پیر، 4 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " ( 6 )۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 6 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آج یادوں کی تتلیاں پھر میرے والدین کے گرد اِٹھلا اِٹھلا کر اُڑ رہی ہیں ۔ اور ویسے بھی ان کے ذکر کے بغیر میں ادھوری ہوں ، باقی کیا کہنا !اماں جی بہت جوانی سے بیماریوں سے لڑتی رہیں ، لیکن کیا مجال کہ ان میں بدمزاجی آئی ہو،دنیا میں مجھے اب تک جو تجربات انسان ملے ہیں میں سمجھتی ہوں وہ چند بہت ذہین لوگوں میں سے تھیں ، ان کی ذہانت کو ان کی سوتیلی ماں نے جو "کومپلیمنٹ" دیا ، وہ یہ تھا کہ " کاش عزیزہ بیگم تم کہیں اور پیدا ہوئی ہوتیں اور میں تمہیں اپنے بہو بنا کر لاتی " ،،،، اماں جی کی والدہ ، ان کی تین سال کی عمر میں جُدا ہوگئی  تھیں یہ اور ان کی بڑی بہن اپنی دادی اور پھر اپنی دوسری والدہ کے زیرِ سایہ پلی بڑھیں ! سوتیلی کا لفظ محض وہاں خانہ پُری کے لۓ تھا ورنہ ہماری نانی اپنے اور پہلے بچوں کے ساتھ با لکل یکساں سلوک رکھتیں ، بلکہ اکثر مشاورت اسی ذہین بیٹی سے کرتیں ۔ ان کی شخصیت بھی عجیب ہی تھی وہ خوب ہنسی مذاق کے موڈ میں رہنے والی ، جو دل میں ہے وہی زبان پر ،، کھاؤ پیو ، خوش رہو ، کی پالیسی پر گامزن ،اپنے چھ بچوں ، اور پہلی دو اولادوں کو ایک نظر سے دیکھنے کا ظرف رکھنے والی تھیں ،، اماں جی کو ان کی یہ ہی خوبیاں پسند تھیں  لیکن 
اپنی" ماں"کی کمی کو دل کے کونے میں ہمیشہ محسوس کرتیں رہیں ! یہ ہی وجہ تھی کہ جب کسی بڑے یا بچے سے ملتیں جس کی ماں نہ ہو، تو ذیادہ توجہ ، اور اسے ذیادہ اہمیت دیتیں اور کئی دفعہ لوگ انکی اس کمزوری سے غلط فائدہ اُٹھاتے !! اپنی زندگی وہ خود غرض ہو کر گزار ہی نہیں سکیں !ہمیشہ دوسروں کی مدد ، مالی ، زبانی ، اور آگے بڑھ کر سفارش کرنے میں پیش پیش رہیں ،،، اباجی جب واہ کینٹ میں چیف سیکیورٹی آفیسر ہو کر آے تو ، اپنے یا میکے کے گاؤں سے کوئی نوکری یا علاج کی مدد کے لۓ آتا ، مجھے نہیں یاد کسی کو انکار کیا گیا ہو ان کے پاس اباجی کا حوالدار کسی کام کا پوچھنے آتا تو اسے اکثر ایک چٹ پکڑا دی جاتی " حامل ھذا کو کہیں نوکری پر لگوا دیں " حوالدار خوشی خوشی یہ چٹ اباجی کو آفس میں دیتا تو اباجی اکثر ہمیں کہتے " سیکیورٹی آفیسر تو تمہاری اماں ہے ، جس کا حکم سب خوشی سے مانتے ہیں " ،،،میں تو بس دستخط کرنے والا ہوں ،،، اماں جی کی یہ دریا دلی اور دوسروں کی مدد ،، کبھی یکطرفہ نہ چلتی اگر اباجی کا تعاون ، اور کھلا دستر خوان کا ظرف نہ ہوتا، اباجی کا واہ کینٹ کا دور 1964ء سے شروع ہوا اور1973ء تک رہا،، لیکن اماں جی کی دوسروں کی مدد کرنے کا وہی عالم رہا ،،وہ کسی زمانے میں کپڑے اچھے سی لیتیں تھیں ، ان کی کمزوری نے سلائی تو چھُڑا دی لیکن ان کی لاجواب ایمبرائڈری ان سے نہ چھٹ سکی چونکہ کچن میں جانے سے بھی ڈاکڑ نے منع کیا ہوا تھا ( انھیں سانس کی شدید تکلیف رہتی )اس لیے بہت اہتمام سے صبح پلنگ آراستہ کر کے بچھایا جاتا ( موسم کے مطابق ) اور ہمارے لیے بیڈ کورز ، اور ساڑھیوں پر پھول بوٹے کاڑھے جاتے ،،ایک ٹرانسسڑ پاس رکھا ہوتا وہ بھی سن رہی ہیں اور اگر کوئی پڑوسن ،، یا کوئی مہمان آ گیا تو گپ شپ بھی ،چاۓ چلتی ، مسئلے مسائل پوچھے اور حل سوچے جاتے اگر کوئی "پرانی فقیرنی " یا فقیر بابا آجاتے تو ان کے پچھلے دکھ سکھ سنے جاتے ، نہ صرف پیسے دیۓ جاتے بلکہ ان کی فرمائش پر مکئی کی روٹی اور لسی ان کے ساتھ جاتی ( کیوں کہ ہمارا گھر اماں جی کی زندگی میں بھینس کے بغیر نہ رہا یہی وجہ تھی کہ ایک الگ بندہ اسکی خدمت کے لۓ ہوتا اور جب وہ صبح دہی کی لسی بنا چکتا تو محلے کے لسی کے شوقین ،،یا سرونٹ کواٹرز والوں کے 20 ،25 برتن لائن سے لگاۓ جاتے اور افرادِ خانہ کے حساب سے لسی بانٹی جاتی انہی میں ان فقیروں کا حصہ بھی ہوتا جو مستقل کے آنے والے تھے ،،ان فقیروں کی لمبی اور اداس کہانیاں اماں جی د لجمعی سے سنتیں ، جب وہ چلے جاتے تو میں انھیں اکثر کہتی " میرا خیال ھے ناناجی نے آپ کو بادام کی بوریاں بھر بھر کھلائی ہیں اسی لۓ آپ اپنا مغز ان پر بھی خرچ کرتی ہیں کہتیں " کسی کا دکھ سن لینے سے اس کا دل ہلکا ہو جاتا ہے تو میرا کیا خرچ ہوتا ہے " ،،،،گویا وہ بہترین " کونسلر " تھیں بہترین " سننے والی" تھیں ،،،آج ہمارے پاس کوئی ہمارے اپنے لیول کا بندہ بھی بیٹھ کر اپنا دکھ شیئر کرے تو چند منٹوں بعد ہمارے چہرے پر واضح اکتاہٹ آ جاتی ہے ، ہم آج صرف خود کو خوش رکھنے کے چکر میں رہتے ہیں اور پھر بھی خوش اور مطمئن نہیں ہو تے،،، اور فقیر کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔
اماں جی ، دبنگ عورت تھیں ،جرات ،بہادری کےاوصاف نمایاں تھے وہ تعلیم کی ، اتنی دلدادہ تھیں کہ کوئی عورت یا مرد ان کے پاس کسی کام سے آتے تو پوچھتیں " بچے سکول جاتے ہیں ، اگر وہ کہہ بیٹھتا نہیں جی تو پورا لیکچر ملتا ،،، اور سختی سے کہا جاتا فورا" سکول داخل کراؤ ،،، بچوں کو پڑھاؤ بھلے ایک وقت کھانا کھاؤ ،، بھلے ننگے پاؤں ہوں !!! اگر کاپیاں کتابیں لے کر دینی ہیں وہ لے دیتیں اور فیس تو اکثر بچوں کی جاتی ،،، اور اگر کوئ جوان لڑکا کماؤ آجاتا تو پہلی ملاقات میں پوچھ لیتیں " گھر بنانے کا کیا سوچا ؟ ظاہر ہے اس کے پاس نہ گنجائش ہوتی یا وہ ابھی اپنی تنخواہ انجواۓ کرنا چاہ رہا ہوتا ، لیکن اماں جی کا حکم ہوتا " کمیٹی ڈالو اور جب جب نکلے میرے پاس جمع کراؤ ، مناسب پیسے جمع ہو جاتے تو اباجی کے حوالدار کو حکم ہوتا اس کے لۓ زمین جلد از جلد دیکھو، زمین کی خوش خبری ملتے ہی اباجی سے درخواست ہوتی " باقی لکھت پڑت کا کام آپ اس لڑکے کو لے جا کر مکمل کر دیں " اور یوں گھر بیٹھے انھوں نے لوگوں کے گھر بنواۓ ، بچے پڑھواۓ ، نوکریوں کے لۓ سفارشیں کیں ،،، جب وہ فوت ہوئیں تو ہمارے گھر کا پورچ ،، غریبوں ، مسکینوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ جس انداز سے بین کر تے رہے ان میں ایک لفظ سب کے منہ پر تھا " آج مسکینوں کی ماں مر گئی""،،، کیا ہم اپنی زندگیوں کی روٹین پر غور کر سکتے ہیں؟؟؟
( منیرہ قریشی 4 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) (جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں