جمعہ، 22 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں "(16)

یادوں کی تتلیاں "(16 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مسز رحمان کی شخصیت، سے متعلق جُڑا کیا تفصیلی ماضی تھا ، میں خود بھی ناسمجھی کی عمر میں تھی اور اماں جی نے تو کبھی ذاتی ملاقاتیوں کو " ڈسکس" نہیں کیا ، البتہ وہیں پنڈی کے قیام کے دوران جب کچھ اور وقت گزرا ،اور انکے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے ملاقاتیں رہیں جو ہمارے ہی محلے میں ، اپنی سہیلیوں سے کبھی کبھار ملنے آجاتیں اور ان کے ساتھ ان کا کبھی چھوٹا کبھی بڑا بھائی ہوتا،،، جب پہلی مرتبہ ہم ان بھائی بہنوں سے ملیں ۔ توہم تو گھوم کر رہ گئیں۔اتنے ماڈرن، فر فر انگلش ، جدید لباس لیکن بہت کھلےڈُلے انداز میں ہم سب سے ملے،پندرہ بیس  منٹ کی یہ ملاقات شاید اپنی والدہ کی فرمائش پر کی گئی۔ وہ سب ایک ہی وقت میں بول رہے ہوتےتھے ، اور پھر بہت خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ خدا حافظ کر کے چلے گئے۔ اس دن ان کی والدہ ساتھ نہیں تھیں ، ، ،ہم سب کے لۓ یہ نیا تجربہ تھا کہ ماڈرن ترین کچھ جوان ، کچھ نوجوان اولادیں ، بہرحال محبت ، خوش دلی ، اور اپنائیت کا مظاہرہ ،بہت قدرتی لگا ۔ ان میں سے بڑی بہن اور ایک بھائی خوب صورت اور باقی تینوں درمیانے تھے۔
مسز رحمان ، وقفے وقفے سے آتی رہیں لیکن ہمارے واہ  کینٹ آجانے سے وہ ایک مرتبہ آئیں وہ بھی بڑی بیٹی کی شادی کا کارڈ دینے ۔لیکن وہاں شرکت نہ ہو سکی۔ بس مسز رحمان وہی آخری مرتبہ آئیں ۔۔۔ اس کے بعد سننے میں آتا رہا کہ باقی بچوں کی شادیوں سے فارغ ہوتی رہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بیمار  اور ڈیپریشن کی مریض بنتی جا رہی ہیں ،،، ایک وقت آیا اماں جی کا انتقال بھی ہو گیا ،،، اور مسز رحمان کا باب بالکل ہی بند ہو گیا ،،،، کئی سال گزر گئے ہماری بھابھی کی بڑی بہن زندگی کو نئے سرے سے گزارنے لگی تو ، پتہ چلا اس کا خاوند مسز رحمان کا داماد تھا ، اور تب معلوم ہوا کہ وہی خوبصورت بیٹی اور بیٹا ایک خوفناک ایکسیڈنٹ میں ختم ہو گۓ۔تھے،، اس حادثے نے ان کے رہے سہے اعصاب ہلا ڈالے ، اور ان کی زندگی ایک کمرے تک محدود ہو گئی ، اور ان کی تمام تر خدمت اسی " مخنث "کے حصے میں آئی۔ اپنے بچوں کی مصروف زندگی ،،، سے  تو وہ جیتے جی نکل گئی تھیں ! ان کے شوہر  بچوں کے حادثے سے کچھ ہی عرصہ پہلے فوت ہو چکے تھے ! باقی زندگی وہ یادسے بےگانہ ہو گئیں تھی  ،،،،،،،، شاندار لوگ کس انجام سے دوچار ہوں گے ،،، اللہ ہی جانتا ہے!۔
راولپنڈی کے قیام کے دوران کی یادوں میں ایک پختہ عملی ٹریننگ غیرمحسوس انداز سے ہوتی رہی وہ تھی "اگر آپ دوست بنا بیٹھے ہیں تو ، مذہب ، نسل ، فرقہ ، زبان کو درمیان میں نہیں لانا ،،،، اباجی کا پاکستان بننے سے پہلے برٹش آرمی میں سوڈان ، مصر ، شام کی طرف رہنے کا اتفاق ہوا تو ان کے حلقۂ دوستی میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے ! پاکستان بننے کے بعد اپنے ملک کے ہر صوبے میں انکے دوچار دوست تو تھے ہی ، لیکن انکے مخلص دوستوں میں عیسائی  لوگ بھی تھے ، جن میں  ایک ڈاکٹر میکالے ،، تھے جو اینگلو انڈین کرسچئن تھے ، صاف رنگ ، صھت مند،،اور بلند آواز سے بولنے کے عادی تھے ،، ہمارے گھر کی ایک گلی چھوڑ کر سڑک تھی جو آگے جا کر دائیں طرف جائیں تو ان کا کلینک تھا اور بائیں طرف یہ سڑک ہمارے سکول اور پھر پنڈی کے مشہور " گارڈن کالج " پر ختم ہو جاتی تھی ،،،، گھر میں ذرا کوئی بیمار ہوتا، اباجی نے ان کو بتا رکھا تھا کہ میں اکثر گھر پر نہیں ہوتا ، اس لۓ گھر سے کوئی فون کسی بھی وقت آۓ آپ نے فورا" پہنچنا ہے ،،، اور ایسا ایمرجنسی کا موقع اماں جی کی وجہ سے دو دفعہ ہی آیا ،، البتہ ہم دونوں بہنوں یا گھر آۓ مہمانوں کی طبیعت بھی خراب ہوتی تو نہایت خوش دلی بلکہ بہت اُونچی آواز میں خیریت پوچھی جاتی ،، دوا دی جاتی ، " اصغر " جو ان کا ڈسپنسر انچارج تھا ،کو مسلسل آوازیں دی جا رہی ہوتیں ، پورا کلینک ،،،،ان کی خوشدل آواز سے گونج رہا ہوتا۔ کلینک میں رش ہوتا ، کیوں کہ وہ ایک نہایت ، ہمدرد ، شفیق اور قابل ڈاکٹر تھے ۔،،، جیسا کہ اکثر بڑے ،،، بچوں سے پوچھتے ہیں " بڑے ہو کر کیا بننا ہے " ،،، تو میں تو اکثر کہتی " میں ڈاکٹر میکالے بنوں گی " ،،، یہ ان کی پُراثر اور دبنگ شخصیت کا اثر تھا ، ان کی ایک بیٹی کی تاریخِ پیدائش اور میری ایک ہی تھی ، اس لۓ جب مجھے ملتے " او ،، توں تے میری دھی والی ایں " ،،، وہ سب سے پنجابی میں بات چیت کرتے ،، اور اتنی اپنائیت سے کہ ہر مریض سمجھتا ، میں ہی ان کا پسندیدہ ہوں ،،، ڈاکٹر اُس زمانے میں بھی مصروف تھے ، اُس دور میں بھی بدمزاج یا لیے دیۓ انداز والے ہوتے تھے ،، لیکن جس نے خوش اخلاقی اپنانی ہے وہ ہر حال میں اپناۓ گا۔ان کی بیگم بھی ڈاکٹر تھیں لیکن وہ پنڈی کے مشہور" ہولی فیملی ہاسپٹل " میں تعینات تھیں ! کبھی گائنی  کے مریضوں کو دکھانا ہوتا ، ان کے آپریشن کروانے ہوتے ، مسز میکالے حاضر، ہمیشہ پورا پورا تعاون کیا ،، حالانکہ وہ خاموش طبیعت خاتون تھیں ، میں نے جب دیکھا ساڑھی میں ، بالوں کاذرا سا اُونچا جُوڑا ، بہت ہی سمارٹ ، بلکہ دُبلی تھیں ،، جبکہ ڈاکٹر صاحب اچھے صحت مند انسان تھے ،،، ہر عید پر صبح سویرے ہمارے گھر کی گھنٹی زور زور سے بجتی ،،،وہ جانتے تھے ان کا دوست اکثر گھر نہیں ہوتا ،اس لیے باہر سے ایک دبنگ آواز آتی ،،، او بچیو،، عید مبارک ہوے ،، اے پھڑ لو " اتنے میں نذیر اردلی جلدی سے باہر جا کر ایک خوب بڑا کیک کا ڈبہ پکڑ لاتا ، اگر اباجی وہ عید گھر پر منا رہے ہوتے تو یہ کام وہ ہی کرتے ، دونوں میں علیک سلیک ،،، اور وہ ہوا کے جھونکے نہیں ، بلکہ آندھی کی طرح آتے اور چلے جاتے ! اب کرسمس کا دن آگیا تو اباجی نے ہمیشہ ان کے لۓ " خان پور کے ریڈ بلڈ" مالٹے کا "توڑا "منگا کر رکھنے اور اس دن ان کے گھر خود پہنچاتے ، اماں جی ان کی بیگم کے لۓ بھی ضرور کوئی تحفہ بھیجتیں ، بقول ان کے انھیں آپ کا تحفہ ہمیشہ پسند آتا ہے۔اگر اباجی کرسمس پر موجود نہ ہوتے تو آنے کے بعد یہ رسم ضرور نبھائی جاتی۔یہ محبتیں ان کے پاکستان سے انگلینڈ شفٹ ہونے تک رہیں لیکن کارڈوں کا تبادلہ ، ڈاکٹر صاحب کی زندگی تک چلتا رہا۔ مجھے ان کرداروں کو یاد کر کے عجیب سی خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے اپنے دور میں "انسانیت کے مفہوم" کو ایسی بےلوث ، ہمدرد ، ہستیوں کی شکل میں دیکھا ، کاش "اقدار" کا اپنی زندگیوں سے نکلنا اتنا معمولی نہ سمجھا جاۓ ،،، آج یہ سب اس دائمی جگہ جا چکے ہیں جہاں ان کے بہترین اخلاق کے اجر بٹ رہے ہوں گے۔
اسی قصےسے جُڑی اپنے ماں باپ کی انسان دوستی کی یادیں بھی یاد آگئیں۔ہماری بڑی پھوپھی جی (جو اس وقت جوان تھیں اور تین بچوں کی ماں تھیں)  ایک پیچیدہ گائنی مسئلے سے دوچار ہوئیں ، وہ لاہور سے بھائی کے پاس آگئیں تاکہ ان کی دیکھ بھال بھی ہو سکے گی اور بچے بھی خوش رہیں گے۔مسز میکالے سے رابطہ کیا گیا ان کے تمام تر ٹسٹ ہوۓ اور ان کا آپریشن ہوا یہ دورانیہ 20 ،22 دن تک رہا اس دوران ، اماں جی تو ہاسپٹل رہ نہیں سکتی تھیں اس لۓ فیملی کی ایک خاتون ایٹنڈنٹ بھی وہیں رہیں ،،، ان دنوں "شریف"اردلی کی ڈیوٹی یہ بھی لگ گئی کہ دوپہر  اور پھر رات کے کھانے کا ٹفن مریضہ تک پہنچانا ہےاور شریف اپنی سائیکل پر اتنے ٹھیک وقت پر پہنچتا کہ ایک دن اس وارڈ کی باقی خواتین نے کہا ، کتنی ذمہ دار اور اچھی بھابھی ہے تمہاری ،، ہم تو اردلی کو دیکھ کر گھڑیاں ٹھیک کرتی ہیں ،،،،،یہ ہاسپٹل ہمارے گھر سے قریباً تین میل دور تھا ۔( یہ واقع آپا نے بیان کیا تھا ) ،،،،،۔
اماں جی فوت ہو گئیں تو انکے لۓ دعا اور افسوس کے لۓ مہینوں لوگ آتے رہے،اس دوران ہمارے گاؤں سے ایک عزیزہ آئیں وہ کافی دیر بیٹھیں ، جب ذرا رش کم ہوا تو کہنے لگیں ،"تم تو اس وقت چھوٹی تھیں تمہیں تو یاد بھی نہ ہوگاتم لوگ پنڈی میں رہتےتھے تو ان دنوں میں شدید بیمار ہو گئی ، ہم بہت غریب تھے، علاج کروانا ہمارے بس کی بات نہیں تھی ،سب کی صلاح سے ہم ظفر کے گھر آ گۓ ، میرے ساتھ میری بہن بھی تھی ، ظفر نے ڈاکٹر میکالے کی بیوی سے بات کی ، اور تمہاری امی تانگے پر ہمیں لے گئیں۔ داخل کروایا ،، میرا کیس اتنا پیچیدہ تھا کہ میں دو ماہ اسپتال رہی اور تم لوگوں کے گھر مزید دو ماہ تک رہی تمہارے ماں باپ نے ہمارا ایک پیسہ نہیں لگنے دیا ۔ میں جب اپنی صحت دیکھتی ہوں ، میں ان دونوں کے لۓ اور ان کی اولادوں کے لۓ دل سے دعا کرتی ہوں " ،، میں نے تو یہ سن لیا اور پھر آپا کو بتایا کہ آج انہوں نے جو بات بتائی مجھے تو آج پتہ چلی ہے ،، آپا کہنے لگیں ،"یہ ہمارے خاندان کے سب سے غریب اور نہایت سادہ ممبرز ہیں جنھیں کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن ان کی حالت کے پیشِ نظر باقی اخراجات تو اباجی نے اُٹھاۓ جب کہ مسز میکالے نے اپنی کوئی فیس نہیں لی۔یہ بھی ان کا بڑا پن ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھ کی گئی نیکی کا ذکر کیا اور یاد رکھا ورنہ تو ،،،،،،  ہمارے والدین " نیکی کر دریا میں ڈال " کے محاورے پر کافی عمل کرتے رہے ،، رہے نام اللہ کا!!!۔ 
( منیرہ قریشی 22 ستمبر 2017ء واہ کینٹ) (جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں