ دیر ہاتھ کی لکیروں کوپڑھا اور کہنے لگیں " آپ فکر نہ کریں آپ اپنی دونوں بچیوں کو بڑا کریں گی اور اس آپریشن میں کامیاب رہیں گی " ،،، اور ٹھیک ہونے کے بعد جب وہ گھر آگئیں ، اور جیسے ہی روٹین نارمل ہوئی ، انھوں نے اباجی سے مشہور پامسٹرز کی کتابیں منگانی شروع کردیں اگر " کیرو " کی ہیں تو اردو ترجمے والی ، باقی " میر بشیر اور ایم اے ملک " ،،،، اور یوں دھڑا دھڑ یہ کتابیں پڑھی گئیں پھر ہر ایک کے ہاتھوں کو سٹٹڈی کیا جانے لگا ! خاص طور پر ہمارے گھر آنے والی فقیرنیوں کو یہ کہہ کر روکتیں کہ میں آج ڈبل پیسے دوں گی اپنے ہاتھ دکھاؤ اور بیٹھو !! یوں ان کا یہ "اتفاقی" شوق آگے بڑھتا گیا ، جب ہم واہ شفٹ ہوۓ تو ہماری سہلیاں ، آپا کی سہیلیاں یا دوسرے ہمارے پسندیدہ رشتہ دار اگر آئیں ہیں تو ہمیں 15 منٹ دیتیں اور اماں جی کے پاس گھنٹہ دو گھنٹے گزارتیں ، صرف ہاتھ دکھانے نہیں ، بلکہ ایک اور خداداد صلاحیت ان تھی جو بہت ہی کم لوگوں میں پائ جاتی ہے اور وہ تھی " خوابوں کی تعبیر بتا سکنے کی اہلیت " ،،،،،،، یہ صلاحیت انہی لوگوں میں ہوتی ہے جن کی ، معلوماتِ عامہ بہت ہو ،،،،،وہ " استعاریہ انداز سے واقف ہوں اور تمثیلی "علامتی"خواب کو جانتی ہوں ،، نیز یہ خواب سچا ہے یا محض ویژن ،،، وغیرہ وغیرہ !! وہ ان سب جُزیات کو بخوبی سمجھ لیتیں تھیں ۔ ان کی چھٹی حس بھی تیز تھی ! خواب سنانے والے احباب ( جس میں ہماری سہیلیاں پیش پیش ہوتیں ) بہت آنا جانا لگا رہتا ، اگر کبھی طبیعت خراب ہوتی ، تو ہم خود بھی نہیں چاہتیں تھیں کہ وہ کسی کو ملیں ! اور وہ بھی ہماری بات مان جاتیں ! لیکن مہمان بیٹھا ہے اور اس دوران وقت آدھ پون گھنٹہ گزر گیا ہے تو وہ آہستہ آہستہ اپنے کمرے سے باہر آکر اکثر آنے والے کو وقت دے دیتیں ،اور ان کی بتائی خوابوں کی تعبیر کے گہرے انداز سے میں آج تک کسی شخصیت سے متاثر ہوئ ہوں تو وہ پروفیسر احمد رفیق صاحب ہیں جو ایک صوفی بندے ہیں ! ورنہ عام طور پر اس میدان میں لوگوں کا علم سطحی ہوتا ہے ۔
اماں جی کی زندگی میں سکول کا لفظ بہت معنی رکھتا تھا ۔ وہ اپنے بڑے دونوں بچوں کے سکول جاتیں تھیں یا نہیں ! مجھے علم نہیں اور اب جب یہ سب لکھنے بیٹھی ہوں تو آپا کو فوت ہوۓ دوسال ہو چکے ہیں ! البتہ ہمارے سکول میں کبھی کبھار دوپہر کا لنچ دینے آجاتیں ، سکول کی ڈیوڑھی میں ہم آتیں ، جلدی سے لنچ باکس لیتیں اور انھیں خدا حافظ کہہ کر بھاگ کر اندر چلی جاتیں ۔ لیکن وہ بہت شوق سے ہمیں مسکراتے ہوۓ دیکھتی رہتیں ، وہ ہمیں یوں سکول جاتے دیکھ کر بے حد خوش ہوتیں ،،، اور جب بھائی جان ہوسٹل چلے گۓ تو وہ شہر پنڈی سے اس زمانے میں کم رش کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے کی بائ روڈ تھا لیکن جب بیٹا بہت یاد آتا تو وہ ایک ٹوکری میں بہت سی کھانے پینے کی اشیاء جو سب گھریلو ہوتیں، بھرتیں اور اپنا جج برقعہ پہن بس میں سوار ،،، اور پہنچ جاتیں ! وہ بہت اہم کالج ہے جس کے کافی سخت رولز تھے اور ہیں ! انھیں کچھ پروا نہ ہوتی کہ مجھے نہ ملنے دیا گیا تو جانا ضائع نہ ہو جاۓ لیکن بیٹے کی محبت کی شدت انھیں کمزور صحت پر بھی سفر سے نہ روک پاتی ، اور مزے کی بات یہ کہ یہ سب اباجی سے چُھپ کر کیا جاتا اور خوش قسمتی سے ہر دفعہ بیٹے سے ملاقات ہو ہی جاتی ۔ وہ اس کالج کو اتنے فخر سے دیکھتیں جیسے اور کسی کا بیٹا نہیں پڑھتا صرف احسان الحق ہی یہاں پڑھتا ہے ۔ وہ کھانے کی اشیاء اتنی ذیادہ بنا کر لاتیں کہ بیٹے کے دوست بھی کھالیں ،، بھائی کے دوستوں کی گھر آمد پر ہمیشہ نہال ہو ہو جاتیں اور ان کی خوب خاطر کی جاتی ، ان کے کئی دوست اماں جی کے پاس کچن میں بیٹھ کر کھانا پسند کرتے کہ آپ کے گھر کا یہ انداز بہت اچھا لگتا ہے کہ چولہے کے گرد بیٹھو اور گرم گرم روٹیاں اُتر رہی ہیں اور ہم کھاتے چلے جائیں ! دراصل وہ سب اماں جی کی محبت کی مٹھاس کے اثیر تھے ، اور میں پھر کہوں گی اس حد درجہ مہمان نوازی میں اماں جی کی عادت تو تھی ہی ،، لیکن اباجی کی دریادلی ، اور خاموش رہ کر اماں جی کو رعایت بھی ملی ہوئی تھی ،، گھر کا یہ دوستانہ ماحول ، میاں بیوی کے باہمی تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں ،،، اس مہمان نوازی میں اماں جی نے میکے یا سسرال میں کبھی تخصیص نہیں کی ، اس بات کے گواہ ان کے سسرالی خود بھی ہیں ، ،،،،۔
ہمارے گاؤں میں کافی رشتہ دار رہتے تھے جن کے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہونی ہے تو جہیز یا بَری بنانی ہے ،،، چلو ظفر اور عزیزہ کے گھر ،،،،،،، رشتہ داروں میں کسی نے چیک اَپ کروانا ہے کوئی بیمار ہوگیا ہے ہسپتال داخل ہونا ہے ، ظفر کے گھر میں سب مسئلوں کا حل ہے ،، اور آس پاس اور کھاتے پیتے رشتہ داروں کے ہوتے ہوۓ بھی ذیادہ تر ہمارے گھر ٹھہرنا صحیح سمجھا جاتا ، اور ہم دونوں ہی گھر میں ہوتی تھیں اور اس میلے کی عادی ہوگئی تھیں ، الحمدُ للہ ،،، کہ آج اپنے ماں باپ کی یہ نیکیاں ہم سب کے لۓ باعثِ تقویت بن رہی ہیں ،، میں اپنے بچوں سے بھی کہتی ہوں " یاد رکھو ہم جو فصل بوئیں گے ہمارے بچے اس کو کاٹیں گے ، اس لیے دوسروں کے ساتھ بہت ہمدردی ،اور مدد اور عزت کا لین دین کرو تمہاری اگلی نسلیں یہ ہی فصل وصول کریں گی۔
(منیرہ قریشی 11 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں