بدھ، 20 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " ( 15)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 15)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میرا بچپن ویسا ہی گزرا جیسے سبھی خوشحال مڈل کلاس کا ہوتا ہے ، اصل فرق ، ان گھرانوں کی سوچ ، اقدار اور اُصولوں پر عمل درآمد پر ہوتا ہے اور میں جب اپنے بچپن پر نظر ڈالتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر " گھر کی ماں " کی سوچ باشعور ہو  اور اس ماں کا فوکس بچوں کی تعلیم ، اور ان کو خاندانی سیاست سے دور رکھنا ہو، ان کی صحبتوں پر نظر ہو تو وہ گھرانہ اوروں کی نظر میں نمایاں ہوتا ہے ۔ اماں جی نے ہمیں، کتابوں کی طرف تو لگا ہی دیا تھا ، ایک اور کام کی طرف بھی دلچسپی اُبھاری ، وہ تھی " ڈرائنگ " ! شامیں لمبی ہوتیں تو ریڈیو سننے کے علاوہ کہا جاتا ،،، یہ جگ اور گلاس میز پر پڑا ہے اسکی تصویر بناؤ ، یا پھولوں بھرا گلدان رکھا ہے یہ بناؤ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دونوں بہنوں کی ڈرائنگ ، اپنی ہم جماعتوں میں سب سے اچھی رہی۔ اور جب ہم نے اپنا سکول چلایا تو اس وقت اپنی ڈرائنگ بہت کام آئی ۔
ہمارے گھر میں بھوپال کی سید خواتین نے آنا شروع کیا تو ہم نے بھی ان کے لہجے کو غیرمحسوس طریقے سے اپنانا شروع کر دیا ۔ہماری اردو اتنی صاف ہوگئی کہ اکثراجنبی لوگ ہمیں " اہلِ زبان " سمجھتے ،،، اور خاص طور پر جب ہم واہ کینٹ  آۓ تو حسبِ معمول اماں جی تو کہیں آتی جاتی نہیں تھیں ،انہی سے آس پاس کی خواتین ملنے آنے لگیں ! اور خاص طور پر ہمارے انٹر میڈیٹ کالج ( اس وقت ،، بعد میں ڈگری کالج بن گیا ) کی باوقار ، ڈبل ایم۔اے ، اور انتہائی رکھ رکھاؤ والی ، جو ہمیشہ ساڑھی میں ملبوس ہوتیں ،،پرنسپل مسز انیس زیدی ، دوتین مرتبہ ہمارے گھر آئیں ،،، آخر ایک دن پوچھ لیا " مسز ظفر آپ انڈیا سے سی۔پی سائڈ کی ہیں یا یو۔پی کی طرف کی ،،،، اماں جی ہنس پڑیں اور جب انھیں بتایا کہ میں تو چند میل دور ٹیکسلا سے تعلق رکھتی ہوں تو وہ حیران رہ گئیں۔
۔( نوٹ : "مسز انیس زیدی"۔۔۔میرا زمانہ 64ء سے ہے اور مسز زیدی اس سے بھی تین چارسال پہلے کی پرنسپل بن چکی تھیں ،،، اور 1975،76 ء میں وہ  ریٹائر بھی ہو گئیں ،،، پھر وہ ساری فیملی کراچی سیٹل ہو گئی،ان کے سب ہی رشتہ دار وہیں تھے۔ان کے تین بیٹے تھے، زیدی صاحب پہلے انتقال کر گۓ اورمسز زیدی کا ایک ،دو سال پہلے انتقال ہوا ۔۔۔ باوقار ٹیچرز کے ایک ہی جیسے" گیٹ اپ"ہوتے تھے ! لیکن مسز انیس زیدی کو ہم طالبات نے ہمیشہ ساڑھی میں دیکھا ،،، ایک سے  بڑھ کر  ایک ساڑھی ،،،اوراس سے زیادہ ان کے باندھنے کا انداز ا نتہائی باوقار تھا ،،، بہت ڈھیلےڈھالے طریقے سے ، پلو اپنے جسم کے گرد لپیٹ لیتیں ! ان کے ہیل کی جوتی کی ٹک ٹک ہماری کلاس تک دو کلاس پہلے تک آنے لگتی اور ہم سب بہت مہذب بن کر بیٹھ جاتیں ،،،، وہ اتنی مہذب اور رکھ رکھاؤ والی تھیں کہ کسی کو ڈانٹتے وقت بھی غلط الفاظ ان کے منہ سے کسی نے نہیں سنے ! اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے  آمین،،،، ہم خوش قسمت نسل تھے جن کو زیادہ تر ٹیچرز ، کردار سازی والی ملیں)۔
میرا آج بھی یہ خیال ہے کہ ہماری شین قاف کی درستگی اسی خاندان کے ملنے ملانے سے درست ہوئی۔عارفہ آپا کی جاب کو کچھ اورسال گزر گئے،، ان کے والد کی بہت خواہش تھی کہ ان کی شادی ہو جائے لیکن اس باکردار ، بہادر لڑکی نے صاف کہہ دیا جب تک بہن بھائی کسی  مقام پر نہیں پہنچ جاتے میں شادی نہیں کروں گی ! یا اس شخص سے کروں گی جو ہمارے ساتھ رہے ! میں بیاہ کر نہیں جاؤں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کی سچائی کو قبول کیا ،، اور ایک ایسا شخص ان کے گھر تک اسی خیال سے کسی کے ریفرنس سے پہنچ گیا جو خود بھی اب دنیا میں اکیلے ہی تھے ، بلکہ بہت اچھے خاندان سے تعلق بھی رکھتے تھے، ان کا نام حبیب درانی تھا ، اور وہ اس زمانے میں مغربی پاکستان کے گورنر کے جہاز کے" نیوی گیٹر " تھے۔اور ان کی مزید چھان بین کے لۓ اباجی کو کہا گیا ۔جب سب او۔کے ہو گیا تو صرف آٹھ دس لوگوں کونکاح کی تقریب میں بلایا گیا ! شادی ہوگئی۔کچھ اور سال گزرے اور میری ہم عمر نسرین کی شادی،اپنی پھوپھو کے گھر ہوگئی ،، چند اور سال ہی گزرے تھے کہ انکے والد فوت ہو گۓ، ان کے بھائی کو واہ کینٹ میں جاب مل گئی۔
 آپا کے اس دوران دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا ،،، اب آپا کے میاں صدر پاکستان کے جہاز پر پوسٹ ہوگۓ، آپا کو ان کے ساتھ لاہور شفٹ ہونا پڑا تب وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی ساتھ لے گئیں ! اور یوں کاتب تقدیر نے دکھایا کہ آگے چل کر آپا کے تینوں بچے انتہائی خوشحال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بنے ،، بلکہ اکلوتا بیٹا سفیر بھی بنا ! ایک بیٹی ڈاکٹر بنی اور دوسری بھی کامیاب رہی ،،، آپا کی قربانیوں کا صلہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تو دیا ، انشا اللہ آخرت میں بھی دے گا ! ۔
اسی طرح اماں جی جب پنڈی میں ہی تھیں تو ایک بریگیڈیئر صاحب کی بیگم ملنے آتیں تھیں۔جانے ان کی دوستی کہاں ہوئی، کیسے ہوئی !لیکن ہمارے شہری گھر میں ،، جہاں کی گلی میں ان کی بڑی گاڑی گھر کے دروازے تک نہ پہنچ پاتی تو وہ گلی کے سرے پر روک کر ، ،12 ،15 قدم چل کر آجاتیں ۔ ڈرائیور کو وقت کا بتا کر روانہ کر دیتیں ۔وہ  ایک نفیس اور رکھ رکھاؤ والی صاحبِ حیثیت خاتون تھیں ان کا سراپا میرے لۓ ہمیشہ پرکشش  رہا۔اچھے قد ، صاف رنگ اور ذرا دہرے بدن کی وہ 
 پُرکشش خاتون آجاتیں تو اس کامطلب ہوتا کہ اب اماں جی شام تک فارغ نہیں ! پہلے تو چاۓ پانی چلتا ،،، اور دوپہر کے کھانے کا وقت آتا تو اماں جی ، اردلی اور ماسی کو اشارہ کرتیں کہ ڈائیننگ روم میں برتن لگاؤ ،،، لیکن وہ صاف کہہ دیتیں ، میں کچن میں رکھےتحت پر بیٹھ کر کھاؤں گی۔اماں جی شاید ان کی نفسیات سے واقف ہو گئی تھیں ،، جب وہ اس چھوٹے کچن میں بیٹھ جاتیں تو جیسے کچن بھر سا جاتا ،،،میں اکثر بہانے بہانے ان کے پاس جا بیٹھتی۔ایک آدھ بات کر کے وہ اماں جی سے محوِ گفتگو ہو جاتیں ۔ان کے ہاتھ میں عین فیشن کے مطابق بہترین بڑا پرس ہوتا ،، اور ایک دفعہ جب میں وہیں بیٹھی ہوئی تھی۔ کہ وہ اماں جی کو پرس میں سے دو رومال نکال کر دکھا رہی تھیں (اس زمانے میں ٹشو پیپرز کا رواج نہیں تھا ، کم از کم ہماری طرف نہیں ) ،،، انھوں نے کہا " مسز ظفر یہ سفید رومال میں آنسو پونچھنے کے لۓ رکھتی ہوں اور یہ گلابی رومال ناک پونچھنے کے لۓ ،،،، مسز ظفر ، جب مجھے ڈیپریشن ہوتی ہے تو میں اسی طرح تیار ہوکر ، پر فیوم لگا کر ، ونڈو شاپنگ کے لۓ نکل جاتی ہوں اور میں ایک دو گھنٹے میں فریش ہو جاتی ہوں " ،،،! کبھی تو وہ لگاتار آتیں اور کبھی لمبا وقفہ ڈالتیں ،،، ایک دفعہ وہ آئیں اور بہت ناراض تھیں کہ میں نے آپ کو اتنی دفعہ بلایا لیکن آپ آج تک میرے گھر نہیں آئیں ،،،،،اماں جی نے جس دن کا وعدہ کیا ، وہ مجھے ساتھ لے گئیں ، ان کا گھرہمارے گھر سے پچیس منٹ کی ڈرائیو پر تھا ،،، وہ سول لائن کی کوٹھیوں میں سے ایک اچھی بڑی کوٹھی تھی۔ انہوں نے محبت سے پہلے ڈرائینگ روم میں بٹھایا لیکن چاۓ کے وقت ہمیں اپنے بیڈ روم میں لے آئیں ،،وہاں بھی ایک سائڈ پر کرسیاں میز لگا ہوا تھا ، اور کچن قریب ہونے کی وجہ سے جو تلی چیزیں آرہی تھیں خوب گرم اور لذیز تھیں ! اس دن ان کے گھر کے افرادِ خانہ میں سے کوئی نظر نہ آیا۔ البتہ ان کے خانساماں کو دیکھا جو ایپرن باندھے ہمیں چیزیں پیش  کر رہا تھا ، جب وہ چلا گیا تو مسز رحمان نے بتایا یہ خانساماں کئی سالوں سے ہے اور یہ مخنث ہے ، صرف ہر منگل کو رات اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ اپنا گانا بجانا کر کے آ جاتا ہے !!!!!ایک مدت گزر گئی اور آج ہم ایسے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں بولڈ ہو جاتی ہیں، تو ہمارے ماضی کی کتاب میں بہت سے کرداروں کے اثرات بھی ہیں ۔ جن کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
( منیرہ قریشی 21 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں