اتوار، 3 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " ( 5)

یادوں کی تتلیاں " ( 5)۔"
قدرِ وقفہ کے بعد پھر حاضر ہوں ، آٹھ دن کے لۓ ایک غیرت مند ، توانا اور محنتی قوم " تُرکوں " سے ملنا ہوا تو وقفہ آگیا ،،،،،،، آج ایک اور بچپن کے اس کردار کا ذکر کر رہی ہوں جس نے ہمارے گھر ذیادہ عرصہ گزارا ،،، اور دیانت داری، اور نمک حلالی کی مثال قائم کی ،، وہ جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ اسے اعلیٰ درجے عطا کرے آمین ! اس اردلی کا نام محمد نذیر تھا ،، شاید جہلم کے کسی دور کے دیہات کا مکین تھا ! سال میں صرف دو دفعہ چھٹیاں گزارنے جاتا تھا تو جہلم کا ذکر کرتا اسی لۓ یاد رہ گیا ! نذیر دُبلا پتلا ، درمیانے قد کا ایکٹو بندہ تھا ، حسبِ معمول اماں جی نے کچھ عرصہ اسکی اہلیت کو جانچا اور پھر مہینے کے اخراجات کی ذمہ داری اس پر ڈال دی، اس نے ان پیسوں سے پہلی خریداری ایک کاپی کی ،کی ! وہ سات یا آٹھ تک پڑھا ہوا تھا ، اس نے ایک روپے کی خریداری کرنی ہوتی یا 10 روپے کی فورا" اس کی تفصیل کاپی پر لکھ لیتا۔ اور مہینے کے آخر میں اماں جی کو حساب دے دیتا ، نماز ، روزے کا تو پابند تھا ہی لیکن صبح نماز کے بعد کچھ دیرقرآن کی تلاوت ضرور کرتا ۔ اس نے ہم سے کوئی فالتو بات نہ کرنی نہ گھر میں کسی قسم کی کنسوئیاں لینی ،جتنا اماں جی پوچھتیں اتنا جواب دیتا ،،،، اماں جی کو حج کا بےحد ارمان تھا ،اور مکہ و مدینہ سے محبت کا عالم نہ پوچھیۓ ۔ جتنے سال نذیر ہمارے یہاں رہا ہر سال اس کی ایک ڈیوٹی اور بھی تھی ،،، ان دنوں حاجیوں کو پہلے ٹرین سے کراچی پہنچنا ہوتا اور وہاں سے بحری جہازوں سے مکہ جاتے ، اسی لیۓ حاجیوں کو ریلوے سٹیشن چھوڑنے بہت تعداد میں ان کے رشتہ دار ، احباب آۓ ہوتے ، اماں جی پہلی ٹرین کی روانگی کا اخبار سے پڑھتیں ،،، نذیر کو بتاتیں ، اگلے دن نذیر تانگہ لے آتا ، میں بھی اکثر ساتھ ہوتی ، نذیر تانگے پر آگے بیٹھ جاتا ، میں اور اماں جی پیچھے بیٹھتے ، راستے میں گوٹے اور گلابی کاغذی پھولوں والے کبھی ایک اور کبھی دو ہار خریدے جاتے ، جن پر " حج مبارک " بھی لکھا ہوتا ، یہ سب کام نذیر کر رہا ہوتا ! اسٹیشن آتا تو اماں جی اور میں اندر چلی جاتیں ،،،، اماں جی نے کوئ بھی ،،ایکس وائی زیڈ،،حج پر جانے والی خواتین کےگلے میں ہار ڈالنے اور انھیں شاید دعا کابھی کہتی ہوں گی !اور ہم واپس اسی تانگے میں گھر آ جاتے ! نذیر نے حساب بھی رکھنا کہ ٹھیک 2 یا 3 ماہ بعد یہ ہی ڈیوٹی دہرانا ہے کہ حاجی آنے لگتے تو اماں جی کی آنکھیں ایک آدھ دن جھڑی بنتیں ، لیکن طبیعت کی خرابی کے باوجود یہ عمل با لکل پہلے کی طرح دہرایا جاتا کوئ سی دو حاجن خواتین کے گلے میں " حج مبارک " کے ہار ڈالے جاتے اور گلے لگ کر خدا حافظ کہہ کر آجاتیں ،،، نذیر صرف ایک جملہ کہتا " آپا بڑے ، اللہ سے اُمید ہے اور دعا کریں وہ آپ کو بھی وہاں کا بلاوہ کر دے " لیکن اماں جی جانتی تھیں ان کی صحت کسی صورت اتنے لمبے سفرکے قابل نہیں !!! نذیر کی ریٹائرمنٹ ہوئی تو اماں جی ، اباجی نے اسے بھرپور لین دین کر کے رخصت کیااپنا پتہ لکھوایا ، ہمارا پتہ لکھا اور رخصت ہوا ،کبھی کبھار اس کے مختصر احوال والے خط آتے ،،، اماں جی ضرور جواب دیتیں ،، وقت آگے بڑھا،اور اماں جی 7 فروری 1976ء کو انتقال کر گئیں ۔ صرف دو دن بعد نذیر کا خط اماں جی کے نام آیا ' کہ میں نے آپ کے بارے میں خواب دیکھا ہے ، کیا آپ ٹھیک ہیں ؟ " بھائی نے اسے بذریعہ تار اطلاع دی کہ وہ فوت ہو چکی ہیں وہ اگلے دن ہی آ گیا بہت دیر تک روتا رہا ' کہنے لگا میں نے خواب دیکھا آپا بڑے سفید ساڑھی کی طرح کے لباس میں ، میرے کھیتوں کے کنارے کھڑی ہیں اور مسکرا کر دیکھ رہی ہیں " بس میں پریشان ہوگیا اور لمبے وقفے کے بعد خط لکھا " پھر نذیر نے اجازت مانگی میں آپا بڑے کے بیڈ روم میں بیٹھ کر قرآن ختم کرنا چاہتا ہوں ۔ اباجی نے کہا ضرور ! اس نے 3 دن روزانہ 5،6 گھنٹے بیٹھنا اور تیسرے دن قرآن ختم کر کے دعا کر کے ، باوجود روکنے کے واپس چلا گیا ، پھر آج تک اس سے کوئی رابطہ نہ ہوا،! میں سمجھتی ہوں ،محبت اور احترام کا جذبہ ، دلوں کی نرمی اور تربیت پر منحصر ہے ! اباجی کے لۓ اماں جی کے بعد اتنی " فی سبیل للہ " محبتوں کو چلانا شاید مشکل تھا ، اس لیے بھی سلسلہ جاری نہ رہا لیکن نذیر کی بےلوث محبت اور قدرافزائی اکثر یاد آتی ہے ! وہ جہاں ہو بہترین جگہ پر ہو آمین !۔
(منیرہ قریشی 3 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں