اتوار، 17 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(13)

یادوں کی تتلیاں " ( 13 ) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
بڑے بھائی جان کا ذکرِ خیر کرتے ہوۓ میں اس بات کا ذکر نہ کروں تو میری نالائقی ہو گی کہ جب وہ ریٹائر ہو کر واہ کینٹ آۓ تو 1991 ء میں ہم نے اپنی پُرخلوص سہیلی شاہدہ نعیم کے "ظالمانہ" اصرار پر ایک سکول کھولنے کا ارادہ کر ہی لیا ،،،لفظ " ظالمانہ اصرار"  پر آپ حیران بھی ہوں گے کیوں کہ وہ پی ایچ  ڈی  (زولوجی) ،،، اور ایک کامیاب  ماہرِتعلیم ہے اورکچھ سالوں سے اسلام آباد میں کامیاب ہائی سکول اور بعد میں ایف ایس سی کالج چلا رہی تھی ! ،،، آپ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جب آپ کو بےلوث دوست مل جائیں جو نہ صرف اچھے مشورے دیں ۔ بلکہ کچھ پالیسیوں پر ایسے انداز سے عمل کرنے پر مجبور کریں کہ فوری طور پر آپ بےدلی سے ان کے مشورے پر عمل درآمد پر مجبور ہو جائیں ،،، لیکن وہ آپ کی بھلائی  سوچ رہے ہوتے ہیں جب اس نے یہ کہا کہ "اگر تم دونوں بہنوں نے سکول نہ کھولا تو میں وہاں سکول کھولوں گی اور انچارج تم ہی ہو گی ! یہ ایسی " محبت بھری " دھمکی تھی جس نے ہم سے وہ کام کروا دیا جو ہم دونوں نے سوچا بھی نہ تھا ،،، دراصل ہم دونوں بہنوں نے بطور ٹیچر 5 ، 6 سال گزار لیے تھے اور لگےبندھے ، روٹین کی عادی ہو گئی تھیں ، اب ایک نیا قدم اٹھانا ، اور وہ بھی رسکی ،،، کہ کیا پتہ نوکری چھوڑی تو یہ سلسلہ بھی نہ چلا ، تو کیا ہو گا!!۔
لیکن جب اللہ کی ذات چاہتی ہے تو " وہ کن فیکون " کا معاملہ ہو جاتا ہے ، انہی دنوں (91ء) اباجی کا کراۓ پر لگا گھر خالی ہو گیا جو پرائم لوکیشن پر تھا۔ اور اتفاق سے جوجی ، کی ایڈہاک پر کالج کی تعیناتی ختم ہو گئی ، اور حالات کا یہ تسلسل ہمارے لۓ نیا قدم اُٹھانے کا باعث بن گیا ،،، ہم نے اباجی سے درخواست کی کہ اب کے آپ کا گھر ہم کراۓ پر لیں گی ۔ اور وہی کرایہ  ادا کریں گے جس پر آخری کراۓ دار نے چھوڑا ہے ،،، اباجی کے لۓ ہم سے زیادہ کون آگے تھا انہوں نے فوراً سفیدی وغیرہ کروا کر حوالے کر دیا ۔ اب ہم دونوں نے سر جوڑے اور فیصلہ کیا کہ ، جب ہمارے بچے چھوٹے تھے اور انہیں بہت  ابتدائی کلاسسز میں داخل کروانا چاہا تو کوئی اچھا سکول نہ تھا جو اطمینان بخش ماحول دیتا ، ابھی ہم صرف ابتدائی کلاسسز شروع کریں گے اور اپنے آپ کو بھی جج کر لیں گے کہ ہم میں کوئی قابلیت ہے یا نہیں !۔
اس پروگرام کے لیے  شاہدہ نے ہمیں اپنے سکول کا  نصاب دیا ، لیکن اس کے باوجود کہ ان سکولوں میں جہاں ہم نے پڑھایا ،،، الحمدُ للہ ، الحمدُ للہ ہم دونوں کامیاب اساتذہ میں شمار ہوتی تھیں ،، لیکن بہت چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا تجربہ بس وہی تھا جو اپنے بچوں کو پڑھانے کا تھا اور یہ ایک سکول چلانے والے کے لۓ قطعی نا کافی تھا۔ لہذاٰ اسکے دیے گئے سلیبس کو تو لے لیا، پھر اپنی ایک اور بیسٹ فرینڈ اور بہترین ماہرِتعلیم " جینفر جگ جیون " کو شاملِ مشاورت رکھا اور بےشمار اداروں کی کتابیں جمع کر کے آپس میں بانٹیں تاکہ اپنے اپنے مضمون کی کتابیں پڑھ کر اس چند ہفتوں کے بعد مل کر تجاویز شیئر کریں گے۔یوں ،،، اچھی طرح چھان بین کرکے سلیبس تیار ہوا ،، اور "پلے گروپ،نرسری اور پریپ  کی جماعتوں کا فرنیچر، بلیک بورڈ وغیرہ خریدے گئے،،،، اس دوران اباجی نے بہت توجہ دلائی ،کہ رہائشی ، بلڈنگ میں سکول کھول رہی ہو۔ کینٹ بورڈ سے اجازت لے لو۔ اور انھیں مطلع بھی کر دو ۔ اب ہم دونوں بہنوں کو " گورئنمنٹ آفس " میں جانے اور مردوں سے بات چیت کا کوئی تجربہ نہ تھا ، اور جھجک اتنی کہ کوئی سیدھی بات بھی پوچھے تو منہ سے کچھ اور ہی نکلے ،،،،،،،،یہ ہی وہ " اہم ترین " دن تھے جس میں ہمارے پیارے بہنوئی نے ہماری ہمت بندھائی " میں ساتھ چلتا ہوں ، ،،، کوئی مسئلہ ہی نہیں !"بڑے بھائی جان کے ساتھ میں دو دفعہ " ایگزیکٹو آفیسر " بلوچ صاحب سے ملاقات کے لیے گئی ، انھوں نے آفیسر سے اِن دونوں  ملاقاتوں میں پوچھا " اگر یہ غیرقانونی اقدام ہے تو ابھی بتا دو ،، تاکہ ان کا وقت اور پیسہ ضائع نہ ہو ۔ ہر دفعہ اس نے بڑے بھائی جان کو مطمئن کر کے بھیجا کہ کوئی مسئلہ ہماری طرف سے نہ ہو گا ! تیسری مرتبہ  پھر گئے ( کیوں کہ ہمارے اباجی نے زندگی بھر نہ خود قانون کو ہاتھ میں لیا  اور نہ وہ اپنی اولاد کو ایسا کرنے کی اجازت دے رہے تھے اور ان ہی کے اصرار پر بھائی جان کو پھر جانا پڑا)، اب کی بار جب ہم اس کے آفس پہنچے تو "ایگزیکٹو آفیسر"نے بھائی جان سے ہنس کر کہا " کرنل صاحب ! میں آپ کو یہ قانونی نکتہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ " سکول اور ڈسپینسری " سواۓ عدالت کے حکم کے کوئی بند نہیں کرا سکتا ،،،،،،،،، کیوں کہ یہ دونوں ادارے بہت کم ہیں !" اگر کبھی کینٹ بورڈ نے کوئی نوٹس بھی دیا تو آپ لوگوں کو کورٹ کی حمایت مل سکتی ہے "یہ جملے ایک ذمہ دار آفیسر کے منہ سے سن کر بھائی جان نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ، ہم بھی مطمئن ہو گئیں اور اباجی بھی ،،،، ویسے بھی یہ بہت چھوٹے بچوں کا سکول تھا ،، اس کے بعد بھی کئی اور دفاتر میں جانا ہوتا تو اول تو بڑے بھائی  جان خود جاتے ورنہ ہم دونوں میں سے کوئی ساتھ ہوتا اس طرح ایک مضبوط ، دبنگ " ساتھ" "نے ہمیں وہ اعتماد دیا ،،، جس نے ہمیں ، مَردوں کے اس معاشرے میں بات چیت کا سلیقہ اور طریقہ سکھایا ،،، کسی تیراکی سیکھنے والے کو سنبھالنے والے "ماہر ہاتھ" ،، اور حوصلہ افزائی کے الفاظ ملتے جائیں تو تیراکی اس کے لۓ چند دن کا کھیل ہوتا ہے ،،،، اور ان دفتروں  میں جانے ، اور یہ احساس دلاتے رہنا کہ " میں ہوں بھئ " تو عورت ذات کے  لیے کوئی مسئلہ ،مسئلہ نہیں رہتا۔ اباجی اس وقت تک ، بوڑھے اور ناساز طبیعت سے دوچارہو چکے تھے ، ،،لیکن زبانی حوصلہ افزائی بہرحال ساتھ ساتھ تھی اور ہر ماہ جب میں انھیں گھر کا کرایا دیتی تو وہ یہ جملہ کہنے میں دیر نہ لگاتے " تمہاری سب پے منٹ ہو چکی ہیں !؟ نہیں تو ابھی یہ پاس رکھو " یہ سب الفاظ ہمارے لیۓ وہ " قیمتی اثاثہ " تھے کہ ہمیں کبھی مالی ضرورت پڑی تو ہمارا " بنک " ہمارا باپ تو ہے ہی ،،،،، حالانکہ اباجی کا گھر ان کی پینشن اور گھر کے اس کراۓ سے نہایت باعزت انداز سے چل رہا تھا ،، پھر بھی اپنی بیٹیوں کے لۓ یہ فکر رہتی کہیں انھیں  کسی قسم کی  مالی  پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے!!!۔
 آج ہمارے اس سکول کو 26 واں سال ہے ، اللہ رب العالمین ، ہی رازق و مالک اور کارسازِ حقیقی ہے ،،، اسی نے ہمیں اب تک کی تمام تر کامیابیوں سے نوازا ہے ، جس کے  لیےشکرگزاری کے وہ الفاظ ہمارے پاس ہیں ہی نہیں ، جو اس کی شایانِ شان ہوں ،،،، اور اسی ربِ کریم و رحیم نے " اباجی اور بڑے بھائی جان کی صورت میں دو ایسے مضبوط ہاتھ فراہم کۓ جن کے احسانات کا بہترین اجر انھیں اللہ تعالیٰ آخرت میں عطا کرے ، آمین۔
ہماری بڑی بہن نے ہم چھوٹی بہنوں ، اور بھائی کوبہن سے زیادہ ماں والی نظر سے دیکھا ۔ مجھے یاد ہے جب ان کے آنے کی اطلاع ہوتی تو وہ ہمارے لۓ عید کے دن جیسا اہم دن ہوتا ،،شاید ہماری اماں جی نے ہم بہن بھائی میں مھبت کے "انجکشن" لگا دیۓ تھے یا محبتوں کے " ڈراپس "پلا دیۓ تھے کہ اپنے دل کو ٹٹولیں تو بےشمار لوگوں کے مقابلے میں ہم خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ہم کبھی " اکیلے پن " کا شکار نہیں ہوئیں ! بچپن میں آپا آتیں تو اماں جی کے گھر کی سب اہم خریداریاں ان دنوں ہوتیں ، سوئی جتنی چیز بھی آپا کے مشورے سے لی جاتی ،، ہماری بچپن کی عید کی تیاریوں میں آپا کا واضح ہاتھ ہوتا ۔ اور وہ یہ کہ اس وقت کے فیشن کے مطابق نیل پالش اور مہندی ایک دن پہلے لگائی جاتی ، پھر رات کو ہمیں نہلا کر گیلے بالوں میں چھوٹی چھوٹی "مینڈھیاں " کی جاتیں جن کے آخر میں انھیں فالتو کپڑوں کی کترنوں سے باندھ دیا جاتا ۔ ہم دونوں اپنے سرہانے اپنی چوڑیاں ، ربن ، استری شدہ کپڑے اور  نئے جوتے اس دن مارے محبت کے " میز " پر رکھے جاتے ! صبح جلدی آنکھ کھل جاتی ، اور منہ ہاتھ دھونے کے بعد ناشتہ کرنے کے بعد ، عید کے کپڑے پہننے کے بعد ، سب سے آخر میں بال کھولے جاتے ،،، اب وہ خوب گھنگھریالے ہو چکے ہوتے ، ہم نے اگر ربن سے سجنا ہے تو ٹھیک ورنہ، کلپ لگا لیتیں !!! آپا کے اپنے بھی دو بچے ہو چکے تھے ، لیکن اماں جی کی قائم مقام کے طور پر وہی سب کام کرتیں ، اور پھر آخر میں خود تیار ہو کر اپنے تمام سسرالی رشتہ داروں کو ملنے جاتیں ۔ 
جوں جوں وقت گزرتا گیا ، ہم خود بھی باشعور ہوتی گئیں لیکن ہر اہم معاملے میں آپا سے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہ اُٹھایا جاتا ،، میرے ہاں پہلوٹھی کے جڑواں بچے ہوۓ ، ان دنوں اماں جی کی طبیعت بہت زیادہ خراب رہنے لگی تھی ، بلکہ ان کی زندگی کے آخری " مہینے " چل رہے تھے ،،،میں والدین کے ہی گھر تھی ، اور آپا سے میں نے کہہ دیا بس آپ ہی میرے پاس ہاسپٹل میں ہوں گی ،، ،،، اور یہاں میں پھر اپنے بہنوئی کی اعلیٰ ظرفی کو سراہوں گی کہ ، اماں جی زیادہ بیمار ہیں ، آپا کو فوراً بھیجا جاتا (چاہے وہ کہیں بھی پوسٹڈڈہوں) میں بیمار ہوئی آپا کو بھیج دیا اور جب میں گھر آگئی تب بھی آپا اس بات پر فکر مند کہ یہ ان دو بچوں کو کیسے سنبھالے گی ،، اتفاق سے ان دنوں گھر میں " نوکر کرائسز " چلا ہوا تھا چناچہ ،،، صلاح ہوئی کہ دو تین ماہ کے لۓ مجھے آپا اپنے گھر سیالکوٹ لے جائیں گی، تب تک ملازمہ کا بندوبست کیا جاۓ ، ہمیں بھائی جان  کار میں سیالکوٹ چھوڑنے گئے ، اور آپا کی خدمت ، بچوں کو نہلانے ، سنبھالنے کی ٹریننگ ، نے مجھے خوب پکا کر دیا ۔ واپس تین ماہ بعد آپا اور انکے بچے نانا، نانی کے پاس چھوڑنے آۓ تو ایک ڈیڑھ ماہ رہ کر انھوں نے کہا " ابھی بھی میں ایک بچہ ساتھ لے جاتی ہوں ، دو تین ماہ بعد چکر تو لگ ہی جاتا ہے ! چھوڑ جاؤں گی ، سب نے یہ تجویز پسند کی اور آپا عمر کو ساتھ لے گئیں اور  تین ماہ بعد آئیں  تو کچھ ہفتے رہ کر اب کامل علی کو ساتھ لے گئیں اور عمر کو میں نے رکھ لیا ،،، اسی طرح سلسلہ سال بھر چلا !! آپا کے اپنے بچے بڑے تھے ، لیکن انھوں نے میری تکلیف کو دیکھتے ہوۓ اور مجھے آسانی دینے کے لۓ نئے سرے سے انتہائی چھوٹے بچے کی ماں بننا قبول کیا ،،،،،اور جب بچہ بیٹھنے ، بلکہ واکر میں بھاگنے دوڑنے لگا تو اپنی ڈیوٹی ختم کی ،،، بچپن کی اُن کی اِن بچوں پر محنت نے ہمیشہ انھیں محبت میں اولیت ملتی رہی ،،،، اور جب ان  جڑواں  میں سے"عمر" نے چھے سال کی عمر میں اللہ کے پاس جانے کا سفر اختیار کیا ، تو میرے ساتھ اس غم کو بانٹنے کے لئے آپا بطورِ ماں موجود رہیں بلکہ میں سمجھتی ہوں ان کی موجودگی سے اماں جی کی کمی محسوس نہ ہوئی ، اباجی ، بھائی جان جوجی ، اور بڑے بھائی جان ،،، ایسے لوگ تھے جن کی موجودگی  کا میرے زخم،مندمل کرنے میں بہت حصہ ہے ! اور یہ احسانات نہیں  بلکہ یہ وہ قدرتی ، دلی محبتیں ہیں جنھیں صرف دل والے ہی بانٹ سکتے ہیں ! اللہ ان سب کو اجرِ عظیم عطا کرتا رہے آمین۔
( منیرہ قریشی 17 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں