ہفتہ، 13 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(78)۔

 یادوں کی تتلیاں " (78)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ذاتی گھر کا ہونا ، اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ،، میں نے ایک لمبا عرصہ اباجی کے ساتھ ، اماں جی کی وصیت کی وجہ سے بھی گزارا ،، کچھ اپنے حالات کے اتار چڑھاؤ ، کی وجہ سے ،، اور کچھ اس لیۓ بھی کہ اباجی میرے اور میں اُن کی عادی اور ہم ایک دوسرے کے مزاج کو بہتر جانتے تھے ،، اللہ کا شکر کہ یہ دور بہترین گزر گیا ،،، اباجی کی فوتگی کے بعد میں مزید اس گھر میں اتنی دیر رہی کہ میرے دو بچوں کی شادیاں بھی ہوئیں اور ان دونوں کے گھر ایک ایک پری آچکی تھیں ۔ اب وقت آچکا تھا کہ سکول سے جمع شدہ کچھ رقم کا استعمال میں اپنے گھر کے بنانے کےلیۓ لوں ، ، ، چناچہ جوجی اور میں نے اپنے واقف آرکیٹیک ناصرسعید سے رابطہ کیا ، ناصر نے بہت سنجیدگی سے میرے لیۓ یکے بعد دیگرے ، کئی نقشے بناۓ ،، کبھی میرے ذہن کچھ آتا ، تو میں وہ تجویز کر دیتی ، وہ برخوردار ہفتے بعد نقشے میں تبدیلی کر کے لے آتا ، آخر دس یا بارہ نقشوں کے بعد اس نے کہا " کبھی بھی کوئی اپنے گھر کے نقشے سے مطمئن نہیں ہوتا چاہے وہ محل ہو ،یا ، جھونپڑی !! میں نے ایک نقشے پر انگلی رکھ دی،تووہ اس کی ڈیٹیلز بنانےکا کہہ کر چلا گیا ۔ " اور اس دوران ہم قریبا'ً ڈیڑھ سال کے لیۓ قریب ہی ایک کراۓ کے گھر میں اُٹھ آۓ ،، ،،،۔
جب میں کراۓ کے گھر آگئی ، تو اس وقت میری پوتی ، دو ، ڈھائی سال کی تھی ۔اس گھر میں پہلی شام ہوئی تو وہ ایک صوفے پراداس سی بیٹھی تھی ، میں نے پوچھا " میری مِٹھی کیوں چُپ ہے "؟ ،، تو اس نے کہا" اماں چلیں واپس واہ کینٹ والے گھر میں "،،، اتنی سی بچی کو بھی " گھر " کی یاد آرہی تھی ، تو میرے تینوں بچوں کا کیا حال ہوا ہو گا ، جو یہیں پیدا ہوۓ، یہیں جوان ہوۓ ، اور دو کی شادیاں ہوئیں ،،، اور دو نوں ماں ،باپ بنے ،، اِس گھر کے آخری ایک ہفتہ میری بیٹی ، سامان کی پیکنگ کے لیۓ آگئی تھی ، اس کے آنسو تو رکتے ہی نہ تھے۔ ان سب کو اس گھر سے " دلی ، اور روحانی" پیار تھا ۔ اباجی کے گھر کے سرونٹ کوارٹر میں جو فیملی رہ رہی تھی ، اس گھر کو جو بھائی جان کے حصے میں آیا تھا ،،، نے ،، جن کو بیچا تھا ، میں نے ان سے درخواست کی کہ ابھی ان لوگوں کو، کوارٹر میں رہنے دیں۔ دونوں لڑکے ایک ہی وقت میں اسلام آباد سے 6 بجے شام پہنچ جاتے تھے ،،، تو سیدھے اِسی گھر  اے 65،مدنی سٹریٹ میں آجاتے ، جنوری یا فروری تھا۔ دونوں کے ساتھ دو چار دوست ہوتے ، ہیٹر لگتا اور بچے رات 9 تا 10 بجے اپنے نئے گھر آتے اور چہرے پر اداسی کی چھاپ ہوتی ، ایک دو دن کے بعد میں نے ملازمہ نگینہ کو دودھ کا کارٹن، چینی ، چاۓ کا سامان پہنچایا ، کیوں کہ یہ" اداس ٹولہ " ابھی اس فیز سے نکل ہی نہیں رہا تھا ، میں نے سوچا نگینہ پر ان کی میزبانی کا بوجھ کیوں پڑے، ، ان کی حسرت تھی کہ " کاش " ہم یہ گھر کسی کو خریدنے نہ دے سکتے !!! گھر کی چابی ابھی انہی کے پاس تھی ،،!! اور جب چابی لینے کے لیۓ اصلی مالک آگۓ۔ تب دو ماہ کے بعد دونوں لڑکے نارمل روٹین میں آۓ ،،،،۔ 
گھر بنانے کے لیۓ ہمیں والد نے اِسی سکول کی زمین وراثت میں دے دی تھی ،، اس لیۓ زمین کی فکر نہ تھی۔اس دوران موجود سرماۓ کا جائزہ لیا ، ہمارے گھر کے بنانے کے لحاظ سے اتنے روپے تھے کہ " گراؤنڈ فلور ، چھت تک بن جاتا ، اور اوپر کی منزل نا ممکن تھی ،اور اندر کی فنشنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔،، اور ناصر کے خیال میں مجھے اتنی ڈبل رقم مل جاۓ تب کام آگے بڑھے گا ۔ اور جو کل رقم ہمارے پاس تھی وہ 18 لاکھ تھی ، اور اس میں سے تین لاکھ ، جوجی کو الگ کرنے پڑے ، کیوں کہ اسی سال اسے اپنی دونوں ٹونز کو انگلینڈ کی " اِنٹری کروانی " تھی ،، جوجی کے بچوں کی اپنے والد کی وجہ سے انگلینڈ کی نیشنلٹی تھی ، بڑا بیٹا اور بیٹی ڈاکٹر مائرہ وہیں انگلینڈ میں تھے ، اور اب  جڑواں بیٹیوں  کا نیشنیلٹی پروسس شروع ہونا ضروری تھا ، ٹونز ان دنوں " اے لیول " میں داخلہ لینے جا رہی تھیں ۔ اب پیچھے 15 لاکھ رہ گئے تھے۔ ،،، اور ہم سوچ بچار سے قدم اٹھانا چاہتیں تھیں ۔
اسی دوران دسمبر 2002ء میں آپا کی نواسی مہرین کی شادی ہوئی ، جس میں شرکت کے لیۓ ہم سب فیملی ممبرز لاہور گئے ۔ آپا کی بڑی بیٹی کے چچا سُسر مشہور و معروف دینی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد نے نکاح پڑھانا تھا ،انھوں نے جو مسجد لاہور ماڈل ٹاؤن میں بنائی تھی ،، نکاح اسی مسجد میں ہونا تھا ،،، ان میں باقاعدہ بارات کا کوئی تصور نہیں،، نہ ہی کسی مہندی کی تقریب کا رواج ہے ۔ نہایت سادگی سے گھر کے لوگ مسجد گئے ، ان میں ہم سب اس لیۓ شامل تھے کہ ہم دوسرے شہر سے آۓ مہمان تھے ، ورنہ گھر کی کچھ خواتین اور چند مرد حضرات دولہے کے ساتھ مسجد میں نکاح کروا کر دُلہن لے آتے ہیں ،، کوئی کھانا نہیں ہوتا۔صرف "بِد" تقسیم کر دی گئی اور لڑکی والوں نے شدید ٹھنڈ کی وجہ سے "سُوپ" پیش کر دیا ،،،، آپا اور بڑے بھائی جان کے " گرینڈ چلڈرن " میں سے یہ پہلی بچی بیاہی جا رہی تھی ، اور نانا نانی اپنی دوسری نسل کو شادی کے بندھن میں دیکھ رہے تھے ! ، یہ ہی دن تھے جب بڑے بھائی جان کی مسلسل کھانسی نے سب کو متوجہ کیا ہوا تھا،، وہ شادی کے ہر دن کو انجواۓ کر رہے تھے ،،، میں نے نکاح اس طرح مائک پر ، پہلی مرتبہ سُنا تھا ،،، اور خود ڈاکٹر صاحب نے پڑھایا،پہلے چند آیات اور ترجمہ اور پھر چھوٹا سا خُطبہ دیا ، پھر لڑکے کے ایجاب وقبول اور سائن سے پہلے اعلان کیا کہ" حقِ مہر ، لڑکے کی طرف سے جتنا زیور دُلہن کو چڑھایا گیا ہے ، اسی صورت میں ادا ہو گیا " ،،، یہ اتنی اچھی بات تھی کہ واپس آکر میں نے اپنی بیٹی کے ہونے والے نندوئی ونگ کمانڈر محبوب صدیقی صاحب سے رابطہ کیا کہ میں بھی حق مہر کی مد میں یہ ہی لکھوانا چاہتی ہوں ( دراصل ، اس گھر کے بڑوں یا بزرگوں میں اُن کا شمار ہوتا ہے ،،) انھوں نے میری بات سُن کر کہا " کوئی مسئلہ  ہی نہیں !" اور نکاح کے کاغذات میں ایسا لکھا گیا !۔
یہی دن تھے جب بڑے بھائی جان اپنی نواسی کی شادی کے ایک ہفتے بعد ، نشنل کی شادی میں سبھی معاملات میں پیش پیش ضرور تھے لیکن تھکے تھکے سے !اور ٹھیک ایک ماہ بعد کھانسی نے شدت اختیا کر لی تو بڑا بیٹا یاور اپنے گھر پنڈی لے گیا ، ٹسٹ کرواۓ ، تو پتہ چلا" لنگز کینسر" کی آخری سٹیج ہے ،فوراً ہاسپٹل داخل کروا دیا گیا ،، اور مزید مہینہ ، ڈیڑھ گزر گیا ، نو محرم
۔2003ء ،،، ہم دونوں بہنیں انھیں دیکھنے گئیں ،، تو ان کا اٹینڈنٹ باہر ہی کھڑا تھا ،، اس نے ہمیں دیکھتے ہی  کہا " اچھا ہوا جی ،، آپ آ گئیں ، صاب بہت یاد کر رہے تھے ،، دراصل ہم ایک دن چھوڑ کر جاتی تھیں ۔۔ اندر کمرے میں ان کی بڑی بیٹی ، آپا ، اور دونوں بیٹے موجود تھے ، ڈاکٹر نے رش کم کرنے کا کہا ،، بہو اور بیٹا مسلسل ان کی ٹانگیں دبا رہے تھے ! وہ اس ساری بیماری میں چلنے سے رہ  گئے تھے ،،، ہمیں دیکھ کر اتنا ہی کہا " اچھا کیا جو تم دونوں پہنچ گئیں " ،،، کہ آدھ گھنٹے بعد ان کی طبیعت بگڑ گئ دو تین ڈاکٹرز آگئے ، چھوٹا بیٹا پاس ہی رہا اور باقی کمرے کے باہر ، آگئے،، بمشکل 15 ، 20 منٹ اور گزرے کہ ڈاکٹرز بھی باہر آگۓ اور ان کے چہرے کچھ لفظ کہے بغیر ہی کچھ کہہ گۓ ، چھوٹا بیٹا ، دل گرفتہ ان کے پاس کھڑا رو رہا تھا ،،، اور اگلے دن 10 محرم 2003ء ،،، بڑے بھائی جان ، نے ہمارے خوب صورت گاؤں میں مٹی کی چادر اوڑھ لی ،، اور یوں ایک شاندار شخص کا شاندار دور ختم ہو گیا ! ! ۔
( منیرہ قریشی ، 13 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں