جمعرات، 25 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں( 86۔۔ آخری قسط)۔

یادوں کی تتلیاں (86)" ( آخری قسط)۔"
۔"یادوں کی تتلیاں "کا لفظ ذہن میں آیا ، تو صرف اور محض بچپن کے چند سہانے دن یاد آگئے تو سوچا اپنے فیس بک گروپ " خانہ بدوش " میں انھیں محفوظ کر لوں ، اِن یادوں میں " بچپن میں اباجی اور اماں جی کے ساتھ " مری " کے قیام کے دن تھے ۔ انتہائی معصوم ، بلکہ کسی حد تک بیوقوفانہ سا بچپن تھا ۔ انہی سادگی سے گزرے دنوں کو سادہ انداز میں بیان کیا ، تو ارادہ دو اقساط تک ہی ختم کرنے کا تھا ، لیکن اپنے محدود گروپ میں موجود 50 لوگوں میں سے زیادہ لوگوں نے بہت سراہا ! ،، تو سوچا چلو تھوڑا اور لکھ لوں ۔ اور یوں وہ سلسلہ 100 اقساط تک پھیلا ،، اور اب یوں لگ رہا ہے کہ ، ابھی تو فلاں اور فلاں واقعہ تو رہ گیا ،،، لیکن میرا اپنا خیال ہے " کہ اس واقعہ کو اِک نامعلوم موڑ دے کر چھوڑنا اچھا " ،،، میں نے 2005 یا 6 200ء تک کے واقعات کو اپنی یادوں میں سے کھرچ کر اُس صفحے پر سجا لیا ہے ،، جو رنگا رنگ پھولوں کی صورت پھیل گۓ اور اِن پر رنگین تتلیاں، کبھی کسی کردار ،اور کبھی کسی واقع کی صورت ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر آتیں ، اور بیٹھتیں ،،، میرے لیۓ یہ مناظر اتنے دل فریب ہوتے کہ ، بعض اوقات تھکے ہونے کے باوجود، انھیں قلم بند کر کے رہتی ۔ گویا " یادوں کی تتلیوں " نے مجھے خود ہی اتنا مسحور کیا ، کہ میَں خود انجواۓ کرنے لگی ،، اور اب کچھ مطمئن ہوں کہ جو لکھا ، کافی ہے ۔ 
تتلی ،،،کے لفظ کو پڑھ کر اور تتلی کو دیکھ کر ، صرف خوب صورتی کا خیال آتا ہے ،،، حالانکہ وہ ایک کیڑا (ان سیکٹ)ہی تو ہے ،،، اور کیڑا بھلے کتنا بھی خوبصورت ہو ،، اُسے ہاتھ لگانے والا کچھ دیر سوچتا ہے اور کچھ دیر کے لیۓ ہی ہاتھ لگاتا ہے ۔ جب کہ ۔۔۔۔ تتلی۔۔۔ وہ کیڑا ہے جس کی رنگینی ، نازکی ، اور خوب صورتی سے بچے ، بوڑھے ، عورت ، مرد سبھی متاثر ہو جاتے ہیں ، اور کوئی اس سے ڈرتا نہیں ،، اِس کیڑے کا حُسن ہر ایک کو لبھاتا ہے ۔ اور ،،،،،،،،،، دوسرے ،، اِس پیارے کیڑے کی چال دیکھۓ ، کہ کبھی سیدھے نہیں اُڑتی ، بلکہ کبھی دائیں ، کبھی بائیں ،، گویا اَٹھکیلیاں کرتی جا رہی ہوتی ہے۔ تو گویا ، زندگی کی یادیں بھی ، کبھی دائیں ، کبھی بائیں جانب سے جھانکتی چلی جاتیں ہیں اور یادوں کو لکھتے وقت اسی لیۓ کسی باقاعدہ اور ترتیب وار انداز سے نہیں لکھا جا سکا ۔ 
اردو ادب میں خود نوشت ، یا آپ بیتی کے ناموں میں " یادوں کے جگنو " یا " یادوں کی برات " یا " یادوں کے دریچے " ،یا "تلخ یادیں "،،، یا ،، یادوں کی بھول بھلیاں " ،،، وغیرہ کئی ایسے ناموں سے لکھی جا چکی ہیں ، مجھے خوشی ہے اور میرا خیال ہے عنوان " یادوں کی تتلیاں " کے نام سے ابھی تک میری نظر سے کوئی خود نوشت نہیں گزری ۔ اور اگر ایسا ہوا تو میَں ، ابھی سے معذرت خواہ ہوں ،، کیوں کہ مجھے یہ عنوان خود ہی سوجھ گیا تھا ، تو لکھ لیا ۔
تتلی ،،، کے خیال سے جس "نزاکت اور لطافت " کا خیال آتا ہے ،،، لکھنا شروع کیا ،تو یہ ہی سوچا ، اپنی یادوں میں تلخ ، چبھتی ، اور تکلیف دہ یادوں کو نہیں دہراؤں گی ،، کہ اِن شکوؤں کی بھی حد نہیں ہوتی ، کیوں کہ اُنھیں یاد کر کےہم گِلہ مند بھی ہوتے ہیں اور سَرد آئیں بھی بھرنے والے ہوتے ہیں ۔ لہذٰا کیوں نا کوشش کی جاۓ کہ ، پڑھنے والے کو خوشگوار تصورات دیۓ جائیں ، بجاۓ ہم آپس کی رنجشوں کو ، آپس کے اختلافات ، اور منفی خیالات کو بیان کر کے خود بھی اداس ہوں ، دوسرے کو بھی اداس کر دیں ۔ کہ انھیں لکھنے والا ایک اور اینگل سے دیکھ چکا ہوتا ہے ، لیکن پڑھنے والا ، ، کسی اور نکتہء نظر سے محسوس کرے گا ۔ جو وجہء تنازعہ بھی بن سکتے ہیں ۔
البتہ ، کسی کی بیماری یا مستقل جدائی کا ذکر ضرور کیا ہے کہ ، خوشی کا اُلٹ غم ہے ،، اسی طرح ،، زندگی کا الٹ موت ہے اور یہ ، لازم ، و اٹل حقیقت ہے ۔ بیمار ہو جانے والوں کا ذکر بھی اسی لیۓ کیا ہے کہ ، ہم میں سے جس کے گھر میں ایسی صورتِ حال ہے تو وہ ، ایک دوسرے کے تجربات سے ضرور فائدہ بھی اُٹھاۓ ، اوراپنی سوچ کےزاویہ کوبھی بدلے ۔
میَری " یادوں کی تتلیاں " میرے تصورات کے باغ میں اُڑتی پھرتی ہیں ،جب ایسی باتیں مزید جمع ہوئیں ، جنھیں لکھنا ، مجھے اچھا اور ازبس ضروری لگا ، تو دوبارہ بھی لکھ لوں گی ۔
اور یادوں کی تتلیوں پھر آ موجود ہوں گی !!!۔
آخر میں میَں اپنے والدین کے لیۓ اللہ سبحان تعالیٰ سے بہت دعا گو ہوں ، جن کے ذوق ادب اور قلم چلانے کی اہلیت نے مجھے جب کبھی کچھ لکھنے پر راغب کیا ، تو انھوں نے بہت سراہا ، اور یہ حوصلہ افزائی ہی تھی جس نےآج نظمیں اور نثر لکھنے کے قابل کیا ،، مجھے مسجع و مکفع تحریر لکھنے کی عادت بھی نہیں اور نہ ہی ، میں اس کی اتنی قائل ہوں ،، میری سادہ تحریر کو جس طرح آپ پڑھنے والوں نے پزیرائی بخشی ، بس مجھے اور کیا چاہیئے ۔ 
یادوں کے حوالے سے چند جملوں کی ایک آزاد نظم لکھی ہے ، اور پھر اختتام کرتی ہوں ۔ 
" یادیں "
،،،،،،،،،،،،
آہ ، یادیں رہ جاتی ہیں 
جب کچھ پرانی تصویروں سے 
اور کچھ پرانی تحریروں سے !!
آنکھوں سے چھینٹا دے کر 
گرد ہٹائی جاتی ہے ،
تب آنکھیں پھول چڑھاتی ہیں !
آہ ، یادیں ہی تو رہ جاتی ہیں ۔
( منیرہ قریشی ، 25 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) 
اللہ پاک بڑے بول اور قلم کی کمزوری کو معاف کر دے آمین !۔

8 تبصرے:

  1. Nasreen J. Beg
    اف یہ کیا سلسلہ ختم۔ ابھی تو پیالہ آدھا ہی بھرا تھا۔
    خیر بہت مزا آیا۔ اللہ تعالی سے بہت دعائیں تمہارے لۓ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ جناب ،، یہ بھی سب اس لیۓ لکھتی چلی گئ کہ آپ سب نے سراہا ، اور مجھے حوصلہ ملا۔ یہ ہی سوچا اس باغ کو کھلتے پھولوں کے ساتھ چھوڑوں ، یہ نہ ہو کہ باغ پر خزاں چھا جاۓ !!! انشا اللہ ،،، اللہ کی مدد رہی تو چند اور عنوانات منتظر ہیں ،، جو لکھنا چاہ رہی ہوں ! دعا کرنا ، جو لکھوں ، دل پذیر ہو آمین

      حذف کریں
  2. Komal Zeeshan
    بہت خوبصورت سلسلہ تھا جس سے خوشی، علم اور ہدایت نصیب ہوئی ۔
    نیک تمنائیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تعریف تمہاری اعلیٰ ظرفی ہے ، میَں نے اپنے "تجرباتِ عمر" شیئر کیۓ ہیں ، اور بس

    جواب دیںحذف کریں
  4. Asna Badar
    مجھے افسوس ہے کہ بیچ بیچ کی قسطیں میں نہیں پڑھ سکی۔ مگر اب یہ سب ایک کتابی شکل میں مرتب ہونا چاہئے۔ کتاب کی خوشبو کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

    یہ تو ایک سلسلہ تھا مگر اس کے علاوہ بہت سے واقعات ہونگے انہیں تحریر کیجئے۔ یقینا آپکے قلم سے وہ پھر زندہ ہونگے۔
    یہ بھی بڑی خوش کن بات ہوتی ہے کہ ہم اسے پڑھیں جسے جانتے بھی ہوں۔
    اب میں یہ بھی طے نہیں کر پاتی کہ میں نے آپکو جاننے کی وجہ سے آپ کو پڑھا ہے یا پڑھنے کی وجہ سے آپکو جانا ہے۔ جو بھی ہے آپکی تحریر ہے بہت خوشگوار اور دل گرفتہ۔
    اللہ آپکو سلامت رکھے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یہ تو طے ہے کہ میں نے تمہاری محبت تمہاری اس نظم "یہ کیسی عورتیں تھیں" سے یہ سلسلہ شروع کیا ، گویا تحریر اور الفاظ ایک مضبوط پُل تھا ، اور ہوتا ہے ، اس میڈیم میں انسان سامنے نہ بھی ہو ، انسان سے جان پہچان نہ بھی ہو ، آپ اُس سے تعلق کو نہ صرف پسند کرتے ہیں ، بلکہ اس کا ذکر کر کے خوش ہوتے ہیں ،، جیسے ، مشہور یا نامعلوم لکھاری کی تحریر دل کو بھا گئی تو ، اس کا ذکر محبت سے کرتے رہتے ہیں ،،،،
      اور مجھے تو تمہارے حیران کن الفاظ اور موضوعات اتنے پسند آۓ کہ میَں چاہتی ہوں میرے پیج ( گروپ ) کے سبھی لوگ تمہیں پڑھیں ،،، یہ ہی حال " کومل ذیشان" کا ہے ، جو ابھی کل کی بچی ہے لیکن ، پختگی کا عالم نہ پوچھیۓ ۔ ،، ، اسنیٰ نے مجھے تحریر کے ناطے سے محبت و اہمیت دی ، اس کا شکریہ کہنا چھوٹا لفظ ہے ، ، یہ حقیقت ہے کہ لکھنے والے کی تھوڑی سی تعریف ، اسے لکھتے رہنے کا حوصلہ دیتی ہے ،، اور ملٹی وٹامن کا کام دیتی ہے ،،، جزاک اللہ ،

      حذف کریں
  5. Nasim Ashraf
    بچپن کی محبت کو دل سے نان جدا کرنا

    جواب دیںحذف کریں
  6. بچپن کی محبت کے اثرات دائمی ہوتے ہیں ، عارضی نہیں ! کیوں کہ اُس میں بے غرضی شامل ہوتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں