بدھ، 3 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(72)۔

یادوں کی تتلیاں "( 72)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب ہم نے ارادہ کیا کہ اب سکول کو میٹرک تک لے جانے کا وقت آ گیا ہے ۔ تب ، پہلے ہم نے سکول کی رجسٹریشن اور ایفیلی ایشن ، پنڈی بورڈ سے کروانے کا فیصلہ کیا ،،، سنا یہ تھا کہ یہاں سب کام جلدی اور آسانی سے ہو جاۓ گا ، میں نے لکھا ہے کہ کہ ہم دونوں بہنوں کے لیۓ یہ میدان ، یعنی سکول کو خود چلانا ،یا مختلف دفاتر میں جانا بالکل پہلا تجربہ تھا ،،، بےشک ہمارے خاندان میں کچھ تھوڑے افراد کاروباری تھے لیکن ،،، سکول بہرحال کسی نے پہلی مرتبہ چلانا شروع کیا تھا ، اور وہ بھی دو خواتین نے ،،، جن کو کئی فیصلے خود کرنا پڑتے تھے ، جو غلط بھی ہو سکتے تھے ، اور ہو بھی جاتے تھے ۔ اباجی تو ویسے بھی بزرگ ہو چکے تھے، اور بڑے بھائی جان کو بھی اِن معاملات کا کوئی تجربہ نہ تھا ،،،!۔
ہمارے سکول کو جب 12 سال ہو گۓ تو سکول کی سبھی کلاسز کے دو یا تین سیکشنز ہوتے چلے گۓ ، لیکن 8 ویں جماعت سے آگے کوئی کلاس ہمارے پاس نہ تھی , جس کی وجہ سے والدین بہت مایوس سے ہو جاتے ، کہ اب ہم کس سکول کا انتخاب کریں ، آپ کیوں نہیں بورڈ کلاسز مکمل کرتیں ، جب ہم مطمئن ہیں تو آپ آگے بڑھیں ، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن کچھ سال ایسے ہی ہم مسکرا کر اُن کی بات ٹالتی رہیں ۔ لیکن 2003 یا 2004کا سال ہمارے لیۓ فیصلے کا سال بن گیا ،، اور نویں میں 7 ایسے بچے بیٹھے رہ گۓ ، جو کسی صورت کہیں جانا نہیں چاہتے تھے ، اور انھوں نے کہا آپ بے شک انھیں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر بِٹھاۓ رکھیں ،،لیکن آپ کے ماحول سے اور پڑھائی سے ہم مطمئن ہیں ،،،وغیرہ !۔
تب ہم نے پنڈی بورڈ کے چکر لگانے شروع کیۓ ،، اور اسی سلسلے میں ایک واقف صاحب کو ساتھ لے کر گئیں ، جو ان کاموں کو اچھے سے جانتے تھے اور خود بھی بہت پڑھے لکھے ، اور ایک سکول چلا رہے تھے ، لیکن پہلی دفعہ جب ہم ان دفاتر کی طرف گئیں ، تو جوجی اور میں انھیں اپنے ساتھ لے گئیں ، گرمیوں کے دن تھے ، سخت گرمی میں اُس دفتر میں اپنے تمام فارم جمع کروانے گئیں ،،، سیڑھیاں چڑھ کر پہنچے تو ایک ایسا آفس تھا جو اچھا بڑا کمرہ تھا جس میں دو یا تین مناسب سائز کے میز اور ہر میز کے پیچھے ، کلرک ٹائپ بندے مصروفِ کار تھے ،ہر میز پر فائلوں کے پلندے پڑے تھے۔ ان تینوں نے ہمیں لمحہ بھر کو دیکھا ، اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گۓ ،،، جیسے کوئی آیا ہی نہیں ، اب جس کلرک کے پاس ہم نے کاغذات جمع کروانے تھے ہم اس کے پاس کھڑے ہو گۓ ، اُن"پردھان" صاحب جن کو ہم ماہر سمجھ کر لے گئیں تھیں ، نے بہت  عاجزی    سے انھیں مخاطب کر کے بتایا ، ہمارا یہ کام ہے اور یہ پیپرز جمع کروانے ہیں ،، ہم دونوں اِس منظر کو" حیرت " سے دیکھ رہی تھیں کہ اُ س کلرک کی میز کے دوسری طرف تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں،،،جن میں سے ایک کرسی کی ایک بازو ، اور دوسری کے دونوں بازو ٹوٹے ہوۓ تھے، ،،، لیکن اس نے ہماری فائل نہایت اطمینان سے دیکھنی شروع کی ، اور ایک دفعہ بھی تو اس نے ہمیں بیٹھنے کا نہ کہا ،،، ہم تو حیران تھیں اور " پردھان " صاحب شرمندہ سے ہو رہے تھے ۔مکمل پچیس منٹ کے مطالعے کے بعد انھوں نے فرمایا آپ " وہ فلاں جگہ کے آفس چلے جائیں" باقی کام وہ آپ کو گائیڈ کریں گے !!! ۔
ہم سخت گرمی میں " اس فلاں آفس " چل پڑے ،، یقین کیجۓ اگر یہ صاحب ساتھ نہ ہوتے تو وہ آفس ہمیں کبھی نہ مل پاتا ۔ کیوں کہ وہ ایسی پیچیدہ جگہ پر واقع تھا ، کہ اس تک پہنچ کر غصے سے ذیادہ " رونا " آ رہا تھا کہ پاکستانیوں ( شاید سب تیسری دنیا میں )کے لیۓ آسانیاں دینا " نا ممکن " کیوں بنا دیا گیا ہے !وہاں خوب چہل پہل تھی ،،، دو منزلہ عمارت میں 8،یا 9 کمرے تھے " پردھان" صاحب نے کمرہ درکمرہ پھرنا ، پھرانا شروع کیا ،، اور آخر یہ مژدہ سنایا گیا،، " آپ غلط جگہ آ گۓ ہیں ابھی آپ اس فلاں دفتر جائیں ! وہ کچھ کاغذات مکمل کریں گے ،،، پھر وہ آپ ہمارے پاس لے آئیں ! ہم سب صبح 8 بجے کے نکلے ہوۓ تھے ،، سخت بھوک اور پیاس لگی ہوئی تھی ، یہ بھی اللہ کا لاکھ شکر کہ سواری اپنی تھی ، اور ادھر اُدھر جانے کے لیۓ ، ٹیکسی وغیرہ کا انتظار نہیں کرنا پڑا ، گاڑی میں رکھا پانی بھی ختم ہو چکا تھا ،،،، اس ایک دفتر اور دوسرے دفتر کے درمیان 10 میل کا فاصلہ تھا لیکن، سخت رَش کی وجہ سے وہاں پہنچنے میں کافی دیر لگی ۔ ،،، یہاں سے نکل کر پہلے ہم تینوں نے ایک ہوٹل سے کھانا ، کھایا ، پھر اُس تیسرے دفتر کی طرف روانہ ہوۓ ،،، اور جب مطلوبہ دفتر پہنچے تو ، جس اہلکار سے ملنا تھا اسے ملے تو وہ فرمانے لگے " آپ لیٹ ہو گۓ ہیں ، آپ کل آئیں ، اب دفتر بند ہونے والا ہے " ،،، ،،،،، چنانچہ ہم اپنا سا منہ لے کر واپس ہو لیۓ !! ۔
واپسی پریہی  موضوع چِھڑا رہا ،،، " کہ اگر حکومت نے،نئے سکولوں کو کھولنے کی اجازت دے ہی دی ہے تو اس کے لیۓ آسانیاں بھی دیں ، یہ سارے دفاتر ایک لائن میں ، یا ایک روڈ پر ہوں تو کیا حرج ہے،، خیر ہم نے اس " پردھان " کا شکریہ ادا کیا ،،، جس کی مدد نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ۔ 
کچھ دن بعد سارے مناظر بعینہ اسی ترتیب سے ہم دونوں نے خود ،،دہراۓ ،،، ایک دفتر ، دوسرا اور پھر تیسرا ،، اور وہی کلرکوں کا تمسخرانہ انداز !!! اور آخری اطلاع یہ ملی، کہ آپ اُس چوتھے دفتر جا کر یہ مکمل شدہ فائل دے دیں " ،،، ہم اس نمبر چار دفتر گئیں تو وہ صاحب ایک کمرے میں اکیلے میز ، کرسی پر موجود تھے ،، فائل دی گئی، مطالعہ چند منٹ میں ہو گیا ہمیں 10 دن بعد آنے کا کہا گیا ، اور یہ کہ آپ خود نہ آئیں بےشک اپنے ڈرائیور کو بھیج دیں ،، 5 ہزار روپے بھی ساتھ لائیں !! ( یہ واضع کر دوں کہ ان سب دفاتر میں جانے کے لیۓ پہلے ایک گھنٹے کی ڈرائیو کرنی پڑتی ہے ، اگر ذرا سا بھی رَش ہو تو ڈیڑھ گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے )۔
ہم نے اسے معمول کی کارروائی سمجھا ، دس دن بعد ڈرائیور نے جا کر 5 ہزار دیۓ اور فائل لے آیا ،، جب فائل آئی تو آدھی تھی ،،،،، ڈرائیور نے کہا ، " جی ، اُس نے باقی فائل کے مزید 5 ہزار طلب کیۓ ہیں " ،، ہم نے شدید صدمے کے ساتھ بقایا ، 5 ہزار اسے دیے ! ،،،، اور جب فائل لے کر بنک ڈرافٹ بنا نے کے لیۓ، گورنمنٹ کی مقررہ فیس جمع کروانے 
بنک گئیں تو پتہ چلا ،، یہ سب کچھ ابھی نامکمل ہے ،،، ! نہ پوچھیں کتنا  ڈپریشن ہوا ،،، یہ بنک ،، " ایف جی بورڈ " کے اندر ہی تھا ،،، ہم اپنی فائل کے ساتھ مزید معلومات لینے انہی کے کافی بڑے اور بہت مصروف کمرے کے اندر چلی گئیں ، ، ہمیں گائیڈ لائن چاہیے تھی ،، اور اس دن اللہ نے ہمیں ۔"امتیازمحمود " سے ملا دیا ،،، ہم نے اسی سے اپنی فائل چیک کرائی ، اور ساتھ ساتھ اپنی " جدو جہد " اور ناکامیوں کا بتایا ،،،! یہ سب سُن کر اس نے ہمیں بتایا ،، اب تک جو کچھ آپ اُن دفاتر میں دیتی رہیں ہیں ، وہ سب رشوت تھی ، جو وہ منہ سے مانگ کر احسان جتا کر لیتے رہے ! ،، آپ پنڈی بورڈ کو رہنے دیں ، اور فیڈرل گورنمنٹ بورڈ سے سکول کا " الحاق " کریں ،، صرف 35 ہزار روپے آپ نے ڈائریکٹ بنک میں جمع کروانے ہیں ، فائل یہیں چھوڑ جائیں ، اسی میں جو تبدیلی کرنی ہے میں کروں گا ،، کل ہی آجائیں ، فارم لے کر رکھوں گا ، آپ آکر یہیں میری نگرانی میں "فِل" کر لینا ،،،، ہمیں اتنی آسانی ، اتنی عزت ، اور احترام کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا ،،، خیر ہم اگلے دن پہنچ گئیں ،، اور ایک گھنٹے بعد بنک میں 35 ہزار جمع کرواۓ ،،، امتیاز نے ، جس اخلاص و اخلاق سے سارا کام کیا ،،، صحیح بات تو یہ تھی کہ ہمیں اب کسی پر یقین نہیں رہا تھا ، ہمارا خیال تھا ، اب امتیاز کی طرف سے بھی کوئی مطالبہ ہو گا ،، لیکن امتیاز نے اس سارے کام کا صرف ایک مطالبہ " واہ کینٹ کی آدھ کلو برفی " لیتی آئیے گا " اور بس !!! جب ہماری فائل کی منظوری ہوگئی ،، تو اگلا مرحلہ انسپکشن ٹیم کے وزٹ کا تھا ،،، پہلی دو وزٹس والی ٹیموں نے مسترد کر دیا کہ، لائیبریری میں کتابیں کم ہیں ،، دوسری دفعہ ،، فزیکل انسٹرکٹر ، ڈگری یافتہ نہیں ،،، اور تیسری دفعہ آنے والی ٹیم میں ، معجزاتی طور پر جوجی کا قائدِاعظم یونیورسٹی کا کلاس فیلو نکل آیا ،،، اور اس نے صرف اتناکہا تم لوگ بورڈ لگالو میٹرک کا ،،، میں دو دن بعد تمہیں ایفیلی ایشن کا سرٹیفیکیٹ بھیج دوں گا ، اور واقعی دو دن بعد یہ سر ٹیفیکٹ مل گیا ۔
ہمیں ہی نہیں ہر اس بندے کو ہم سے ذیادہ تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے ، جو ذاتی کاروبار چلانا چاہے ،،، اور جب ہر جگہ رشوت بھی چلے ، اور بے توقیری کا احساس بھی ہو تو ذرا " انا " پر ضرب ضرور لگتی ہے ،، لیکن ہم نے ان تجربات سے بہت کچھ سیکھا ! ! خاص طور پرمختلف النوع انسانی چہروں اور ، رویوں کے تجربوں نے ہمیں " ماہرِنفسیات " بننے میں مدد دی ( خود بخود ) ،اور آگے چل کر ہم دونوں " مشورہ " دینے کی اہل سمجھی جانے لگیں۔
ان دفاتر میں خوار ہونا ، بھی تجربات میں اضافہ کا باعث بنا ،،، کہ اگر 5 بُرے بیٹھے ہیں تو ، ایک اچھا بھی وہیں موجود ہے ،،، اور امتیاز محمود ، ہمارے لیۓ فرشتہ بن کر سامنے آیا ،،، اس نے ہمیں بڑی بہنوں جیسی عزت دی ،، اس کے ساتھ محبت ، احترام ، اور خلوص والے تعلقات آج بھی قائم ہیں ،، بلکہ ایک دن اس نے ہمارے آفس میں اپنی بہت بزرگ اور حسین و جمیل والدہ کے ساتھ سر پرائز وزٹ کیا ، وہ واہ کی طرف کسی کے گھر مل کر واپس جا رہے تھےاور اپنی والدہ کو بتایا ،،، یہ ہیں وہ " باجیاں " جن کا ذکر کرتا ہوں ، ہمیں اُن کے آنے کی بے حد خوشی ہوئی ،،، وہ عجیب نورانی سی شخصیت تھیں ،، کہ جب وہ آفس میں آئیں تو جیسے آفس مزید روشن ہوگیا ، شاید ایسی ماؤں کے بچے ،، لوگوں میں آسانیاں بانٹنے میں مصروف ہوتے ہیں ،،، ہماری دلی دعائیں امتیاز کے ساتھ ہیں ،، وہ آج بھی ایک فون پر ہمارا کام کر دیتا ہے ،،، اور ہمارا ، انحطاط زدہ معاشرے ، میں ایسے لوگوں کی وجہ سے اقدار اور ایمان داری پر یقین ہونے لگتا ہے ،،،، ! دو ماہ گزرے تھے کہ امتیاز محمود کی والدہ کے انتقال کی خبر آگئی ،، ہم اس کے گاؤں سے واپسی پر اس سے تعزیت کرنے گئیں ، تو اس نے اپنی والدہ کا بتایا کہ وہ ساری عمر بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی رہیں ،،، اور نمازِ جنازہ میں ان کے رشتہ داروں سے ذیادہ ، اُن کے طلباء کی صفیں تھیں ،،، ! اللہ رحمت العالمین ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ آمین !۔
( منیرہ قریشی ، 3 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں