جمعرات، 14 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں" (11)۔

 یادوں کی تتلیاں" (11)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہمارے بچپن میں اباجی ہمیں مہینے میں ایک یا دو دفعہ نظر آجاتے تھے ،،، وہ ایک آدھ دن ٹھہرتے یا وہیں  گھر سے جی۔ایچ۔کیو آفس جاتے ، اس دوران اگر کوئی مہمان آجاتا جن کو وہ کمپنی دیتے اور مہمان پوچھ بیٹھتا بچے کس کس کلاس میں ہیں تو ان کے لیے  بتانا ذرا مشکل ہو جاتا ، کیوں کہ وہ گھر میں ہوتے ہوۓ بھی اتنے ذمہ دار فوجی تھے کہ گھر میں بھی کاغذات دیکھے جارہے ہوتے، اور فون سنے جا رہے ہوتے ،اباجی کی مصروفیت نے ہم سے بہت گپ شپ والا حال نہیں رہنے دیا ، ان کی بھی خوش قسمتی کہ بیوی حد درجہ ذمہ داراور خدمت گار ملیں ، لیکن جس پر دونوں میاں بیوی ہم مزاج، و ہم مشرب تھے،وہ تھی مطالعہ کی عادت۔ گھر میں اخبار نوائے وقت اور جنگ ، آتے اماں جی کے لۓ حور، اور زیب النساء ، الہلال ، خدام الدین ، اردو ڈائجسٹ ،،، اور ہم بچیوں کے لۓ بچوں کی دنیا ، اور تعلیم و تربیت رسالے اس باقاعدگی سے آتے جیسے مہینے کا راشن آنا لازم ہوتا ہے اور ان دنوں ہم بہت حیران ہوتی تھیں کہ ( کم زور مالی حالت کی اور بات ہے ) اچھے خاصے حیثیت والے لوگ نہ تورسالوں کے شوقین ، بلکہ اخبار تک نہ لگوایا ہوا ہوتاتھا ، اور ہمارے لۓیہ ایک معمول کی بات تھی ،،،، یہ تو ماہانہ رسائل تھے،،، ان کے علاوہ اباجی اور بھائی جان کے لۓ " ریڈرز ڈائجسٹ ! اور اماں جی کے لۓ " ابنِ صفی کے تمام ناول ، جو جوبازار میں آتے وہ لازما" گھر میں آجاتے ، شفیق الرحمٰن کی مقبولیت کا حال یہ کہ اس کے سیٹ کو مکمل ہونا چائیے ، نسیم حجازی کے اور ایم اسلم کے ناول بھی آرہے ہیں ،،، ذرا اور شعور آیا تو رضیہ بٹ ، اور اے ۔آر ۔خاتون کے ناول کوئی ایک بھی نہ چھوڑا گویا گھر میں الماریوں میں کپڑے ، برتن ،سے زیادہ کتابیں ہوتیں، ،، بعد میں راولپنڈی سے واہ کینٹ شفٹ ہوۓ تو پیکنگ کے وقت ، گھر کے ہم چار افراد تھے ، والدین اور ہم دونوں ، ہمارے کپڑوں کے بھی چار سُوٹ کیس تیار ہوۓ ،لیکن بڑے بڑے آٹھ بکس کتابوں کے بھرے گئے ! اور جب لاتعداد رسالے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہیں  چھوڑنے کا فیصلہ ہوا تو ہم سب کا دل غمزدہ ہو گیا ! وہ ہمارا ذاتی گھر تھا جسے1956، 57 میں جب خریدا گیا تو اماں جی نے اپنا سارا زیور ،، اور جیسا کہ اس زمانے میں رواج تھا بیٹی کی پیدائش کے بعد مائیں بچت کر کر کے ایک آدھ زیور بنوا لیتٰیں ، وہ بھی سارا بیچا گیا اور کسی طرح یہ گھر خریدا گیا۔حالانکہ ابا جی اس بات پر بہ ضد تھے،کہ ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں ہی جا کر رہیں گے لیکن اماں جی کی سوچ اور تھی ، اسی لۓ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ اماں جی کی سوچ 20 ،25 سال آگے کی ہوتی تھی ، اس بات کا احساس اباجی کو اس وقت ہو گیا جب یہ گھر کراۓ پر لگ گیا،اور معمولی ہی سہی لیکن ایک مزید آمدن ہونے لگی ،،، اور مزید کتابیں بھی خریدی جانے لگیں ! ۔
اباجی ، ایک عجیب انسان تھے ، کہاں تو بارعب فوجی اور "پہلے دونوں" "بچوں پر خوب رعب رہا لیکن جوں جوں ہم بڑی ہوتی گئیں، ان کی نرم دلی کا یہ عالم ہوتا گیا کہ ہم نے بہترین انگریزی فلمیں ان کے ساتھ سینما ہاؤس جا کر دیکھنی ، اماں جی بھی ساتھ ہوتیں ، ہمارا یہ حال کہ ایک لفظ سمجھ نہیں آ ریا لیکن جانا ضرور ہے ، اکثر تاش کی آسان گیمز اباجی نے سکھانی اور کھیلنی ،،اور مجھے آٹھویں پاس کرنے پرپہلی کلائی گھڑی جو بہت ہی خوب صورت تھی ، اور ساتھ میں پہلی ڈائری ملی کہ اب تم اچھی اردو لکھ لیتی ہو روزانہ اپنے روٹین کو لکھو ، یہ خوب صورت گھڑی میرے پاس اب بھی ہے اور جب میری پیاری بیٹی کی شادی ہوئی تو میں نے اسے یہ ہی گھڑی دی ! ،،، یوں میں نےڈائری کا آغاز 1964 ء میں کیا جو پہلی ڈائری تھی یہ سلسلہ 1972ء تک چلا اور اس کے بعد میری دلچسپی بھی ختم ہو گئی اور اُس وقت لکھنے کا رحجان بھی بدل گیا اور ٹوٹی پھوٹی شاعری پر دل جم گیا ! اس شوق میں بھی 100 فیصد اباجی کا ہاتھ تھا۔
جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکی ہوں کہ اباجی جوانی سے ہی شاعری کا ذوق رکھتے تھے گھر میں ان کےجوانی کے دور میں آغاجی بھی باذوق بندے تھے اُن کے احباب میں بھی شاعر یا ادیب رہے اور بیٹا تو تھا بھی شہر میں ،، یہ ذوق اور پروان چڑھا ،،، مشہور شاعر عبدالحمیدعدم ، کی محفل میں اکثر جاتے اور پنجابی کے زیادہ اور اردو میں کم لکھنے والے شاعر " افضل پرویز " ان کے 'بیسٹ فرینڈ " تھے افضل پرویز بھی ہمہ جہت شخصیت تھے ،، جن کی زمانے نے وہ قدر نہیں کی جیسی ان کی قدر ہونی چاہیے تھی ،،، وہ بیک وقت ، ریڈیو میں پروگرام کرتے ، شاعری بھی چل رہی ہے اور نثر بھی لکھی جا رہی ہے اور سب سے اہم بات کہ موسیقی کے ماہرین میں ان کا شمار ہوتا تھا ! ان کے گھر کبھی کبھار جانا ہوتا تو نہایت چھوٹی سی بیٹھک میں بہ مشکل ایک چھوٹا ساصوفہ ، ایک میز اور کونے میں ایک چھوٹے میز پر بڑا سا ستار پڑا ہوتا ، اور کارنس کتابوں سے بھری ہوتی ، جس دور میں ہم جاتیں تھیں ، افضل چاچا کے دو یا تین بیٹے باہر ملک جا چکے تھے اور دو بیٹیاں بیاہی ہوئی تھیں ، جن میں سے ایک کبھی آئی ہوتی تو نظر آجاتی۔ ہماری نادانی کی عمر تھی ان دونوں دوستوں کی باتوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ ہم ان کے گھر میں باتیں کرنے والے طوطے کی وجہ سے خوشی سےچلی جاتیں ، افضل چاچا کی بیوی ان کے مقابلے میں حسین عورت تھیں اوراس لیے وہ اپنی بیوی کے عاشق تھے۔
ان ہی افضل چاچا نے ایک دن ابا جی کو ڈانٹ کا خط بھی لکھا ( افسوس ہمارے پاس اب کوئی ریکارڈ نہیں رہا) " ظفر ، تمہیں کیا ہو گیا ہے اپنے اندر کے شاعر کو تم نے کیوں سُلا دیا ہے ، تم وہ ہی ہو جس کی شاعری میگزین میں چھپا کرتی تھی اور تمہارا یہ مشکل بحر میں لکھی غزل کا اب ایک ہی شعر یاد ہے جو لکھ کر تمہیں یاد دلا رہا ہوں کہ دوبارہ لکھنا شروع کرو ،،، وہ شعر یہ تھا ؎
اباجی نے یہ خط بہت دن سرہانے کی میز پر رکھے رکھا اور اکثر پڑھ لیتے ،لیکن ان کے اندر شعر کہنے کا " جذبہ " ماند پڑ گیا تھا لیکن شعرذوقی آخیر تک رہی ،،، اپنے آخری دورِملازمت میں جب وہ صدرجنرل ایوب خان کے سیکیورٹی آفیسر رہے، تو اس دوران قدرت اللہ شہاب ، سے ان کا اکثر واسطہ اور کام پڑتا ، مشہور شاعر جمیل الدین عالی صاحب سےتو ان دنوں خوب محفلیں  جمتیں ۔اور اباجی بہت ہی نہال رہتے ،اپنی جوانی کے دور میں شاعری میں " خالد " تخلص رکھا تھا ! ،،، اسی دوران ممتاز مفتی صاحب سے بھی کچھ ہیلو رہی ،اور جب ایک عرصہ گزرا کہ مجھے مفتی صاحب سے ملاقاتوں کا موقع ملا اور جب میں نے انھیں بتایا اور یاد دلایا کہ میں میجر ظفر کی بیٹی ہوں تو فوراً  اندر گئے اور اپنی کتاب ( جوں ہی مجھے وہ کتاب ملی اس کے پہلے صفحے کا عکسی فوٹو اس میں شامل کر دوں گی) پر یہ لکھا " اپنے یار ظفر الحق کے لۓ ، " اور نیچے اپنے  دستخط کیے ! اس وقت جب میری ان سے ملاقاتیں ہوئیں وہ نوے کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن ملاقاتیوں کا وہی رش جو ایسے لوگوں کے
پروانوں کا ہوتا ہے اور وہی ادبی محافل گھر کے ہی ڈرائنگ روم میں سجی ہیں ،،،۔
میں اس موضوع پر الگ سے لکھی ہوں گی ( بہ شرطِ زندگی) کیوں کہ مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کے کم ہی مواقع ملے لیکن یہ جھلکیاں بھی بہت کچھ سکھا جاتی ہیں ،،،،،،،،،۔
اباجی کے باذوق ہونے کے سبب ہمیں بھی کچھ ایسے مواقع ملے جو ہماری عمر یا دور کی لڑکیوں نے سوچے بھی نہ ہوں گے ، واہ کینٹ شفٹ ہونے کے بعد اس کے آرڈیننس کلب میں ممبر شپ ہوئی اور اس کی مختلف تقاریب میں جانے کے مواقع ملنے لگے اس وقت میں نویں میں اور جوجی آٹھویں میں تھی۔ بی۔ اے تک یہ سلسلہ رہا پھر زندگی کی دوسری مصروفیات شروع ہو گئیں ، اباجی کے ساتھ کلب میں شاندار مشاعروں میں شرکت کے مواقع ملے اور ایسا دو مرتبہ ہوا ۔ ان مشاعروں کا انعقاد کلب انتظامیہ کرتی جو ہر دو سال بعد ووٹ کے ذریعے منتخب ہوتی ، ان دنوں جو سیکرٹری ہوتا اسکے دور میں جس قسم کے فنگشن ہوتےوہ دراصل اس کے ذوق کی عکاسی کرتا ، اتفاق سے جن دنوں " انیس " صاحب جن کو ہم سب انیس بھائی کہتے ہیں ،، سیکرٹری منتخب ہوتے ،ہر دفعہ وہ کارنامے کر ڈالتے ، انہی سالوں میں جو گرینڈ مشاعرہ ہوا ، وہ " جوش ملیح آبادی " کی زیرِصدارت ہوا ، اور اس میں احمدندیم قاسمی ، احمد فراز ، احسان دانش ِ محسن احسان ، صفیہ شمیم ملیح آبادی ( جوش صاحب کی بھانجی ) اور اتنے ہی اور نامور شعراء نے کلام پڑھا اور ہم دونوں بہنیں بھی اباجی اور اپنی کچھ سہیلیوں کے ساتھ رات گۓ تک بیٹھیں رہیں ، اگر اباجی ہمیں یہ " تحفظ ، آزادی ، اور آسانی " نہ دیتے تو ہم کبھی بھی گھٹی سوچ سے نہ نکل پاتیں ، اسی مشاعرے میں اباجی نے اجازت دی اور اُن سبھی شعراء سے آٹو گراف لۓ ، ۔ ایسے اور بھی مشاعرے ہوتے اور ہمیں سننے اور ان شاندار لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملتا رہا ، اس دوران ایک دفعہ مشہور گائک " استاد امانت علی خان ، استاد فتح علی خان " کے ساتھ شام منائی گئی اور ایسے لوگوں کو سامنے بیٹھ کر دیکھنا اور سُننا بھی الگ ہی تجربہ ہوتا ہے ،،،،،، بعد میں کلب میں آنے والی ایک " مخصوص مزاج " کی بیگمات پر میں نے ایک مضمون لکھا ، جس کا عنوان تھی " بطخیں " جو میری نو جوانی کی پہلی کوشش رہی ! جسے میں نے عرصہ تک اس خیال سے چُھپاۓ رکھا کہ مذاق نہ اُڑایا جاۓ ،، اتفاق سے وہ اب بھی موجود ہے اور کبھی شیئر کروں گی۔
اباجی کے سب بہن بھائی کچھ نہ کچھ پڑھ گئےلیکن ، ان میں سے کسی میں ادبی ذوق ان جیسا نہ پنپ سکا کہ وہ خود بھی لکھتے ، البتہ اباجی کے علاوہ ان کی ایک چھوٹی بہن اقبال بیگم نے اپنے گھر مطالعہ کتب کا سلسلہ جاری رکھا یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے بچے مطالعہ کی عادت سے جُڑے رہے ۔اور ایک وجہ میرے پھوپھا کے با ذوق ہونے کی بھی رہی ۔
جن دنوں اباجی پہلے مارشل لاء (56ء) میں بطورِ کیپٹن کراچی میں تعینات تھے ۔ تو اور سخت چیکنگ میں بےچارے نہایت معمولی دکانداروں اور ریڑھی والوں کی بھی سختی آئی رہتی ۔ اباجی نے یہ قصہ ایک دن سرسری سا سنایا لیکن اماں جی نے تفصیل سے بتایا ،،، اباجی اور اماں جی نے کبھی بھی اپنی نیکیوں کا پرچار نہیں کیا خاص طور پر اباجی بہت ہی اعلیٰ ظرف انسان تھے، ،، بہرحال وہاں کراچی میں ایک ریڑھی والے کو جو کباڑی تھا ، پکڑا گیا کہ جی اس نے ابھی تک پاس نہیں بنوایا ! وہ دوسری دفعہ پیش ہوا تھا اباجی نے اس سے وجہ پوچھی تووہ اتنا سادہ اور ان پڑھ تھا کہ اپنی بات میں صرف اتنا واضح کر سکا کہ جی 4، 5 بیٹیاں ہیں ، یہ ٹین ڈبے بیچ کر گزارا کرتا ہوں ، اباجی کو اس سے ہمدردی ہوئی اور انھوں نے کہا " یہ پاس لے لو ،" کرنا ہے تو کچھ بڑا کام بھی کرو تاکہ گزارا اچھا ہو ، فلاں دن سمندر کنارے ایک جہاز ، سکریب کی بولی لگ رہی ہے کچھ تم بھی وہاں سے کماؤ !" کافی مہینے گزر گۓ ، ایک دن خوشی محمد ،، خوشی خوشی حاضر ہوا ، اور مٹھائی کا چھوٹا سا ڈبہ حاضر کیا کہ مجھے سکریب سے ان 8 ،، 9 ماہ میں اتنا فائدہ ہوا ہے کہ میں نے ایک چھوٹی سی دکان لے لی ہے اور اب وہاں بیٹھ کر دکانداری چلاتا ہوں۔ آفس کے سب لوگوں نے اسے مبارک دی ۔ اباجی کی اس دوران پنڈی پوسٹنگ ہو گئی ۔ ایک عرصہ گزر گیا اور پھر ہم واہ کینٹ آگۓ ،،، وہاں ایک دن اباجی ڈرائنگ روم سے اندر آۓ کہ تین بندوں کی چاۓ اور ساتھ کچھ بھیج دیں ، مہمانوں کے جانے کے بعد ایک بڑا ڈبہ مٹھائی اور کراچی کے مخصوص سوہن حلوے کے دو ڈبے اماں جی کو پکڑاتے ہوۓ کہا " اندازہ کرو کون آیا ہو گا ؟ " اور مسکراتے ہوۓ بتایا " خوشی محمد اپنے ایم۔ اے پاس سیکرٹری کے ساتھ آیا تھا ! اور اس وقت وہ اگر کروڑ پتی نہیں تو لاکھوں پتی ہو گیا ہے اور ماشااللہ سب بال بچے شادی شدہ اور اسی طرح مالدار ہو گۓ ہیں ، اس کی محبت کہ مجھے ڈھونڈتا ہوا یہاں تک آگیا کہہ رہا تھا" میں کوئی دن ایسا نہیں کہ آپ کے لۓ دعا نہ کرتا ہوں ،" ، اباجی نے بتایا اس نے شیروانی اور جناح کیپ پہنی ہوئی تھی ، چونکہ خود چٹا ان پڑھ تھا ، اب کاروبار پھیل گیا ہے تو پڑھا لکھا سیکریڑی رکھ لیا ہے ،،،، یہ اللہ کی شان ہے وہ جسے نوازنا چاہے !۔
لیکن ،،،،،، اس قصے میں مجھے وہ حدیث یاد آتی ہے " اچھا مشورہ بھی امانت ہے " ،،،، گویا اباجی کے دیۓ پُرخلوص مشورے کو اس نے بھی دل سے قبول کیا ۔ اور وہی لمحہ اس کے نصیب کی تبدیلی بن گیا !۔
( منیرہ قریشی 14 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں