جمعہ، 15 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں" (12)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 12)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تو میں ذکر کر رہی تھی کہ اباجی ہمیں اکثر اچھی ادبی تقریبات میں لے جاتے اور بعدمیں موقع مل جاتا تو ان کے شُرکاء سے ملوا بھی دیتے ، شاید یہ ایک خاموش ٹریننگ تھی اچھے ذوق کو اُبھارنے کی ،،، اس طرح ہمارا مختلف موضوعات پر کتب کا مطالعہ بتدریج وسیع ہوتا گیا۔
ایک دفعہ(ان دنوں میں بی۔اے میں تھی ) اباجی شام کو گھر آۓ تو فریش ہو کر پھر تیار ہو گۓ اور مجھ سے کہا کہ " آرڈننس کلب" میں جناب قدرت اللہ شہاب صاحب،اور ابنِ انشاء کے ساتھ ایک شام کا اہتمام ہوا ہے۔ لیکن اس میں خواتین  کو مدعو نہیں کیا گیا ، تقریب سے پہلے اگر ان سے ملنا چاہتی ہو تو چلو !! ! میں تو خوشی کے مارے سیکنڈوں میں تیار ہوئی ، کلب ہمارے گھر سے 3 منٹ کی ڈرائیو پر تھا ،یہاں ابھی ہال میں  کچھ مردحضرات آ، جا رہے تھے۔ یہ تقریب چھوٹے ہال میں منعقد ہو رہی تھی۔ہم دونوں باپ بیٹی ہال میں داخل ہوۓ,مٰیں تو خوشی سے کانپ رہی تھی کہ سامنے ہی شہاب صاحب بیٹھے نظر آۓ انھوں نے اباجی کی طرف دیکھا اور فورا" خود آگے آ گۓ . اباجی نے سلام کیا  اور ہاتھ ملایا،شہاب صاحب نے شگفتگی سے پوچھا " میجر صاحب آپ یہاں کیسے " ،،، اباجی نےبتایا میں تو 9 سال سے یہاں تعینات ہوں اور اب ریٹائر ہونے جا رہا ہوں ،،، انھوں  نے پوچھا یہ ساتھ کون ،؟ اباجی نے کہا میری بیٹی ،،، اور بیٹی کا یہ حال کہ سواۓ سلام کے کچھ منہ سے نہ نکلا اور میں نے ایک عقل کی بات کی تھی کہ شہاب صاحب کی مشہورکتاب " یا خُدا "لے گئی تھی جو میں نے آگے بڑھائی کہ دستخط کر دیں ، انھوں نے اباجی کے نام سے سائن کیا جس کا عکسی فوٹو نیچے ہے ،۔
 اس دوران انھوں نے " ابنِ انشاء کو اشارے سے بلایا ، اباجی کا تعارف کراتے ہوۓکہا " میجر ظفر سے ملو ، یہ چند ان لوگوں
 میں سے ہیں جو صدر ہاؤس سے صاف ہاتھوں کے ساتھ نکل آۓ " انھوں نے مسکرا کر پُرجوش انداز سے ہاتھ ملایا ، تو بیٹی آئی ہے ساتھ کہہ کر میری  بڑھائی گئی کتاب ہاتھ میں پکڑ لی،،انھوں نے سائن کیا اور یہ بھی پوچھا ،پڑھا بھی  ہے ان کتابوں کو ،،، اباجی نے کہا یہ تو سب کتابوں کو پڑھ نہ لے تو چین سے نہیں  بیٹھتی !،،،، میں یہ منظر لکھ رہی ہوں لیکن یقین  کیجئیے میری آنکھوں کے سامنےجیسے فلم چل رہی ہے ،،، انشاء صاحب کا قدرِ پکا رنگ ، چہرہ جیسے مسکراہٹ کا اشتہار یا وہ اس تقریب میں آکر خوش بہت تھے ،،، اور شہاب صاحب کچھ چھوٹے قامت والے سفید چھوٹی سی داڑھی میں ، پیار اور شفقت کا پیکر محسوس ہوۓ ! اور ہم نے جلدی سے خداحافظ کہا اور ، انیس بھائی نے کہا ، میجر صاحب بیٹی کو چھوڑ کر آجائیں ، اباجی مجھے گھر چھوڑ کر واپس چلے گۓ !!۔
اس خوب صورت ملاقات کے بعد ابنِ انشاء سے تو کبھی ملاقات نہ ہوئی  البتہ 10، 11 سال بعداپنی ایک عزیز سہیلی شاہدہ کے توسط سے شہاب صاحب سے دو مرتبہ ملنا ہوا اس وقت تک مفتی صاحب کی کتاب " لبیک " نے شہاب صاحب کی شخصیت کےایک اور ہی پہلو سے روشناس کرا دیا تھا۔اور اب  کی ملاقات میں میری ان سے ایک ہی درخواست تھی،" آپ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے گا " ان کی انتہائی خاموش اور نظریں نیچے کیے شخصیت میں عجیب سی نورانی کیفیت تھی ! اباجی کا ذکر نہیں کیا کہ ان دنوں وہ بہت علیل ہو چکے تھے، اور میں بھی "اپنے آپ"کو زیادہ اہمیت دیتی جا رہی تھی !،،، دوبارہ چند ماہ بعدجب ملنا ہوا تو میں نے انھیں بار بار دعا کے لۓ کہا تو انھوں نے نظریں اُٹھا کر دیکھا اور بولے ان شاء اللہ ،،،، میں بھی پوری عقیدت سے لوٹ آئی اس ملاقات کے بعد شاید سال ہی گزرا کہ شہاب صاحب کے انتقال کی خبر آئی اور ساتھ ہی " شہاب نامہ " بھی منظرِ عام پر آگیا ،،، اور بس !!!مجھے اچھا لگتا ہے کہ زندگی میں چند لمحے ، یا ، چند گھنٹے ایسی روشن ہستیوں سے ملنا ہوا ،،،، انھیں سنا ، انھیں دیکھا ،،،!اور گاہے گاہے ان کا ذکر ہوتا رہا ۔
اباجی ، ایمان دار انسان تھے ، یا نہیں لیکن ان میں " لالچ " نام کی چیز نہیں تھی ! اگر وہ لالچی ہوتے تو وہ ایمانداری سے زندگی بسر نہ کرتے !۔
ہمارے بڑے بہنوئی بھی فوج میں کرنل تھے وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران کراچی میں تعینات تھے۔اس دوران اباجی ابھی آن سروس تھے !وہ روزانہ رات کو "بڑے بھائی جان"( ہم اپنے بہنوئی کو بڑے بھائی جان کہتی تھیں ) کو فون کرتے کہ" یٰسین ، اِن دنوں تمہارا امتحان چلتا رہے گا ، خبردار رہنا تمہیں بہت "بریف کیس"آئیں گے ، ایمان پر قائم رہنا " اور اللہ کا شکر ان کے قدم نہیں ڈگمگاۓ !وہ آرمی سے کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے فوراً بعد پورٹ قاسم میں بطورِ جنرل مینیجر" تعینات ہوۓ اور الحمدُللہ،،، اس پوسٹ سے بھی سُرخرو ہو کر اپنی شاندار ریٹائرڈ زندگی گزار نے ، اپنے ذاتی گھر واہ کینٹ میں آگۓ ! وہ بھی کیا باغ وبہار خوبیوں کے مالک تھے ، کہ آج ان کے انتقال کو 14 سال ہونے کو ہیں لیکن ان کا ذکرِخیر کسی نا کسی طور ہو ہی جاتا ہے۔
ہماری آپا جنھیں نسیم کہا جاتا اپنے والدین کی پہلی اولاد تھیں وہ 1941ء دسمبر کی 29 کو گاؤں میں پیدا ہوئیں ! یہ وہ دور تھا جب بچوں کو ( بچیوں کو خصوصاً )تمام بزرگوں کی مشاورت سے ہی سکول بھیجنے کا فیصلہ کیا جاتا تھا ، جب ہمارے والدین پنڈی شفٹ ہو گۓ تو اماں جی اور اباجی نے انھیں سکول داخل کرانے میں دیر نہیں لگائی۔ ہمارے اس گھر کے قریب ہی شہر کے بہت اچھے اسکول"سینٹ ٹریسا" میں آپا داخل ہوئیں اور کچھ ہی سالوں میں بھائی جان اسی سکول کے لڑکوں کے حصے " سینٹ پیٹرک " میں داخل کۓ گۓ ، اور اس طرح ان کا تعلیمی سلسلہ اچھے اور اطمینان بخش طریقے سے شروع ہو گیا ، آپا پڑھائی میں بہت اچھی اور کامیاب طالبہ تھیں ، وہ حسین بچی تھیں ،اور جوں جوں بڑی ہوتی گئیں وہ ہماے خاندان کی حسین لڑکی بنتی چلی گئیں ، اور پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے خاندان سے ان کے رشتے آنے لگے، قد بت بھی اُٹھان والا تھا ،،،،اس دوران اباجی کی سوتیلی والدہ کی پوری کوشش رہی کہ ان کا رشتہ انہی کی مرضی سے ہو جاۓ لیکن اس معاملے میں اباجی نے اپنے والدین کے سامنے بہت تابعداری نہیں دکھائی اور خاموش رہے کہ ایک دن ،،،،، اباجی کے تایا جن کے ساتھ آغا جی کے اکثر اختلاف راۓ رہتا تھا ، کی بیوی ، پنڈی کے گھر آئیں ( وہ سب گاؤں میں رہتے تھے ) اور کچھ دیر اماں جی سے گپ شپ کرتی رہیں ، وہ کافی بزرگ تھیں جو بہت دبنگ بھی تھیں ، نہایت گوری چٹی ، ذرا بھاری بدن والی ، نفیس خاتون ،، جن کے کانوں میں اور ہاتھوں کی مُٹھی میں اکثر "موتیۓ کے پھول موجود ہوتے ۔اس دن انھوں نے کافی سارے موتیۓ کے پھول ایک ایسی" چنگیری" میں رکھے ہوۓ تھے جو نئی تھی لیکن عام طور سے اسے گھروں میں روٹی رکھنے کے استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ جب انھوں نے دیکھا کہ اب شام ہو گئی ہے اور آس پاس کوئی نہیں تو انھوں نے پنجابی میں اماں جی کو مخاطب کر کے کہا " عزیزہ بیگم اپنی جھولی پھیلاؤ ، اماں جی بتاتی تھیں میں نے جھولی پھیلا دی ، انھوں نے سارے پھول ان کی قمیض کے دامن میں الٹ دیۓ اور کہا " آج اس وقت ہم دونوں کے درمیان پھولوں کا سودا ہو گیا ہے ، ابھی بات اپنے دل میں رکھنا وقت آنے پر میں خود سب پر واضح کر دوں گی " یہ واقع جب امی نے سنایا تو یہ بھی بتایا کہ انھوں نے قطعی الفاظ میں کچھ واضح نہیں کہا " لیکن میں بھی سمجھ گئی کہ وہ اپنےبیٹے کے بارے میں کان میں ڈال گئی ہیں ،،، میں جب بھی اس سارے " منظر" کو ذہن میں لاتی ہوں تو ان دو خواتین کی ذہانت میں کوئی شک نہیں ہوتا کہ " جس نے کہا ، جس نے سنا ، دونوں نے واضح  کچھ نہ کہا ، نہ پوچھا گیا،،،،اور دونوں نے مطلب سمجھ لۓ ،،،، ! واہ ، ذہانت سے بات کرنے کے لۓ کسی ڈگری ، کسی سکول کی ضرورت نہیں ہوتئ ،،،، اور جب آپا آٹھویں جماعت میں پہنچیں تو بہت شاندار انداز سے منگنی کر دی گئی اس وقت ہمارے بہنوئی لیفٹیننٹ تھے ، اور ادھر آپا کا دسویں کا رزلٹ جون میں نکلا اور جولائی میں شادی ہو گئی ، اس وقت آپا کی عمر 15 سال اور بھائی جان 25 سال کے تھے (اورسالوں کا یہ فرق عام سمجھا جاتا تھا )یہ ہمارے خاندان کی " حسین ترین " جوڑی تھی کہ جو دیکھتا ، دیکھتا رہ جاتا ،، کیوں کہ بڑے بھائی جان بھی اپنی جوانی میں ایک خوب صورت مرد تھے ، آپا کی شادی ہم دونوں چھوٹی بہنوں کو بالکل یاد نہیں کہ میں تو شاید ایک قریبی سکول میں انہی دنوں داخل ہوئی تھی ، جوجی تو سکول بھی نہیں جاتی تھی ! اس لیے ان کے رشتے ، منگنی اور شادی کے تمام حالات زیادہ اماں جی اور کچھ آپا نے دہراۓ تو ہمیں علم ہوتا رہا ۔ 
الحمدُ للہ ۔۔ اماں جی اور اباجی کا یہ فیصلہ بہترین ثابت ہوا ، ہمارے بہنوئی ہمارے والدین کے سامنے ہمیشہ احترام سے رہے وہ ان کی اتنی تابعداری کرتے کہ دوسرے نزدیکی رشتے ، ان کا مذاق اُڑاتے ،، لیکن اس احترام میں ان کے والدین کی مکمل تائید ہوتی ، ہمارے والدین نے بھی اپنے داماد کو بڑے بیٹے کا درجہ دیۓ رکھا اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں انہی کی راۓ مقدم سمجھی جاتی ، لیکن میں یہاں ایک اور بات لکھتی چلی جاؤں کہ وہ خود بہترین داماد رہے تو انھیں بھی دونوں بیٹیوں کے لۓ بہترین داماد ملے ، ماشا اللہ !۔
بڑے بھائی جان ،کی زندگی اگر سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوۓ تو چاندی کا چمچ ضرور لے کر پیدا ہونے والے بچے تھے، ایک تو وہ اپنے والدین کی سب سے چھوٹی اولاد ،،، اور پھر وہ اپنے بڑے بھائیوں سے اتنے چھوٹے کہ دو تین بھتیجوں سے بھی چھوٹے تھے، ان کے والد مالی لحاظ سے بہت خوشحال تھے والد نے اِنھیں ساتویں جماعت کے فوراً بعد "ملٹری کالج جہلم" میں داخل کروا دیا ، ان کے والد مزاجاً اتنے سخت اور بارعب تھے کہ وہ اپنی زندگی کے ہی نہیں بچوں کی بھی زندگیوں کے زیادہ تر فیصلے خود کرتے ، بھائی جان بتاتے تھے کہ میں جب گھر چھٹی پر آتا تو والد صاحب کوئی لاڈ پیار نہیں کرتے تھے ،،، بس بیوی کو آرڈر ہوتا اس کی خوراک کا خاص خیال کرو ، تاکہ جو ہاسٹل میں رہنے سے کمزوری ہو گئی ہو تو خوب صحت مند ہو کر جاۓ ، اور جب بیٹا جانے لگتا تو اس کی جیب میں بغیر کچھ کہے اتنے روپے ڈال دیتے جن کی کافی ویلیو ہوتی ، ،،، اس بات پر کہا بھی جاتا کہ اسے اس کی ضرورت نہیں آپ اسے بگاڑ رہے ہیں لیکن یہ سب اعتراض " بابا جی" کے سامنے کوئی نہ کہہ سکتا! یہ سب سے چھوٹے بیٹے سے محبت کا اندز تھا جو ان کے بڑھاپے کی اولاد تھا،اور اس طرح بھائی جان زندگی میں"بچت" نام کی چیز سے نا آشنا رہے ، یہ کام ہماری آپا ہی نبھاتی رہیں ۔ بڑے بھائی جان ، خوش خوراک اور ،، خوش لباس رہے ، انھیں اچھے پرفیوم اور اچھی گاڑی رکھنے سے کوئی نہ روک سکا ، ،،، اس شوق کو پہلے تو اپنی تنخواہ سے پورا کرتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے دونوں بیٹوں یاور اور خاور نے کوئی کمی نہ رہنے دی ،، وہ بہت خوش قسمت تھے کہ انھوں نے اپنے بچوں کی کامیابیاں دیکھیں ، تابعداریاں دیکھیں اور تو اور ان کے داماد انھیں ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی پرفیوم کے تحفے دیتے ،،،اور وہ سر سے پاؤں تک پرفیوم چھڑک کر ، کلرفل ٹی شرٹ پہن ، جوگرز پہن کر اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ " لمبی واک" کرتے جو اَب ریٹائرڈ لائف میں ان کے سنگی بن گۓ تھے ،،،، وہ خاموش اور پرسکون دن رات گزارنے کے قائل نہ تھے ، ہلہ گلہ ہوتا ، خوب مزیدار کھانے پکوانے اور کھانے کے شوقین تھے ، خاندان کے درمیان آکر رہنا پڑا تو ان کے مسائل میں دلچسپی لی ، کسی کا جھگڑا نبٹایا جا رہا تو کسی کی شادی ، میں شرکت ضروری ہے ، کسی کی نوکری کروانی ہے تو دوڑ دھوپ ہو رہی ہے تو کسی کی جائیداد کے مسئلے حل کرواۓ جارہے ہیں ، گویا وہ ایک لۓ دیۓ اور خودغرض زندگی گزار ہی نہیں سکتے تھے ! ان سب باتوں میں جو بات ان کی سب سے زیادہ قابلِ تعریف تھی وہ تھی " حق سچ " بات کہنی ، چاہے وہ اپنا ہے یا پرایا ،،، کسی کو برا لگ رہا یا اچھا ،،، اور اسی حق بات کہنے کی عادت نے ان سے وہ کام کروایا ، جو ہماری فیملی میں پہلی دفعہ عملا" کیا گیا ،،، کہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنے والد کی زمینوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا وہ مشترکہ کھاتہ چل رہا ہے ، اپنے اثر رسوخ سے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر زمینیں الگ الگ نام کروائیں ، اس وقت تک ان کے سب سے بڑے دونوں بھائی انتقال کر چکے تھے !اور ان کی ایک ہی بہن تھیں ، ہمارے ہاں یہ فضول رواج جڑ پکڑ چکا تھا کہ بیٹیوں کو جہیز کی صورت میں لین دین کر دیا گیاہے اب جائیداد کی کوئی ضرورت نہیں ،،،، لیکن بھائی جان نے واضح الفاظ میں کہہ دیا بہن کو اس کا مکمل شرعی حصہ ملے گا ، اور پھر وہ ملا ، یعنی پہلی روایت میرے والد اور پھر انہی کے داماد نے پوری ایمان داری سے حصے ادا کر دیۓ ،، اور باقی سب کو اس مثال کو چلانا پڑا ، اور الحمدُ للہ اب ہر فرد اپنی بہنوں کو مکمل شرعی حصہ دے رہا ہے ، اس سلسلے میں میرے والد نے زبانی اعلان کیا تھا اور ان کی زندگی میں قانونی پیچیدگیوں کے باعث عمل نہ ہوسکا لیکن اب ہمارے بھائی نے اپنے والد کے الفاظ کو عملی جامہ پہنادیا ہے ، کاش ہر وہ شخص جو اپنی نوکری سے باعزت ریٹائر ہو کر آتا ہے ،،، اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ،وہ فائدے ضرور پہنچاۓ جو وہ پہنچا سکتا ہے ! ۔
( منیرہ قریشی 16 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

3 تبصرے:


  1. آپ کی "یادوں کی تتکیوں" کے کچھ مٹتے نقوش میری سماعتوں پر دستکیں دیتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ان کو کسی پیکر میں ڈھال سکیں۔۔۔۔ جیسے۔۔۔
    ،،ہری پور میں آپ کے قیام کے دوران آپ کی طرف سے محترمہ بانوقدسیہ کو آنے کی دعوت جب انہیں بلڈ کینسر تشخیص ہوا۔ اور ان کا آپ کے نام جوابی خظ،،،،جس میں بہت خاص باتیں تھیں۔
    اسلام آباد میں جناب ممتازمفتی سے ملنے جانا،۔چائے کا تھرماس لے کرجانا اور ان کی سننا،اور ۔،،، ان سے بساااوقات فون پر بھی بات کرنا۔۔
    ۔65 کی جنگ کے دوران بہت خاص خواب دیکھنا۔۔۔
    پروفیسر احمد رفیق اختر سے گاہے بگاہے ملنا۔۔۔
    جناب ممتازمفتی اور پروفیسر احمد رفیق اختر سے پہلی ملاقات کا احوال بطورِ خاص فرمائش ہے۔
    ۔21 سی داستان سرائے لاہور تو ضرور گئی ہوں گی۔،ہو سکے تو جناب اشفاق احمد کے حوالے سے بھی اپنی یاد شئیر کیجئیے

    جواب دیںحذف کریں
  2. میں نے تواپنی یادوں کی صرف ایک کھڑکی کھولی تھی ،،، تم نے مجھے ایک نیا گھیر دار فراک پہننے والی ایک " ینگ لڑکی " بنا دیا جو گول چکر کھا کھا کر اپنے فراک کےگھیرے کو انجواۓ کرتی چلی جاتی ہے ! اور اس دوران کمرے میں موجود بہت سے دروازے کھڑکیاں، روشن دان کھلتے چلے جاتے ہیں ،،،،، مجھے یہ سب یادیں پروں کی طرح ہلکاپھلکا کر رہی ہیں اللہ کرے مہلت ملتی رہے ،،، جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ کی "یادوں کی کچھ تتلیاں برسوں سے میری مٹھی میں قید تھیں، گرچہ پوری قوت سے سانس تو لیتی تھیں لیکن گذرتے وقت میں اُن کے رنگ مدہم پڑتے جارہے تھے۔ا آپ کا شکریہ کہ انہیں آزاد کر دیا۔

    جواب دیںحذف کریں