جمعہ، 29 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (21).

 یادوں کی تتلیاں " (21).۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
لان کی گھاس نے سر نکالنا شروع کر دیا ، اور کونوں میں " سیمی سرکل"  (نیم دائرےمیں )کیاریاں بنائی گئیں ،، جن میں سے ایک کونے میں ، صرف گلابی ،دوسرے میں سفید اور پیلا ، تیسرے سرکل میں سُرخ اور چوتھے سرکل میں " کالا گلاب " لگایا گیا ! اور شاید ہی کسی کو یقین آۓ کہ اس کالے گلاب کو دیکھنے کے لیے باقاعدہ چند لوگ آۓ کہ ہم نے کبھی دیکھا نہیں ! دراصل کالا گلاب ،اتنا گہرا عنابی ہوتا کہ وہ قریب قریب کالاسا ہو جاتا، اسی لان کے کناروں پر ناشپاتی ، اور اخروٹ کا ایک ایک درخت لگایا گیا ۔ گھر کے پچھلے لان میں عین درمیان میں بےحد پھیلا ہوا " خوبانی کا درخت تھا ، اس سے اتنا پھل اترتا کہ کریٹ بھر بھر سوغات کے طور پر بھیجی جاتیں۔چند ماہ میں اماں جی کی محنت رنگ لے آئی اور یہ ناقابلِ یقین منظر آیا کہ جس گھرپر " آسیبی " گھر کا گمان ہوتا تھا ، وہ خوشبو ، رنگ اورسکون کا امتزاج نظر آنے لگا، گھر کے اندر آنے والا کچھ لمحے رک کرہمارے لان کو ستائشی نظروں سے دیکھتا ! اور پھرآگے بڑھتا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اس ایک سال میں اماں جی صرف ایک دفعہ اسپتال داخل ہوئیں ، وہ بھی چند دن کے لۓ، ورنہ ان کی صحت کا یہ عالم تھا ( پنڈی میں ) کہ ہر تین ، چار ماہ کے بعد چند دن ضرور ہاسپٹل گزارتیں ۔ شاید ان کی روح ، کا محبت بھرا ، میٹھا رشتہ مٹی سے تھا ،جب وہ بھولا ہوا رشتہ جڑا تو جیسے وہ بھی جوان ہو گئیں۔ میں یہاں تھوڑا سا بتاتی چلوں کہ میرے نانا کا گھر بھی وسیع وعریض تھا ،بالکل گاؤں کے مخصوص انداز سےلائن میں چھے ،سات کمرے اور درمیان میں اتنا بڑا صحن کے کرکٹ بخوبی کھیلی جا سکے ،،، سرسبز درخت بھی تھے ، کھلی فضا ملی رہی ، پنڈی کا گھر کسی طور بھی ایسی" نیچر پسند" خاتون کے لۓ آئیڈیل نہ تھا ، اور اب یہاں انھیں اپنے پسندیدہ ماحول میں اپنی بیماری بھولی رہی ،، ، پچھلے لان میں ایک دو لوکاٹ کے درخت بھی تھے انہی کے نیچے کچھ سبزیوں کو اگایا گیا۔ 
گرمیوں میں خوبانی کے درخت کے نیچے اماں جی کی چارپائی بچھ جاتی اور اس پر خوب صورت کھیس بچھا ہوتا! اور اس چارپائی کے آس پاس " روٹ آئرن " کی چار کرسیاں ،اور ایک میز ہوتا ، جو آتا، آس پاس بیٹھنا مسئلہ نہ ہوتا ،کیوں کہ اماں جی کا دوسرا مشغلہ چارپائی پر سلیقے سے بکھرا ہوتا، اور وہ تھا " "ایمبرا ئڈری "،،،، جیسا میں نے پچھلی کسی قسط میں لکھا تھا کہ ان میں اس معاملے میں " حد درجہ ذوقِ رنگ " تھا ، ،، ڈاکٹروں نے انھیں چند کاموں سے منع کیا ہوا تھا ، ایک تو کچن کا لمحے بھر کا کام نہ کریں ، دوسرا کوئی وزن نہیں اٹھانا ، اور تیسرے شدید سردی یا گرمی نہیں سہنی ،،،، لیکن اماں جی کبھی کبھی ان پابندیوں سے چپکے سے بغاوت کر جاتیں ، ،،گرمیوں میں درخت کے نیچے اور سردیوں میں پچھلے بر آمدے میں جہاں بہترین دھوپ لگتی تو " بیٹھک" وہاں سجتی ۔ بر آمدے کے ایک سرے پر ایک ہمارے بیڈ روم کا دروازہ کھلتا ،،، بر آمدہ پار کر کے دوسرے سرے پر کچن کا دروازہ تھا ،،، اماں جی کے لیے ہر موسم میں سچویشن آئیڈل تھی کہ کوئی نا کوئی ملازم یا ملازمہ ایک آوازپر آجاتے اور جو مہمان آتا ، اسکی خاطر ہو جاتی ، وغیرہ ، وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی غیرشادی شدہ ، ان دوبیٹیوں کے جہیز کی تیاریاں اسی طرح ہو رہی تھیں جیسے اس دور کی قریباً ہر ماں کر تی تھی ، انھوں نے بےحد خوب صورت، پھولوں ،کو بیڈ کورز پر اور بہت محنت سے ساڑھیوں پر کڑھائی کی ، ،،،، آج تک مجھےہاتھ کی بےشمار کڑھائیاں دیکھنے کا موقع ملا ہے ،، شاید ایک دو پسند آئیں لیکن اماں جی کے ہاتھ کا جواب ہی نہیں۔
ایک دن میں سکول سے آئی ( میں دسویں میں تھی )ہمارے پنڈی والے محلے سے اماں جی کی پسندیدہ بزرگ خاتون آئی ہوئی تھیں ! جو اماں جی کی ماں کے برابر تھیں ۔ میں کچن میں گئی تو ملازمہ پروین نے کہا " باقی سب کچھ میں نے بنا دیا ہے لیکن یہ مچھلی کے ٹکڑے پڑے ہیں ، مجھے یہ پکانا نہیں آتی ،اب مجھ میں یہ عقل نہیں تھی کہ اماں جی کو بلا کر یا جا کر پوچھ لیتی ، میں نے خود ہی اسے کہا، تم مصالحہ بناؤ، میں ٹکڑے لہسن لگا کرتلتی ہوں ، پھر ہم دونوں نے عقل دوڑائی ، اور تلی مچھلی مصالحے پر " دم" دے کر کچھ دیر رکھی ، اس دوران کھانا ، ٹرالی پر لگ چکا تھا ، میں نے پروین کو تسلی دی نہ فکر کرو، مچھلی کی شکایت ہوئی تو مجھے ڈانٹ پڑے گی ،، خیر ہے اور دو سالن بھی ہیں ، مہمان وہ بھی کھا سکتے ہیں وغیرہ، مہمان کے جانے کے بعد اماں جی اندر آئیں ، اور پوچھا " مچھلی کس نے بنائی تھی ؟ پروین نے کہا "باجی نے" اماں جی نے میری طرف دیکھا، میرا خیال تھا ایک عدد ڈانٹ پڑے گی لیکن انھوں نے فوراً  میرا ہاتھ پکڑا اور الٹی طرف سے چُوم لیا میں حیران ہوئی تو کہنے لگیں اتنی اچھی ، مچھلی پکی تھی کہ ذرا " بُو " نہ تھی اور مزیدار بھی تھی ! ،،،،،،،،،،اماں جی نے یہ دوسری دفعہ میرا ہاتھ چوما تھا ، اس سے پہلے جب میں 5ویں یا 6 ویں جماعت میں تھی تو ، بھائی کو جو خط لکھا گیا اس کے لفافے پر میں نے ان کا پتہ انگریزی میں لکھ دیا ، جب انھوں نے پوچھا تو بتادیا کہ میں نے لکھا ہے تب بھی انھوں نے بےساختہ میرا ہاتھ چوما ،،، اور مجھے وہ " فیلنگ " آج بھی یاد ہے کہ جیسے میں ہوا میں اُڑنے لگ گئی تھی ،،، یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے والدین ہمیں ہر وقت ، موقع بے موقع واہ واہ نہیں کرتے تھے ، ، سراہنا ، لیکن عملاً اظہار کم کرنا ، یہ ایک ایسا فعل ہے جس سے بچے اپنی ستا ئش کو فورگرانٹڈ نہیں لیتے، ماں باپ کا ایک فاصلہ رہتا ہے تو بچے پر ان کے کہے کا بھی اثر ہوتا ہے ، ان کے پیار اور تعریف کی بھی ویلیو ہوتی ہے ۔ خیال اپنا اپنا ،،،،اماں جی نے آس پڑوس کی خواتین کے گھروں میں کوئی وزٹ نہیں کیا تھا لیکن ان کی محبت ، اور مہمان نواز طبیعت کی خوشبو نےچند گھرانوں کا اکثر پھیرا لگوا دیا ،،، آنٹی رشید ، جو ہمارے پچھلے لان سے پڑوسی تھیں ، وہ خود بہت مصروف شخصیت تھیں ! ان کا آنا ہفتے ، دس دن کے بعد ہوتا ، لیکن ان کی چاروں بیٹیوں کے ساتھ جو دوستی ہوئی ،،، الحمدُ للہ آج 54 سال کے بعد بھی قائم ہے ۔ہر خوشی اور غم میں ہم سب کی موجودگی ضروری ہے، ان کا کوئی بھائ نہیں تھا اور اس بات کی اگر انھیں حسرت کسی کے پوچھنے پر ہوتی کہ کوئی بھائ بھی ہے " تو وہ ہمارے بھائ کا نقشہ بیان کر کے اگلے کو مطمئن کر دیتیں ۔ہم اب چھ لڑکیاں ان دو گھروں کی رونق تھیں ، تسنیم جو بڑی بہن تھی مجھ سے ایک کلاس آگے تھی اور فطرتا" ، مدبر اور ذمہ دار بیٹی تھی جس پر ماں باپ کو مکمل اعتماد تھا کہ گھر میں کوئی نہ ہو تو وہ خیال رکھ سکتی ہے ۔ اس کے بعد کی بیٹی ، کا نام شاہدہ ہے اور اس سے چھوٹی جڑواں ہیں جن کے نام ثمینہ ، روبینہ ہیں ، ،،، شاہدہ اور جوجی نہ صرف کلاس فیلو بن گئی تھیں بلکہ دوستی کا یہ عالم ہو گیا کہ صرف دوپہر کا کھانا گھر کھایا جاتا ، اور چونکہ دونوں گھروں کے پچھلے لان کے درمیان صرف سنتھے کی باڑ "لگی ہوئی تھی اس کو ایک سائڈ سے اتنا کاٹ دیا گیا تھا ایک چھوٹا راستہ بن گیا تھا اس طرح آنا جانا آسان ہو گیا ، اکھٹے ،ہوم ورک ہو رہا ہے ، اکٹھے شام کا کھیل کود ہورہے ہیں ،،، حتیٰ کہ "آلو ؤں کے چپس بنوا کر یا چھت پر چڑھ کر کھاۓ جاتے یا درختوں پر ،،، اسی دوران آنٹی رشید ( یہ پکی لاہوری فیملی تھی ، جن کی اردو ،اچھی سکولنگ نے اور تعلیمی گھریلو ماحول نے ستھری کر دی تھی ) ،،، نے منع کرتے رہنا لیکن وہ کہاں باز آتیں میں درختوں اور چھتوں پر "ہائیٹ فوبیا "کی وجہ سے کبھی نہ چڑھی لیکن باقی ، نوجوانی کی شرارتیں ہماری "سنہری یادیں" بن چکی ہیں ، معصوم ،لیکن دلیرانہ ، حرکتیں اب یاد آتیں ہیں تو خیال آتا ہے یہ سب دونوں خاندانوں کے والدین کا ہم پر اعتماد کا نتیجہ تھا ،،،،،،اس کی تفصیل کا موقع ملا تو یہ چھوٹے چھوٹے واقعات لکھوں گی ،، شاہدہ تو اب بھی ایسے " دلیرانہ ، مردانہ قدم اٹھا لیتی ہے کہ ہماری کہانی سننے والا یا تو ہمیں ' رشک " سے یا " حسد " سے تکتا رہ جاتا ہے ، شاہدہ دراصل "ٹام بواۓ" تھی ! جو ذہیین ، اور دبنگ فطرت کی ہے ، اس کے ساتھ ہوتے ہمیں کبھی ڈر محسوس نہ ہوتا ، حالانکہ میں اس سے بڑی ہوں لیکن میں خود بھی اس کے کندھے کے پیچھے سے جھانکنا پسند کرتی تھی ۔
آنٹی رشید ،،ایک پرنسپل تھیں اپنے دور کی بی،اے،بی ایڈ ، اور میری امی کی فطرت کہ وہ اگر کسی سے متاثر ہوتیں تھیں تو صرف اگلے کی ذہانت اور تعلیم سے ،،، اور یہاں تو متاثر ہونے کے لیے ایک عام ٹیچر نہیں بلکہ ، پرنسپل تھیں ،،، اور واہ کینٹ کی واحد " دیسی خاتون " جو سکول ،سائیکل پر جاتی تھیں اور جب ہم ان کے حلقہء احباب میں آۓ تو اس " مشہوری " کو کچھ سال گزر چکے تھے ، اور مزے کی بات کہ یہ سواری صرف وقت کی بچت کے تحت زیادہ سیکھی گئی۔ ورنہ ان کی ذات کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ ، گھر کے کام کاج کرتے دیکھ کر کوئی انھیں پڑھا لکھا بھی نہ مانتا ہو گا ،،، گھر میں کھانا پکانا ، ان کا کام تھا ، باقی کاموں کے لۓ مددگارتھے ، اماں جی کبھی کبھی ان کے گھر ، لسی مکھن ، یا بالائی بھیجتیں تو وہ خوشی سے نہال ہو جاتیں ، بدلے میں ہمارے گھر ،ان کے ہاتھ کا کوئی نا کوئی خوش ذائقہ سالن ، یا میٹھا ،آتا ، ، ہمارا ان کا ساتھ 9 سال رہا ،،، اور الحمدُ للہ کہ بہترین پڑوسی کے طور پر وقت گزرا ، آخری 5 ،6 سال ہمارا ہر اتوار کا ناشتہ ، آنٹی رشید کے ہاتھ کے بڑے بڑے تر بتر پراٹھوں سے ہوتا جو سردیوں میں گوبھی ، آلو کے ، یا قیمے کے پراٹھے اور ساتھ کشمیری چاۓ ،، گرمیوں میں لسی ہوتی ۔ آنٹی گرم گرم پراٹھے ڈائینگ روم میں بھیجتی چلی جاتیں اور ہماری نیت نہ بھرتی ،،،، آہ ،،،کیسے کیسے لوگ تھے جو دلوں کو جیتنا جانتے تھے ، جو پڑوسیوں کو اپنا فیملی ممبر بنا لیتے تھے ، آنٹی صفٰیہ رشید ، بہت خوشحال فیملی بیک گراؤنڈ سے تھیں لیکن کوئی نمود و نمائش نہیں ، سادہ پہناوا ، سادہ مزاج ، سادہ گفتگو ،،،، اماں جی انھیں ہمیشہ ستائش بھری نگاہوں سے دیکھتیں ، وہ ایک صاف نیت ، مومنہ عورت تھیں ، اللہ انھیں جنت الفردوس میں درجہ دے آمین۔
( منیرہ قریشی ،30 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں