بدھ، 31 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہائے سفر)سفرِحج(4)۔

یادوں کی تتلیاں" ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِِ حج" (4)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
پہلا عمرہ ہوا ، اور ہم سب" شاد کام "ہو گۓ ،،ایک دوسرے کو مبارک باد،دی اور ہم خواتین اُس مقام تک آگئیں جو تجویز ہوا تھا ۔ ہم پہنچیں ہی تھیں کہ مرد حضرات بھی آنا شروع ہو گۓ ،، اقبال بھائی تو پہلے ہی کم بال والے تھے ، ان کے بال اور چھوٹے ہو گۓ ، ہاشم نے بھی آدھا انچ بال رہنے دیۓ تھے ، ، لیکن پاشا نے خود کو مکمل گنجا کرا لیا ،، تو کچھ دیر کے لیۓ اسے پہچاننا مشکل ہوا ،،، لیکن پہلے عمرے نے اطمینان و سکون عطا کر دیا ،، ہمارا یہ پیکیج پرائیویٹ تھا ،، انھوں نے اپنی پہچان کے لیۓ ،کوئی سکارف ، یا عبائیہ نہیں دیۓ تھے ،، اس گروپ کی خواتین نے اپنے طور پر اپنی پسند کا لباس پہنا ،،، ہم سب یہاں دنیا کے ہر کونے سے آئی قوموں کے افراد کے خدوخال ، لباس ، اور اُطوار بہ غور دیکھ رہیں تھیں ۔ اور آنکھ ، اور سوچ کا کینوس یکدم وسیع ہو گیا تھا ۔ کم ازکم میں ہر چیز ، ہر کونے ، ہر فرش ، ہر پلر کو بہ غور دیکھتی ، ، ، اور جب خانہ کعبہ میں آکر بیٹھتیں ،، تو وہ حدیث بھی یاد آجاتی " کعبہ کو صرف دیکھنے کا ہی 20 گُنا ثواب ہے" ،، اول تو مجھ سے ایک دو طواف ہو جاتے ،، پھر بیٹھ کر دیکھتی رہتی ،، کیوں کہ جس تواتر سے جوجی اور نگہت طواف کررہیں تھیں ، مَیں اُن کا ساتھ دینے کے ابھی قابل نہ تھی ۔اصل میں ابھی حج فلائیٹس بتدریج آ رہیں تھیں ، رَش کم ہونے کے باعث طواف کا دائرہ کم تھا۔ اور وہ دونوں ڈھیروں ثواب لوٹ رہیں تھیں ۔ ہوٹل بُرج الا قصیٰ بہت اچھا تھا ، ہر سہولت موجود تھی ، یہاں پہنچے دوسرا دن تھا کہ لاؤنج میں کسی نے بےتکلفی سے پکارا " منیرہ جوجو " !! مڑ کر دیکھا تو ایک لمبا ، دُبلا ، گنجا لیکن نہایت خوب صورت نقوش والا" آدمی " نظر آیا ،، وہ بہت پیاری مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ،، ہم دونوں نے چند لمحے اسے نہ پہچانا ، تو وہ فوراً  بولا " اجمل "،، وہ ہم دونوں سے چھوٹا ، ہمارا کزن " بابا " بنا سلام کر رہا تھا ، اس کا بچپن کا نام " گُگُلی " تھا ، اور ہم نے اسی نام سے بلایا ،، اس نے بتایا وہ اور اس کی بیگم ، ڈاکٹر طلعت چند دن پہلےسے آۓ ہوۓ ہیں ،،، اسے آج دوسرا دن ہے بخار ہے تھکن بھی ہو گئی ہے ، ، ، اس نے ہماراکمرہ نمبر پوچھا ، اور آنے کا کہا ، ہم لوگ اس وقت حرمِ پاک جا رہیں تھیں ،،،،،، گُگلی کی چار پیاری سی بیٹیاں ہیں ، تمیز تہذیب اور تعلیم سے آراستہ۔ وہ فوج میں کرنل تھا ،اور جب ہم ملے تو وہ حاضرسروس تھا ، اوراسی فوجی گروپ میں شامل تھا ، لیکن اتنا بڑا گروپ تھا کہ بعد میں ہم کسی دن نہ مل سکے ۔ دوسرے دن اجمل اور طلعت ہمارے کمرے میں ملنے آۓ ، اس کی بیوی بھی بہت مہذب ، اور اچھی لڑکی اور لائق ڈاکٹرہے ، تب باتوں میں اجمل نے بتایا ، ہم دونوں نے ایک ہفتے میں دو عمرے بھی کیۓ ، غارِثور میں اوپر بھی گئے ،، اور واپس آۓ تو اسے بخار ہو گیا ۔ اسی لیۓ غارِ حرا میں اسے نہیں لے کر گیا ،، میں نے اسے کہا تم خود فوجی ہو تم،،اتنی مشقت کے عادی ہو ، اسے تو اتنی مشقت میں نہ ڈالتے ،، طلعت کہنے لگی ، یہ ہی میں نے کہا تھا ،، لیکن اب وہ دونوں ہمیں اپنے تجربے کی روشنی میں کہنے لگے ،، بہت عمرے ،یا ، سخت مشقت والی زیارتوں سے بہتر ہے کہ تم لوگ اپنی توانائیاں حج کے لیۓ رکھو ۔۔ ایسا نہ ہو اس وقت تک بیمار ہی رہو ۔ ہم اجمل سے دوسرے ، تیسرے دن بھی ملیں ،، اور حج کی یہ مختصر ملاقات اس کے لیۓ اتنی اہم ہوئی کہ اس نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیوں میں خصوصی بلایا ،،، بڑی پہلے سے شادی شدہ تھی ،،، اور حج کے ٹھیک نو سال بعد اجمل ہارٹ اٹیک سے لمحے میں ختم ہو گیا ، اللہ اسے اپنی خصوصی رحمت کے ساۓ میں رکھے ، جنت الفردوس میں جگہ عطا ہو آمین ثم آمین۔ ،،اللہ تعالیٰ طلعت کو بہت ہمت و حوصلہ دے آمین !۔
دو تین دن مزید گزرے ، اب میری طبیعت بھی کافی بحال ہو چکی تھی، اسی لیۓ سب کی صلاح ٹھہری کہ دوسرا عمرہ کر لیا جاۓ ،، سب مرد حضرات نے اپنے احرام سنبھالے، ایک بڑی ٹیکسی لی گئی ، ، ، اور عمرہ کے لیۓ " مسجدِ عائشہ ر۔ض " کی طرف چل پڑے، ٹیکسی ڈرائیور بہت سنجیدہ مزاج تھا ،یا اسے عربی کے علاوہ کوئی اور زبان نہ آتی ہوگی ،،،باوجود پاشا کی خوش مزاجی کے وہ سنجیدہ سی شکل میں رہا ، ہم مکہ سے شاید مشرق کی سمت جا رہے تھے ،، یہ سارا راستہ بےآباد سا تھا ، اگر کچھ عمارتیں نظر بھی آئیں تو ورک شاپس ، یا چھوٹے سے کارخانے ٹائپ تھیں ،،، میں تو کھڑکی سے ہر پتھر ، ہر شجر ، ہر ٹیلے کو غور سے دیکھ رہی تھی ،،، اِن پر میرے نبیﷺ کی نظریں پڑیں ہوں گی ،،، انھوں نے میرے نبی کے پاؤں چومے ہوں گے ،،،، اور پھر وہ حدیث ؐ مبارکہ یاد آئ ،،،"" جب ایک دن آپﷺ اپنے صحابہ( رض) کے درمیان موجود تھے ،، تو 
صحابہ کرام ؒ نے سرخوشی سے کہا "ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ کو دیکھ اور سُن رہے ہیں ، اس پر آپؐ نے فرمایا " وہ ذیادہ اجر والے ہوں گے جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے " ،،،، یہ کیسی خوش خبریاں ہیں ، جن پر ہمیں یقینِ کامل ہے لیکن آپؐ کی سُنت پر عمل بھی ضروری ہے ۔ راستہ بھر دعائیں مانگتے، مسجدِ عائشہ تک پہنچے۔ جو خاموش سی باوقار مسجد تھی ، ( بارہ سال پہلے ) ،،، اللہ رحیم و کریم کی کس کس بات پر شکر گزاری کریں کہ اس نے کُل امتِ مسلماء کے لیۓ ،، حضرت عائشہ ؒ رض کی وساطت سے آسانی عطا کردی ۔ ورنہ ہر حاجی کو کسی دوسرے شہر جانا پڑتا ،، اور اس معاملے میں بھی مزید اختلافِ راۓ پیدا ہو جاتے ۔ 
مسجدمیں تازہ وُضُو کیا ، مرد حضرات نے احرام باندھے ، دو ،دو، نفل پڑھے ۔ اور واپس چل پڑے، ، گویا صبح سات بجے چلے ، اور اب نو ، بجے ہم واپس پہنچ گۓ۔ اس دفعہ طواف ختم کیا ، اور سعی کرنا شروع کی تو ،، دو خواتین ہمارے پاس ہی کھڑی تھیں ، ان میں سے ایک 36 یا 38 کی ہوگی ،، اور دوسری 35،،34 کی ہو گی لمبی سی لڑکی تھی ،، وہ شاید آج ، کی فلائٹ سے پہنچیں تھیں ، لب و لہجے سے سندھی یا سرائیکی لگ رہیں تھیں ، بڑی نے پی کیپ کے اوپر سکارف اوڑھا ہوا تھا۔ تاکہ کپڑا منہ سے دور رہے ،اور سچی بات ہے ، جب میں نے اسے کہا یہ آپ نے کیوں اس طریقے سے اوڑھا ہے ، ہٹا لیں اسے ، تاکہ صحیح نظر توآۓ ،، کہنے لگی مجھے خود بھی یہ طریقہ پسند نہیں ،،، لیکن میرے میاں کا آرڈر ہے ،،، البتہ دوسری لڑکی نے بڑی سی چادر لی ہوئی تھی ، دونوں نے کہا ہمیں آپ نے سعی کروانی ہے کیوں کہ ہمیں دعائیں بھی نہیں آتیں ،،، میں نے بہ خوشی انھیں اپنی ذمہ داری بنا لیا ، اور تھوڑا سا انھیں ان پہاڑیوں بارے بتا کر ، چکر شروع کیۓ ، ہر دفعہ صفہ یا مروہ پر چند لمحے کے لیۓ دعا کے لیۓ رُکتیں ،،،اور جب ہاتھ اُٹھاتیں ، تو لمبی والی لڑکی فوراً مجھے اپنے پیارے سرائیکی یا سندھی لہجے میں کہتی " باجی ، میری اقرا کی صحت کے لیۓ تُو دعا کر ، اور یہ دعا بھی کہ اللہ مجھے بیٹا دے ،،، میں ہر دفعہ اس کی طرف دیکھتی اور اس کے دل کی آرزوؤں کو آگے اس رب کے حضور بیان کر دیتی ،، اس کی دو بیٹیاں تھیں ۔ بڑی بیٹی اقراء تھیلیسیمیا کی مریضہ تھی ،،، وہ کتنے وثوق سے دعا کروا بھی رہی تھی اور کر بھی رہی تھی،، کیوں کہ اسے یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ یہاں دعائیں تو رَد ہو ہی نہیں سکتیں ۔ " ایک مرتبہ حضرت فضیل بن عیاضؒ حج کے دوران خانہ کعبہ سے چمٹے آہ زاری کرتے حاجیوں کو دیکھ رہے تھے ،، تو فرمایا " بخیل سے بخیل انسان کے در پر بھی کوئی اس طرح گِڑگِڑاۓ ، تو وہ بھی کچھ دے دیتا ہے ،،، یہ کیسے ممکن ہے کہ مالک و رازقِ حقیقی کے در پر کوئی اتنا گِڑگڑاۓ ، اور خالی ہاتھ جاۓ """۔ 
آخر میں ان خواتین کے بال بھی کاٹے ،، ان کی گھبراہٹ پھر شروع ہو گئی کہ ان کے مرد نظر نہیں آرہے تھے ،، ہم مزید 20،، منٹ رُکیں اور اس دوران وہ انھیں ڈھونڈتے آگۓ ،،، تو ہم واپس ہوئیں ، اس عمرے کی خوشی تو تھی ہی ،،، یہ خوشی دو چند ہو گئ کہ یہ حقیر بھی کسی کے کام آئی ۔ ،،، لیکن دوسری طرف اس بات پر افسوس ہو رہا تھا کہ ہمارے حاجی بغیر ٹریننگ ، بغیر کچھ دعاؤں کی یاد کے پہنچ جاتے ہیں ، اور غلطیوں کی وجہ سے بعد میں پچھتاتے ہیں۔
اب ، مزید تین چار دن گزر چکے تھے ، جب گروپ کے " بزرگ لیڈر " اقبال بھائ نے فیصلہ دیا ،، " کل منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات جائیں گے ،، اور غارِ ثور ، اور غارِ حرا کی زیارتیں کریں گے " لہذٰ ا صبح حرم کی طرف ذیادہ نہیں رکنا ،، ہم ٹیکسی کریں گے۔
( منیرہ قریشی ، 31 جنوری 2018ء واہ کینٹ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں