اتوار، 21 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(83)۔

 یادوں کی تتلیاں " (83)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کوشش سکول کے لیۓ الگ ٹیچنگ سٹاف تعینات کیا گیا ،، اس میں کوئی شک نہیں ان کی تعیناتی میں کچھ کمی بیشی اس لیۓ بھی رہتی رہی کہ ،، شام کے صرف تین گھنٹے پڑھائی کا دورانیہ تھا ،، اول تو شام کی ڈیوٹی ذرا محنت طلب ہوتی ہے ، اس لیۓ بھی ٹیچرز کی کمی رہتی تھی ، دوسرے ہم انھیں پُرکشش سیلریز دینے کی پوزیشن میں نہ تھیں ،،، لیکن ایسا ہوا کہ سلسلہ چلتا رہا ،، اور ہم سے پڑھ کر جانے ولے بچوں کی اتنی اچھی بنیاد بنتی گئی ،، کہ آگے سرکاری سکولوں میں انٹری ٹسٹ ، بہ آسانی پاس کر لیتے ،، ،، لیکن ان 12 سالوں میں ہمارا تجربہ یہ رہا ہے کہ 6 لڑکیاں آگے پڑھ رہی ہیں ،بہ مقابلہ ایک لڑکا،،،،،،،،،،، لڑکے نہ صرف ، لاپرواء ، عاقبت نا اندیش ، اور بٹے ہوۓ ذہن کے مالک ہوتے ہیں ،، بےتکی سرگرمیوں میں ملوث ، وقت ضائع کرنے کے احساس سے عاری ہو رہے ہیں !!! ایسا صرف اِس غریب اور ناکافی سہولیات رکھنے والے طبقے میں ہی نہیں ، بلکہ نہایت خوشحال خاندانوں میں بھی لڑکوں کے نکمے پن کی پرسینٹ ایج ذیادہ ہے ، ان کی نظریں اس بات پر ذیادہ ہوتی ہیں کہ ، ،/ والدین کچھ نا کچھ کر دیں گے ،،،،،،،، کوئ سفارش ، کوئ مالی مدد وغیرہ،/ باہر ملک چلے جائیں گے ،،/ آخر ماں باپ کس لیۓ ہوتے ہیں ،، انھیں ہمارے مستقبل کے لیۓ کچھ مزید کرتے رہنا چاہیۓ !/ فلاں دوست ، فلاں رشتہ دار کی اچھی پوسٹ ہے ، والدین کے کہنے پر وہ ہمیں بھی کہیں نا کہیں لگا دیں گے ،، (بھلے اپنے میں اہلیت نہ ہو)/ والدین ہمیں چھوٹا موٹا بزنس تو شروع کر کے دے ہی سکتے ہیں ، ( بلکہ دینا چائیے ) ،، وغیرہ لڑکوں کہ یہ خواب دیکھنے ، انحصار کرنے کی عادت ، یا نااہلیت ،،، اگر صرف ہمارے سکولوں میں نظر آرہی ہے تو پورے پاکستان ،، میں کیا حالت ہوتی ہو گی ،، ،، یا یہ صرف میرا خیال ہے !!! لیکن اس " کوشش سکول "کے شروع کے 5،، 6 سال نہایت غریب ، طبقہ سے تعلق والے بچے آۓ ،، اور گذشتہ 4،5 سال سے " لوئر مڈل کلاس " آرہی ہے ،،، یہ اس بات کی نشان دہی ہے کہ مہنگائی کے سبب لوگوں کے لیۓ 3 یا 4 ( 5 اور 6 بھی ) بچوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھانے مشکل ہو رہے ہیں ،،، سرکاری سکولوں میں صرف فیس کم ہے ،، ورنہ کاپیوں،کتابوں کے خرچے بہر حال کم نہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب چار ، پانچ سال سے بچوں کو لانے ، لے جانے والے والد کے پاس موٹر بائیکس ہیں ، ان کے پاس موسم کے مطابق لباس بھی صحیح ہے ، ،،،، لیکن بچوں کی تعلیم پر خرچ یا تو،،،،،،، ان کے ترجیحات یہ نہیں ،،،،یا/ واقعی گھر میں ایسی مجبوری ہے کہ تعلیم پر خرچ کرنا مشکل ہے ،،، / اور تیسری اہم وجہ کہ سرکاری سکولوں میں بےتحاشا بچوں کی وجہ سے پڑھائی کا کوئی معیار نہیں رہا ،،،/ ہم تین گھنٹے میں ایسی طریقے سے پڑھا رہی تھیں کہ، تین بنیادی مضامین ،، اردو ، انگلش ، اور میتھس میں بچے کافی حد تک چل نکلتے ہیں ، اور پڑھنے والے بچے ، سائنس اور سوشل سڈیز میں بھی بہت اچھے ہو جاتے ہیں ۔
اب تک فارغ ہوجانے والے بچوں میں سے تین بچیوں کا علم ہوا ہے کہ وہ " کالج میں سیکنڈ ایئر میں پہنچ چکی ہیں ، میٹرک قریباً 10بچیاں کر چکی ہیں،،، ( باقی سے رابطہ نہ ہونے کے سبب ڈیٹا مکمل نہیں )لیکن افسوس لڑکوں کی طرف سے صرف ایک لڑکا میٹرک تک پہنچا ہے ،، یا ہم تک کسی نے رابطہ ہی نہیں رکھا ہوا ،، لیکن میں جیسا اوپر لکھ چکی ہیں کہ ،، لڑکے پڑھائی پر کم توجہ رکھتے ہیں ۔ اور یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال ہے ،، جس پر ہمیں مل بیٹھ کر غور کرنا چاہیۓ۔ 
کوشش پبلک سکول ، کے کام ، اور ان کی لکھائی دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ، کہ قابلِ تعریف کام ہوتا ہے ،،، یہ اِن باہمت ٹیچرز کا کمال ہے ، ہم نے سکول ہی کے تحت انھیں بے کار چیزوں سے کار آمد اشیاء بنانے کی طرف راغب کیا ہوا ہے اور ان کا دو مرتبہ ،سالانہ " ایگزیبیشن " بھی ہو چکا ہے جس میں ان کی چھوٹی چھوٹی کارآمد اشیاء کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ٹیلینٹڈ بچے مستقبل میں اپنا کوئی ہنر ، کاروباری شکل میں ترتیب دے سکتے ہیں۔ 
اسی کوشش سکول میں اب تک تین بچے ایسے ہیں ، جو سرونٹ کوٹرز میں رہ رہے ہیں لیکن ان کی قابلیت کی بناِء پر انھیں صبح کے سکول میں داخل کر لیا گیا ،، جب کہ ایک بچی کو جب یہ کہا گیا کہ اب تم باقی تعلیم میٹرک تک ہمارے صبح کے سکول میں پڑھو گی تو اس کے دادا جان نے فرمایا " اس سکول میں لڑکے ، لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں ، اور اب یہ یہاں نہیں پڑھے گی ،، جب کہ کوشش پبلک سکول بھی " مخلوط تعلیمی ادارہ " ہے( والد کے فوت ہوجانے کے سبب فیصلہ دادا کے ہاتھ میں تھا )وہ ٹیلنڈڈ بچی کسی اور سکول سارا سال روتے ہوۓ گئیں ، اب وہ دوبارہ اِس سال ، مارگلہ سکول میں آجاۓ گی ، جبکہ لڑکے دونوں بہت خوش ہیں !شاید ہم نے اپنی " نیکی " کا کچھ ذیادہ ذکر کر دیا لیکن اس کی صرف چند وجوہات ہیں ، جس کی وجہ سے یہ ذکر لمبا ہو گیا ،" یہ ہی سچائی ہے کہ ہم نے یہ کام صرف نیکی سمجھ کر نہیں کیا بلکہ یہ ہمارا فرض تھا "،،۔،
1) ہم دونوں بہنوں کا " فری سکول " کا ارادہ اُس وقت سے تھا جب ہم نے اپنا سکول بھی ابھی شروع نہیں کیا تھا اور ،صرف ان سکولوں کا خاکہ ہی ذہن میں تھا ۔ جیسا کہ آپنے " ڈرائنگ روم " کے عنوان سے اشفاق احمد صاحب سے ملاقات کے احوال میں پڑھا ہو گا کہ ہم نے انھیں بھی بتایا تھا کہ ہم جو سکول شروع کریں گے ، اس میں غریب گھروں کے بچے بھی ساتھ بٹھائیں گے ،،،،،،،، تو انھوں نے ہی مشورہ دیا تھا ،، "ان بچوں کی نفسیا ت میں مزید " احساسِ کمتری نہ بڑھانا ،، اور ان بچوں کے لیۓ حسبِ توفیق ، الگ سکول کھولنا" ،،، اللہ کو ہماری نیت کا علم تھا ،، اسی نے ہمیں اس کی توفیق دے دی کہ ان بچوں کے اخراجات اُٹھا سکیں۔
2) ہم دونوں کو ابھی پیسوں کی ضرورت تھی ،، جو ہماری مزید خوشحالی کا سبب بنے ، یا ،ہماری دیرینہ خواہشات کی تکمیل ہو سکے ، لیکن اس سکول کے لیۓ " نیت " تھی ،،، تو اللہ خود اسباب عطا کرتا گیا ، ( جو میں نے پارک میں بچوں کے ملنے کا لکھا ہے )3) یہ بات بہت جلد "سمجھ " آگئی ، کہ زندگی بہت جلد ختم ہو جانے والی ہے ، اور اچھے کام ہمارے ہی لیۓ آگے کا توشہ بن سکتے ہیں ،، شاید انہی بچوں میں سے کسی دعا ،،، شاید انہی کے والدین میں سے کسی کی دعا ،،، !!!4) اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوا کہ " ایمان داری " سے کام کیا جاۓ تو اللہ " غیب " سے مدد کرتا ہے " جیسا کہ اس مالکِ حقیقی نے فرمایا ہے """ وَ یَرزُقہُ مِن حیثُ لَا یحتَسب ط وَ مَن یتوَکل علی اللہِ فَھُوَ حسبُہ' ط انَ اللہَ بالغُ اَمرِہ ط قد جعلَ اللہُ لِکُلِ شئ ءِِ قدر"ا (سورۃ طلاق آیت3)اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا، جہاں سے وہم وگمان بھی نہ ہو ،، اور جو اللہ پر بھروسہ رکھے گا ، تو وہ اس کی کفایت کرے گا ۔اللہ اپنے کام کو جو وہ چاہتا ہے پورا کر دیتا ہے ،، اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے"۔
تو ہم کیا اور ہماری اوقات کیا ، یہ اسی کا کرم ہے ، کہ اس نے ہم سے یہ خدمت لی ہوئی ہے ،،، اور جب تک اس کا حکم ، اس کی مدد رہے گی ، یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ 5) سوچتی ہوں ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت ، خود پر کچھ پابندیاں عائد کر لے ، تو یقیناًاپنی ذات ، اپنے مال سے مخلوقِ خدا کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکے تو بہتر ہے ،، ورنہ بندے کے دل ودماغ میں تو خواہشات ، اور خدشات کا لا متناہی سمندرہر وقت ٹھاٹھیں مارتا رہتا  ہے،،،!6) پاکستان میں تعلیمی شعبے میں حکومتوں کی کارکردگی ، کا ہم سب کو علم ہے ، خود ہمارے واہ کینٹ کی آبادی پچھلے 25 سالوں میں کئی لاکھ بڑھ چکی ہے ، لیکن ان 25 سالوں میں صرف دو سکول ، کینٹ بورڈ کے تحت کھولے گۓ ہیں ،،، اسی لیۓ پرائیویٹ سیکٹر میں سکولوں کو خوب پزیرائ ملی ۔ البتہ ،، ان سکولوں کے چیک اور بیلنس نہ ہونے کے سبب ، اسے کمائی کا بہترین ذریعہ سمجھ کر ، ہر سوچ کے لوگ اس میدان میں آ گۓ ہیں ، جو اقدار سے عاری ماحول دے کر " شارٹ کٹ " سے کامیابیوں کا گراف حاصل کرنا چاہتے ہیں ،،، یا ،،، ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی تعلیمی تجربہ نہیں لیکن وہ سکول چلا رہے ہیں ، بالکل ایسے ہی ، جیسے کپڑے کی دکان یا دودھ دہی کی دکان !!! ہمیں اپنے پیشے ،میں دیانت داری ، اور صرف دیانت داری کو مدِ نظر رکھنا چایئے ۔ کیوں کہ سکول میں صرف کتابیں ہی نہیں پڑھانی ، ہم مستقبل کی نسل تیار کر کے باہر نکال رہے ہوتے ہیں ،،، جنھوں نے آگے چل کر اِس انتہائی مشکل سے حاصل کیۓ گۓ وطن کو سنبھالنا ہے ،،، ہماری کوششیں ، مخلصانہ اور اپنی تہذیب ومعاشرت کے مطابق ہونی چایئیں ،،، باقی جو اللہ کی مرضی !!7) کاش میں یہ قانون پاس کروا سکتی کہ ہر پرائیویٹ سکول شام کو اپنی بلڈنگ میں، ایسے ہی فری سکول کھولنے کا پابند ہوگا ، کیونکہ پاکستان کا " لٹریسی گراف " بہت مایوس کن ہے !۔
" ہم نے سکول کے باہر لکھوایا ہوا ہے " 
" یہ مت کہیں ہمیں پاکستان نے کیا دیا ، یہ بتائیے آپ نے پاکستان کو کیا دیا ""
خوشی کی خبر یہ ہے کہ اِس سال ( یعنی بارہ سال بعد ، ہمارے جماعت پنجم پاس کر لینے والے بچوں کو اب 6ویں سے دسویں تک " الھُدا انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ " میں اسی طریق سے پڑھنے کی سہولت مل گئی ہے ، یہ فری سکول ، ان بچوں کے لیۓ بہترین جگہ ثابت ہوگی ،، ان شا اللہ۔ 
( منیرہ قریشی ، 21 جنوری 2018ء واہ کینٹ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں