منگل، 26 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " (18)

 یادوں کی تتلیاں " (18)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
بچپن کی یادوں کو دہرانے میں عجیب مزہ ہے یوں جیسے ایک دلچسپ کتاب کو کھولیں ، تو پہلے صفحے کے بعد صفحے الٹاتے جاؤ اور ، جزیات لیۓ واقعات کی فلم چلتی چلی جاتی ہے اور انہی میں کوئی اور کردار ہمیں مسکرا کر کہتا ہے " کیا میں تمہیں یاد ہوں " ،،، اور کچھ دیر کے غور کے بعد وہ کردار جو پہلے صرف چہرے سے نمودار ہوتا ہے ،، آہستگی سے پورے سراپے کے ساتھ سامنے آبیٹھتا ہے۔ 
ہم بہنوں کے پنڈی کے اس محلے میں زندگی کے13،14 سال ہی گزرے ،،، ظاہر ہے ان سالوں میں پہلے4 سال کی زندگی کو شامل کر ہی نہیں سکتی کہ نہ تو میں ذہین تھی کی اُس عمر کی کوئی یادیں محفوظ ہوتیں لیکن ، ایک آدھ واقعہ ایسا بھی ہوا ، جس کے درمیان کے کردار بعد میں بھی موجود رہے اور بعد کی کڑی کو آپا نے جوڑا اور یوں ہمیں اَن دیکھے لوگوں سے متعلق بھی علم ہوا ۔ مجھے یہ اچھا تو نہیں لگ رہا کہ میں بار بارکہوں کہ اماں جی غیرمعمولی صلاحیتوں سے مزین خاتون تھیں، لیکن مجھے اس میں حرج بھی محسوس نہیں ہوتا کہ میں اُن کی بہترین سوجھ بوجھ کا ذکر نہ کروں ،،،،، جیسا میں نے کئی جگہ لکھا ہے کہ وہ رقیق القلب خاتون تھیں ، نیز ان میں تعصب نہیں تھا ، وہ دوسرے کی اچھی خوبی کا کھلے دل سے اعتراف کرتیں ، چاہے وہ کسی بھی علاقے ، زبان ، طبقے سے تعلق رکھتا ہو ۔ انھیں دوسروں کا انہی بنیادوں پر مذاق اُڑانا قطعی پسند نہ تھا۔ ،،،،،،،،
اس محلے میں کچھ اچھے خوشحال لوگ تھے ، کچھ درمیانے خوشحال ، کچھ سفیدپوش ، اور بہت تھوڑے سے غریب ،،،، اور ایسے ہی غریب گھرانے کے مختلف افراد، انہی خوشحال گھرانوں, میں نوکریاں کرتے، اور اپنی روزی کماتے ،،، انہی میں سے ایک گھرانے کی دو لڑکیاں ہمارے گھر کے کام کرتیں ، ان کی ماں انھیں روزانہ ملنے آتی ، اور اماں جی سے کچھ دیر گپ شپ لگا کر چلی جاتی ، ( یہ واقعہ آپا کی زبانی ہے ) ایک دن اس نے اماں جی کو بتایا ، ہماری کوٹھڑی کے ساتھ کی کوٹھڑی میں ایک شریف گھرانہ کچھ دن پہلے آیا ہے وہ بیوہ ہے اور چار بچے بھی ہیں ، وہ بہت تاکید کر رہی ہے کہ مجھے جلد از جلد کہیں برتن یا کپڑے دھونےکی نوکری دلوا دو ، اور آج تو وہ رو پڑی تھی کہ بچے دو دن سے بھوکےہیں کسی طرح کوئی نوکری کرواؤ ۔ اماں جی پوری طرح متوجہ ہو گئیں۔معلوم ہوا کہ وہ فوج کے صوبیدار کی بیوی ہیں ، لیکن وہ دوسری بیوی تھیں ، اور صوبیدار صاحب اچانک فوت ہو گۓ ، اور چوں کہ ان کے کاغذات پر پہلی بیوی کانام  درج تھا اس لۓ فوج کے رولز کے مطابق سب پیسہ ، پنشن اسی کو ملا ، یہ اپنے پیچھے سے بھی غریب تھی ، سر چھپانے ، ہماری کوٹھڑیوں میں سے ایک میں آگئی ہے ، اماں جی نے فوری طور پر جو کھانے پینے کا سامان ہو سکا اسے دیا اور اسے کہہ دیا، کسی اورکو یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں نے کچھ دیا ہے ! اور اماں جی نے اگلے دن اسے آنے کا کہا ، اگلے دن وہ آئی اور وہ ایک 35 40 سالہ، سادہ سی ، مسائل میں گھری عورت تھی جسے اچانک حالات نے سڑک پر لا کھڑا کیا تھا ، ،،، اس سے آگے مجھے معلوم نہیں کہ اسے حالات کی دلدل سے نکالنے کے لۓ انھوں نے کیا کیِا ، لیکن اتنا آپا کو یاد تھا کہ بہت ہفتوں تک رات کے وقت اردلی ،وہ عورت جسے " سیما کی ماں " کہہ کر بلایا جاتا تھا ، کے لیےایک دیگچی سالن کی اور رومال میں کافی روٹیاں ، جاتی رہیں ،،، اماں جی نے ایک باعزت عورت کی مدد بھی ایسے طریقے سے کی کہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو ،،،، لیکن میرا پکا خیال ہے کہ اُنھوں نے اپنی پرجوش ، اور ہمدرد فطرت کے تحت ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ پروجیکٹ ادھورا چھوڑا ہو ۔
اسی محلے میں ایک گھر تھا ، جس کی نچلی منزل پر ایک دو کمرے ہوں گے لیکن اس کی ڈیوڑھی میں اندھیرا ہی رہتا البتہ اوپر کی منزل میں ان دو جوان ( آدمی لکھوں یا لڑکے ) بندوں کی آمدو رفت رہتی ،، وہ دونوں بہت خوش شکل اور خوش لباس تھے ، ، ان کی عمریں اس وقت 30 ، اور 35 کے درمیان تھیں ، اگر کبھی ان کا سامنامحلے کی کسی بھی عورت سے ہو جاتا ، تو وہ بہت ادب سے سلام کرتے ، حال پوچھتے اور اللہ حافظ ،،، بہت بعد میں پتہ چلا یہ ایک ایسا ہندو گھرانہ تھا ، جنھوں نے ہجرت سے انکار کر دیا یہ ان کا ذاتی گھر تھا اور ان کی بزرگ والدہ بھی ان کے ساتھ تھی ، اگرچہ والدہ نے اسلام قبول نہیں کیا اور دونوں لڑکوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ، لیکن ان کی والدہ کو اگر کسی نے دیکھا بھی تھا تو چند پڑوسنوں نے یا گھریلو ملازمہ نے ،،، ان کے مطابق وہ بھی خوب صورت خاتون تھی ،، میری یادوں کی تصویروں میں اس خاندان کی تصویر مدھم نہیں ہوئی ،، کاش مجھے ان کے بارے میں کچھ اور علم ہوتا تو لکھتی کہ صرف انڈیا سے نہ ہجرت کرسکنے والے مسلمان ہی نہ تھے ایسا ،قدم کئی ہندوؤں نے بھی اُٹھایا تھا ۔
اہمارے محلے کے ساتھ ایک بہت مناسب سائز کا میدان تھا ، جہاں اکا دُکا قبریں بھی تھیں جن پر کوئ تختی نہیں تھی ،حالانکہ یہ قبریں پختہ اور اچھے اندازسے گولائی میں بنی ہوئی تھیں ، ہمارے وہاں قیام کے دوران ہی قبریں غیر محسوس طریقے سی ہموار ہوئیں  اور نام ونشان بھی نہ رہا ،، اسی میدان کو پار کر کے مری روڈ تھی اور سڑک پار بھی ایک پرانا قبرستان تھا جسے " شاہ کی ٹالیاں کا قبرستان " کہتے ہیں ، وہاں کا ایک انچارج تو کوئی بابا تھا اور مستقل بسیرا ایک " مخنث " کا تھا ، جس کا نام " سکھو" تھا ،،، یہ خوب اونچا لمبا اور پیٹ نکلا قدرِموٹا، آدمی تھا ، آدمی میں نے اس لۓ لکھا ہے کہ اس نے ہمیشہ مردوں والے کپڑے ( شلوار قمیض ) پہنے ، اس کے ذرا تھوڑے بڑے بال ہوتے جو مجھے کبھی کنگھی کیۓ نظر نہ آۓ ،، اس کے منہ پر چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی ہوتی ، اور اس گیٹ اپ کے ساتھ وہ ایک زنانہ ، بد رنگا ڈوپٹہ سر پر ایسے انداز سے لۓ ہوتا کہ اس کا آدھا چہرہ بھی چھپا ہوتا جیسے وہ داڑھی چھپانے کا تکلف کر رہا ہو ،یا یہ اس کی عادت بن چکی تھی اور دوپٹے کا ایک کونا منہ میں دباۓ رکھتا ! ،،، ابھی تک اس گروہ کے بےشمار لوگ دیکھے ہیں لیکن،سکھو میرے خیال میں واحد "کھسرا" تھا جس نے اپنے آپ کو کبھی عورتوں والے حُلیے میں لانے کی پرواہ نہیں کی، نہ ہی کبھی اس نے کوئی میک اپ کیا ، نہ وہ خود کو" شی " کی صنف سے پکارتا ،،، لیکن اس کا بات چیت کا انداز ، اور مردوں میں نہ بیٹھنا ، اور پاٹ دار آواز میں گانے کی کوششیں کرنا اورخود کو مرد کہہ کر پکارتا ۔ اس کی کیا کہانی تھی کچھ خبر نہ نہیں، ایسے افراد کی کہانیوں میں " اکلاپے " کا عجیب اور شدید دکھ بہر حال ہوتا ہے ، وہ روزانہ ہمارے محلے میں آتا اور اس کی پاٹ دار آواز سے ہم بچے گھبراتے بلکہ ڈرتے تھا ، بچوں کو اسے " سکھو ماسی " کہہ کر بلانے کا حکم تھا، اور وہ اس بات کو قبول کۓ ہوۓ تھا ، جس گھرانے میں چاہتا بلا اجازت داخل ہوجاتا ، زیادہ سے زیادہ اونچی سی کھانسی کر کے اندر چلا جاتا ،سبھی اُس کے اس طرح صحن میں آجانے سے نہ گھبراتے ،، بلکہ اگر گھر کی خواتین صحن میں کپڑے دھو رہی ہوتیں تو وہ بھی 10، 15 منٹ کے لۓ ان کے کپڑے کوٹنے ، یا بڑے سے گرم پانی کے دیگچوں کو مزید بھر دیتا ،،، لیکن اس دوران اس کی فالتو قسم کی باتیں چلتی رہتیں ، اس گھر کی کوئی خاتون جا کر اس کےلۓ کچھ کھانے کو لا دیتی تو فورا" اللہ بیلی ، کہہ کر روانہ ہو جاتا کیوں کہ اسے بہت سے اور گھروں میں جانا بھی ہوتا تھا دوسرے یہ لوگ مشقت کے عادی نہیں رہتے ! لاکھ بلانے پر بھی نہ رُکتا ، ،،، اس محلے میں کوئی شادی ہوتی یا کوئ بچہ پیدا ہوتا تو اسے کچھ گانے بجانے پر مل جاتا لیکن اس کی آواز اتنی پاٹ دار اور بےسُری تھی کہ اسے گانے سے زیادہ جُگت بازی کے لۓ روکا جاتا ،،،، ہر کوئی اپنے مزاج اور عقل کے مطابق اس سے مذاق کرتا وہ بھی پورا پورا جواب دیتا یہاں میں پھر اماں جی کی فہم کی داد دوں گی ، اول تو وہ بہت آنا جانا نہیں رکھتی تھیں ، پھر وہ برقعہ بھی لیتیں تھیں اور تیسرے ہمارے گھر باہر گھنٹی بنجا کر داخل ہونے پر فورا" سامنا اردلی سے ہوتا تھا ،، ان باتوں کی وجہ سے اس کا اماں جی سے آمنا سامنا محض شادیوں تک تھا ، اماں جی نے صرف اتنا پوچھنا " سکھو کیا حال ہے ؟ " سب خیر ہے " اوراس نے اس مہذب انداز کے جواب میں ہمیشہ مہذب انداز سے ہی کہنا " آپاں جی ، تُسی ٹھیک ہو نا " ، اور بس بات چیت ختم ، گنی چنی دفعہ اس نے اماں جی سے ملنے کی خواہش کی اور وہ بھی نذیر اردلی کی اجازت سے ، ڈیوڑھی کے اندر آکر دائیں طرف بنی پہلی دوسری سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا کوئی مسئلہ بیان کیا اور چلا گیا ، اس دوران نذیر نزدیک ہی رہتا ، اماں جی نے اسے چاۓ پانی کا پوچھنا لیکن اس نے مہذب انداز سے منع کر دینا ، یہ ملاقات ، 7یا8 منٹ کی ہو اور وہ چلا جاتا ،، اس عمر میں اُس منظر کو سوچتی ہوں تو مجھے یہ لگتا ہےکہ وہ جب عزت سے بلاۓ جانے کا بھوکا ہوتا تھا تو اماں جی سے چند منٹ مل کر چلا جاتا ، کیوں کہ اماں جی نے ایسے لوگوں کا کبھی مذاق نہ اُڑایا ،،، اور نہ ہمیں مذاق اُڑانے کی اجازت دی ۔بعد میں ہم واہ آگۓ اور چند سال بعد سکھو کے مرنے کی خبر ملی ۔ پتہ چلا اس کے جنازے میں کافی لوگ تھے ! اور اسے اسی قبرستان میں دفنایا گیا۔ اللہ سب کی مغفرت کرے اور پردہ پوشی کرے آمین ۔
ہماری زندگیوں میں یہ لکھ دیا گیا کہ ہم نے کہاں کس وقت پیدا ہونا ہے ، کیا چیز اور کہاں سے خوراک آۓ گی جو ہمارے معدوں میں اُترے گی، کن لوگوں کے درمیان پل کر بڑے ہوں گے ، اور کن کرداروں کے کتنے اثرات ، کتنی دیر تک ہم لیں گے یا لیتے رہیں گے ،،،،،، کاش ہم بےشعوری کی حرکات پر جلد قابو پا لیں اور دلوں کو پالش کرتے ہوۓ جلدی جلدی ، اس سطح ء ذہانت ، فطانت ، تک پہنچ جائیں جس کا تقاضا ، قدرت ہم سے کرتی ہے ، لیکن ہم اپنی اچھی صلاحیتیں دوسروں کا مذاق ، اُڑانے ، یا ان کی شکلوں ،رنگت ، اور کھانے پینے کے انداز کو اتنا ڈسکس کرتے چلے جاتے ہیں کہ شعور کی ریل" فہم کی پٹڑی "پر چڑھ ہی نہیں پاتی ،، تب ہم اکثر یہ جملہ بولتے رہتے ہیں ، " پتہ نہیں لوگ کیسے ،، ایسے ،، رہ لیتے ہیں "" بھئ ہم تو ایسے نہیں رہ سکتے وغیرہ،،،،،،،وہ جو انگریزی کوٹیشن کا ایک جملہ ہے " کہ عام ذہن کے لوگ ، صرف لوگوں کو ڈسکس کرتے ہیں"۔ 
یقیناًہم سب کےسبھی بزرگ عالم ، فاضل یا آئیڈیل نہ تھے ، نہ ہی وہ قدرتی ذہین تھے کہ ہم ، ضرور انھیں " فالو " کریں لیکن ان کی کوئی ایک آدھ خوبی کو لیا جاۓ باقی ہم اپنے آس پاس تو دیکھیں ، یہ کون ہے ،وہ کیسا ہے ، یہ کیوں اتنا بزلہ سنج ہے ، اسے کیوں ہر مسئلے کے حل کے لۓ بُلایا جاتا تھا یا ہے ،،، کچھ خوبیاں تو ہیں، ایسے لوگوں میں ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ان کی منفی عادتوں کے باعث ، انھیں یکسر کسی کھاتے میں ہی نہ گردانا جاۓ۔ اسی لۓ ہمیں آج اور ابھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم سے غلطیوں کا مارجن ذیادہ تو نہیں ہو رہا؟ کہیں ہم اپنوں کی یادوں سے جلدمحو تو نہیں ہو جائیں گے،،۔
ہماری اماں جی خود اگر کسی اورسے متاثر ہوتیں تو صرف اگلے کی ذہانت سے ! بعینٰہہ یہ ہی عادت آپا کی تھی ،فوجیوں کی" ذاتی زندگیاں" ذرا ایک اور ردھم سے چلتی ہیں ،خواتین میں فضول سی  مقابلہ بازی رہتی ہے جو میچور خواتین کے لۓ قابلِ قبول نہیں ہوتیں ، اور آپا اس تالاب کی کبھی تیراک نہ بن سکیں ، انھوں نے جس پہناوے کو مناسب جانا وہی پہنا ، جس تنخواہ میں اچھے، باوقار طریقے سے گزر ہو سکا وہ ہی اپنایا ۔وہ کسی نئی نویلی دلہن کو ملتیں جس کی فوجی سے شادی ہوئی ہوتی تو وہ اسے یہ ہی کہتیں " مصنوعی طرزِ زندگی سے دور رہنا ، سکھی رہوگی !" ہم ان کی اُن باتوں پر اس وقت غور ہی نہ کرتیں ، بعد میں آپا نے خود ہی کہا تھا میں کسی کے عہدے ، شکل ، یا امارت سے کیوں " امپریس " ہوں ،یہ ایسی متاثر کرنے والی خوبیاں نہیں ،،، اور یہ ان  ماں بیٹی کی مشترکہ خوبی تھی کہ وہ لوگوں کی ذہانتوں سے متاثر تھیں ، چاہے وہ کسی بھی طبقۂ فکر سے تعلق رکھتا ہو ۔ الحمدُللہ ۔
( منیرہ قریشی 26ستمبر2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں