منگل، 19 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں*(14)

یادوں کی تتلیاں" (14)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ابھی میں کچھ پھرپیچھے جاؤں گی ، ہمارا پنڈی کا گھر ، جو ایک قدرے کھلی گلی میں ، شہر کے عین درمیان  واقع تھا ۔اس کا نقشہ بہت خوب صورت تھا حالانکہ وہ بہت کم رقبے پر بنا ہوا تھا ، شاید 7 ، یا 8 مرلے پر ! داخلے کے لۓ ڈیوڑھی  اور فوراً صحن، ڈیوڑھی میں داخلے کے بعد دائیں جانب اُوپری منزل  کو جاتی سیڑھیاں ،جب کہ صحن کے بائیں جانب ڈائینگ روم اور اسی کے اندر ایک دروازہ ڈرائینگ روم ( جو بہت چھوٹا ساتھا) اور اس کا ایک دروازہ باہر گلی میں بھی کھلتا تھا جیسا اس زمانے اور آج بھی رواج ہے۔صحن کے دو " سٹپ " تھے پہلے سٹپ پر یہ ہی سب اور باورچی خانہ اور اسی باورچی خانے کے باہر ایک چو لہا اور بھی دبا ہوا تھا جو اگر آج کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو " ڈرٹی کچن "تھا ، ،،، جب اماں جی نے بڑے پیمانے پر کوئی سالن ، یا حلوہ بنوانا ہوتا تو اسی پر پکتا ، باقی دنوں میں روزانہ کے استعمال کے لۓ گرم پانی کا برتن چڑھا رہتا ۔ نیچے ہلکی آگ جلتی رہتی ،،،،،ایک سٹپ اوپر کا صحن اتنا بڑا، ضرور تھا کہ 6 ،7 چارپائیاں بچھ سکتی تھیں ، اور اس میں ایک "سفیدے" کا درخت لگا ہوا تھا ۔اور اس صحن کے دائیں طرف کےکونے میں چمبیلی کی بیل لگی تھی جواوپر چھت تک گئی ہوئی تھی ، اور بائیں طرف انگور کی بیل لگی ہوئی تھی، اور وہ بھی اوپر چھت تک جا پہنچی تھی ،،،،، صحن کے اس حصے میں تین ، اچھے کشادہ بیڈ رومز ، ایک غسل خانہ اور ایک مناسب سائز کا سٹور بنا ہوا تھا ۔ چھت پر جائیں تو کشادہ کوٹھے سے پہلے ایک سٹور اور بھی تھا ۔اور اسی کوٹھے پر دو لیٹرین بھی تھے اور پھر چند سیڑھیاں اور چڑھیں تو ایک اور مناسب کھلا کوٹھا بنا ہوا تھا جس پر ڈیڑھ کمرہ تھا ،،،، جس میں سے ایک کمرے میں بستروں کی پیٹی ،اور فالتو چارپائیاں   رکھی ہوئی تھیں ( گرمیوں کے لۓ ) جبکہ چھوٹے کمرے میں ایندھن سٹور کیا ہوتا تھا ،،،یہ سب میں نے ایک تو اپنے بچپن کے گھر کو ذہن میں تازہ کرنا تھا جس میں ، ہمارے بھائی جان ، میں اور چھوٹی بہن پیدا ہوۓ ۔لیکن دوسری وجہ یہ بتانا مقصود تھا کہ اس گھر میں ابا جی اور اماں جی کی دریادلی اور اعلیٰ ظرفی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے پریشان حال خاندان تین چار سال کے لۓ رکے رہے،اور ایک خاندان کے چھے افراد رہے اور دوسرا خاندان  چار افراد پر مشتمل تھا ،،، دونوں خاندانوں کے سربراہ  بیروزگار تھے اس لۓ اس بابرکت گھر سے انھیں پیٹ بھر کھانا اور دوسری مالی معاونت بھی ملتی رہی اور بعد میں ان کے سربراہان کو ان کی اہلیت کے مطابق نوکریاں دلوائی گئیں  ،،،،،،آج بڑے بڑے گھروں والے اتنے فیملی ممبرز کو 3 یا 4 "ماہ " یا ہفتے ٹھہرائیں اور سب خرچے بھی اُٹھائیں ، تو احسانات کا پہاڑ ان پر " بول ،بول کر " لادا جاتا ہے ،،،،،اللہ ہمارے والدین کی ان نیکیوں کو قبول فرماۓ آمین۔
اماں جی اور اباجی پودوں کے شوقین تھے۔ خاص طور سے اماں جی ! اس شہری گھر میں ہمارے گھر میں سدا بہار پودے یا پھولوں والے 40 تا 50 گملے تھے ، محلے میں شاید یہ ہی گھر  ایسا تھا جہاں پودوں کی جی جان سے دیکھ بھال کی جاتی ،، اماں جی ہمارا کسی کے گھر جا کر کھیلنا پسند نہیں کرتی تھیں ،اس لیے  ہماری سب سہیلیاں ہمارے گھر آجاتیں اور کافی وقت گزارتیں کہ ایک تو کوٹھے کشادہ تھے اور دوسرے ہمارے ہاں ہمارا ایک بھائی اور وہ بھی ہاسٹل میں ہوتا ، ہماری ان سہیلیوں میں ان کے ننھے منے بھانجے ، بھتیجے بھی کبھی کبھار آجاتے تو اماں جی کچھ دیر کے لیے بڑی چھوٹی سب " مخلوق " کو یہ جملے ضرور بولتیں ،، کوئی بچہ نہ پتے توڑے گا نہ ہی کسی گملے کو ہاتھ لگاۓ گا ! ورنہ اس پر جرمانہ ہو گا ! ان کا اتنا کہنا ہی کافی ہوتا ، اور اس !دوران ہمارے گھر  اماں جی کی  کوئی سہیلی آجاتیں تو انھوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا شور نہ کرو!!!۔  
اب یہاں میں یہ بھی لکھنا چاہوں گی کہ اماں جی کی دانائی ،اور اچھے مشاورت کی عادت نے انھیں خاندان اور خاندان سے باہر مقبول بنا رکھا تھا ۔ ایک گھر کی والدہ بہت بزرگ تھیں وہ جب آتیں اکیلی آتیں ، دل کے دکھڑے شیئر کرتیں اور چلی جاتیں ،، کچھ دن بعد اس گھر کی ذرا  بڑی عمر کی  بیٹی آتی اور بہت دیر تک بیٹھ کر اپنے دل کا حال ، اور مشورے لیتی ،، اور کبھی اسی گھر کی بہو آکر اپنے دکھڑے سنا کر جاتی ،،،لیکن کیا مجال اماں جی اس کو یہ بھی نہ بتاتیں کہ تمہاری ساس آئی تھیں، یا تمہاری امی آئیں تھی ، وہ کہتیں تھیں ،،، مجھے ان کے دلوں کی بھڑاس سن لینے سے کیا فرق پڑتا ہےلیکن انھیں بہت فرق پڑجاتا ہے ،،، الحمدُللہ انھوں نےاس طرح کی مختلف رشتوں والی دوستیوں کا ذکر کسی اور سے بھی نہیں کیا۔
میں نے اماں جی کی اس خوبی کا ذکر شاید پہلے بھی کیا تھا کہ وہ ہر طرح کے لوگوں سے گفتگو کی اہلیت رکھتی تھیں ، وہ خود کسی سکول کی بلڈنگ کے اندر تو نہیں جاسکیں لیکن ان میں علمی قابلیت ،، سکول جانے والوں سے ذیادہ تھی ،،، ہمارے محلے میں بھوپال سے ہجرت کر کے ایک فیملی آئی جو ایک گھر کے نچلے حصے میں کرایہ دار ہوۓ ۔ اس میں میاں بیوی ، انکی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ، خاتونِ خانہ انہی دنوں شدید بیمار تھیں ، ہمارے اس محلے میں ہمارے رشتے داروں کے کافی گھر تھے اور قدرِخوشحال بھی تھے ۔ اس دور میں ہجرت کر کے آنے والوں کے لۓ جذبۂ ہمدردی وافر تھا چناچہ ،، سب نے انھیں اپنی مدد کی آفر کی ،، بے یارو مددگاری کےاس دور میں ہلکی سی مدد بھی بہت لگتی ہے خاص طور پر جب خاتونِ خانہ کو ہسپتال داخل کرنے کا وقت آیا تو ،،، اور اسے خون دینے کا وقت آیا تو سب ہمسائیوں نے اور ہمارے رشتہ داروں نے پُرخلوص کوششیں کیں ۔ لیکن وہ جنت مکانی بچ نہ سکیں ۔ اس سانحہ کے کچھ ماہ بعد اس گھر کے بزرگ کو نوکری ملی اور ان کی آنکھوں سے آنسو کم ہوۓ تو ! ان کی بڑی بیٹی کو ٹیلی فون آپریٹر کی جاب مل گئی ،جو اس وقت میٹرک پاس تھیں اور ( بعد  میں انھوں نے ایف ۔اے پاس کر لیا ) ہماری بڑی بہن کی ہم عمر تھیں ان کے بعد کا بھائی کچھ ، چھوٹا اور اس سے چھوٹی دونوں بہنیں منی اور نسرین ہماری ہم عمر تھیں جو ہماری پکی سہیلیاں بن گئیں۔ اب ہوا یہ کہ بڑی بہن نے مدت تک کسی بھی گھر آنا جانا نہ رکھا ۔ قریبی گھروں کی خواتین نے ان کے ہاں چکر لگا ۓ لیکن یہ انتہائی وضع دار اور خاندانی گھرانہ تھا جو خواہ مخواہ ، ادھر اُدھر پھرنے کا قائل نہ تھا ، اور دوسری طرف ہماری اماں جی بھی ایسی کہ جب تک کوئی اشد ضرورت نہیں تو نہ نکلتیں۔لیکن اس گھر کے بزرگ ایک آدھ دفعہ اباجی سے ملے۔تو شاید اچھا  تاثر لیا کہ ایک دن مکمل برقعے میں عارفہ آپا ہمارے گھر آئیں اور پھر تو ماں بیٹی والی تعلق فوراً  قائم ہو گیا ، کہ حیرت ہوتی،،، شاید کچھ لوگوں کی کیمسٹری اتنی ملتی ہے کہ ان کی آپس کی محبت کا تعلق مضبوط ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔اور یہ ایسی شخصیت تھیں ۔ وہ تو اماں جی کی عاشق ہو گئیں، دوسری طرف ان کے والد کی طرف سے باقی دونوں بہنوں کو بھی صرف ہمارے گھر آنے کی اجازت ملی ،،، اور یوں ایک اہلِ زبان ، اورپڑھے لکھے باشعور خاندان نے ہماری اردو کو سیقل کرنے میں بھی بہت حصہ لیا ،،،،، اور کچھ اقدار کو سیکھنے کا بھی موقع ملا۔
( منیرہ قریشی ، 19 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں