جمعہ، 5 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(74)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 74)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کی طبیعت 1996ء سے خراب رہنے لگی انھیں نہ بلڈ پریشر تھا اور نہ شوگر ،، البتہ یورک ایسڈ کا مسئلہ رہتا تھا ،، باقی وہ نہ تو کھانے پینے کے شوقین تھے،، نہ سُست تھے، وہ بڑھاپے میں بھی ایک خوبصورت انسان رہے ،، موٹاپا ان پر کبھی نہ آیا۔ جوں ہی وہ 80 سال کے ہوۓ ، وہ کچھ سُست ہو گئے تھے ،، چلتے وقت کچھ لڑکھڑا جاتے ، چھڑی پکڑنے پر آمادہ نہ ہوتے ،،، لیکن بھائی جان کے کہنے پر لیۓ رہتے ،،، انھوں نے زندگی میں ایک بدپرہیزی کی ،،، وہ تھی سگریٹ !! اور جب 75سال کے ہوۓ تو ایک دفعہ انھیں سانس کا سخت اٹیک ہوا ،،، ڈاکٹرز اکثر میل ملاقات والے ،،، یا اباجی کے عقیدت مند ہوتے ، جو گھر آکر بھی چیک کرتے ،،، دو میڈیکل سپیشلسٹ نے یہی کہا " اب نہیں تو کب ؟ بس اب سگریٹ چھوڑنا ہو گا " ،،، تب اباجی نے بات مان لی اور سگریٹ یکدم چھوڑ دیا ،، ! اور اس سے یہ ہوا کہ ان کی کھانسی کافی کم ہو گئی ۔ اباجی کی زندگی میں ، چند اچھی عادات ایسی تھیں ، جس کی عادت ہم سب بہن بھائی ، اور ہمارے بچوں میں بھی ہیں ،، وہ تھی سلاد وافر کھانے کی عادت،اباجی سلاد کے بغیر دوپہر کے کھانے کا تصور نہیں کرتے تھے ،، دوسرے ان کا آرڈر ہوتا کہ مٹن جب بھی پکے گا سبزی کے اندر ، اور شوربہ والا پکے ،، بھلے ساتھ دوسرا سالن جو مرضی بنے ! الحمدُ للہ ،، ہمارے والدین کے گھر کے افراد کم اور ملازمین ، یا مہمان اتنے ہوتے کہ روزانہ کا یہ ہی معمول تھا ،۔،، سلاد کھانے کے شوق کے علاوہ ، چاۓ کی آفر پر کبھی انکار نہ کرتے ، ، ، واہ فیکٹری سے ریٹائر منٹ کے بعد ان کے معمولات یہ تھے ،، صبح کی چاۓ خود بنانی ، اور دونوں میاں بیوی چاۓ بھی پیتے اور باتوں کے ساتھ ساتھ اباجی بیرونی گیٹ اور دروازے کھولنے چلے جاتے ،،، اماں جی کا ایک پھیرا پچھلے لان کا ہوتا ، جو جانوروں کی دنیا کا احوال جاننے کے لیۓ ہوتا ،، یعنی ہماری بھوری بھینس ، اور اسکے بچھڑے کا حال دیکھنا ،، انھیں پیار سے منہ پر ہاتھ پھیرنا ،، چند مرغیوں ، اور چند بطخوں کو کھانا ڈالنا ،، اور اگر بھینس کا رکھوالا پہنچ چکا ہوتا تو اس سے بات چیت کر کے اندر آجانا ،، لیکن اماں جی کا یہ معمول اُن کی صحت پر مبنی ہوتا ، جب کہ اباجی کا گرمی سردی یہی معمول ہوتا ،،، گیٹ کھولنے تک " دو تین اخبار آچکے ہوتے اور اب وہ دو گھنٹے کے لیۓ مصروف ہو جاتے ، ہم نے اباجی کی صبح ایسی ہی دیکھیں ۔ دوپہر سے پہلے پہلے میرے پھوپھا جی جو ہمارے گھر سے قریب رہتے تھے ( اور وہ اباجی کے چچا ذاد بھی تھے ) آجاتے دونوں اپنی مرضی کا پروگرام بناتے ، وہ اپنے ویسپا پر آتے ، اباجی پیچھے بیٹھتے اور دونوں حضرات ، نہ صرف گھر کی سلاد ، سبزی ، گوشت وغیرہ لے آتے ،، بلکہ واپسی پر میری اپنی پھوپھی جی کے گھر پہنچ کر چاۓ پی جاتی ، ،،اور پھر گھر آجاتے ،، دوپہر کا ہلکا پھلکا کھانا کھاتے ، اور قیلولہ ضرور کر لیتے ،، اباجی کی دوچچا ذاد بہنیں معہ اپنے "گروئینگ " ہوتے بچوں کے ساتھ رہتیں تھیں ،، وہ دونوں بیوہ ہوچکی تھیں ،، ہر دوسرے ، تیسرے دن اِن دونوں کزنز کا پھیرا ، اُن کے گھر لگتا ،،، اول تو وہ اپنے سب کام خود نبٹاتیں تھیں ،، لیکن اگر اباجی، اورچاچاجی ( اپنے پھوپھا جی کو ہم چاچاجی کہتی تھیں ) اُن کے گھر جاتے اور کسی کام کا مسئلہ ہو تو پوچھتے۔تو وہ بہت ہی خوش ہوتیں ،،، بعد میں عرصہ بعد وہ دونوں ایک محفل میں ملیں تو انھوں نے کھلے دل سے اپنے ان دونوں بزرگ کزن بھائیوں کا ذکر بہت دعاؤں سے کیا کہ " اِن کے آنے جانے سے ہمیں بہت حوصلہ ہوتا کہ اس گھر میں مردوں کے آمد ہے ، اس طرح ہمارا بھی آس پاس رعب پڑا رہتا ہے کہ یہ گھر صرف عورتوں ، یا بچوں والا ہی نہیں ۔
اباجی ،کو گھر کے سودا سلف لانے کی عادت بالکل نہیں تھی ، ظاہر ہے ایک از حد مصروف فوجی زندگی نے انھیں ایسی مصروفیات سے دور رکھا ، دوسرے اماں جی جو اپنے شوہر کی عاشق تھیں ، انھوں نے گھر کے ہر طرح کے محاذ سے اباجی کو بے فکر رکھا، یہ ہی وجہ تھی کہ جب ، مکمل ریٹائرڈ زندگی شروع ہوئی تو وہ چاچاجی عزیزالرحمٰن کےساتھ اس طرح پھرنا پسند کرتے ،، اُن کی صبح کی مصروفیت بھی ہو جاتی ، اوراسطرح خریداری کے انداز بھی سیکھتے رہے ،، دکانداروں سے واقفیت بھی ہونے لگی ، ، ، بنیادی طور پر اباجی ، چالاک نہیں تھے ( یہ حقیقت ہے ، میں صرف اپنے والد ہونے کی وجہ سے نہیں لکھ رہی ) ،، انھیں کوئی بھی بے چارہ بن کر ٹھگ لیتا تھا ،، اور اپنی بےکار چیز بِکوا لیتا ۔ لیکن انھیں اس پر کبھی غصہ نہ آتا ۔ خیر اُن کے لیۓ نہایت احترام کا جذبہ رکھنے والے ، اُن کے مختلف کزنز ، آتے ، محفلیں جمتیں ،،، چاۓ ، یا کھانے کے اوقات کے مطابق میزیں سجتیں ،، میں ان محافل میں دو قدم پیچھے رہ کر سب دیکھتی ، کوئی نا کوئی نئ ڈش بنا کر ساتھ رکھتی ، تو اباجی مزید نہال ہو جاتے ، لیکن میں ان محفلوں سے ،، غیرمحسوس طور سے بہت کچھ سیکھتی رہی ! ۔
۔( میں یہ لکھ رہی ہوں اور میری آنکھیں نم ہو رہی ہیں کہ آج میں یہ ہی سب کچھ چاہتی ہوں ، اوریہ ہی کر رہی ہوں ) اباجی کے پاس معلومات کا خزانہ تھا ، وہ ذیادہ تر خاموش رہتے ، بہت باتونی نہیں تھے ، لیکن جب کوئی آجاتا ،، تو وہ اس آنے والے کے" کیلیبر " کے مطابق اس سے باتیں کر لیتے، خاص طور پر جب ان کے عقیدت مند کزنز آتے تو اباجی خوب خوش ہوتے ۔ ان کے ایک چچا ذاد بھائی حمید چاچا تھے ،، وہ ذہنی طور پر کچھ بہت مضبوط نہ تھے ، انتہائی سادہ ،، کہ ہر کوئی ان کو ہلکا لیتا ،، وہ جیسے تیسے ، ایک فیکٹری میں کلرک کی پکی نوکری پر لگے ہوۓ تھے ، جب ہمارے ملک میں اتوار کی چُھٹی ہوتی تو پکی  بات تھی کہ حمید چاچا جی ، عین گیارہ بجے آئیں گے،،، اوراگر جمعہ کی چُھٹی کا آرڈر چل رہا ہوتا تو عین 11 بجے دوپہر کو چاچا جی بغیر دروازہ کھٹکھٹاۓ ہمارے گھر آتے ،،اور کاریڈور سے سیدھے پچھلے بر آمدے میں آپہنچتے ،، آتے ہی جو سامنے ہوتا ، پوچھتے ،،" بیٹا ، بھائی جان کہاں ہیں ؟؟ ۔ اور اگر اباجی سامنے بیٹھے مل جاتے ، تو سلام کے بعد کرسی کھینچ کر وہیں بیٹھ جاتے ، وہ ایسا مؤدب انداز اختیار کیۓ رہتے جیسے کوئی اپنے مُرشد کے آگے بیٹھا ہے ، اُن کے پاس کسی بھی قسم کی باتوں کا موضوع نہ ہوتا ،،، جو اباجی پوچھتے ، بس وہ اُسی بات کا جواب دیتے ،، اباجی چاۓ کا پوچھتے ، وہ انکار کر دیتے ،، لیکن کبھی کبھار اباجی زبردستی پلاتے ،، پیالی پکڑتے ، تو اُن کے ہاتھ مسلسل کانپتے رہتے ! اباجی ، ان کے ساتھ بہت نرم طریقے سے بولتے ،، کچھ سمجھاتے بھی رہتے ، کیوں کہ اپنے گھر اور نوکری پر توجہ دیا کرو وغیرہ ،،، وہ جی اچھا ،، جی بھائی جان ،، کہتے جاتے ،، دونوں کزنز کبھی کسی واقع کو یاد کرتے تو ان کی ہنسئ بھی کچھ عجیب سی نکلتی ،، اور کچھ دیر اور بیٹھ کر وہ ٹھیک 12 یا ساڑھے بارہ اُٹھ جاتے ،،اُنھیں کتنا بھی روکا جاتا ،، وہ کبھی بھی کھانے پر نہ رُکتے ،،، یہ معمول اتنا رٹا رٹایا چلتا کہ کسی چُٹھی کو وہ نہ آسکتے تو سب ہی ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ،،، گویا اس ایک گھنٹے والی " ایپیسوڈ " کے بچے، بڑے سب عادی ہو چکے تھے ،،، ایک دن حمید چاچا بہت اہمیت والی شکل کے ساتھ سیدھے پچھلے برآمدے میں پہنچے تب ، انھوں نے محض عادتاًملازمہ سے پوچھا " بھائی جان کدھر ہیں ؟ " حالانکہ اباجی سامنے ہی دھوپ سینک رہے تھے ، انھوں نے اس دن سلام بھی نہ کیا اور کہا " مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے "! اباجی نے کہا " ہاں بتاؤ کیا کام ہے " کہنے لگے نہیں یہاں نہیں ، آپ اپنے کمرے میں چلیں ! اباجی نے کہا ٹھیک ہے ذرا میں اپنا سلاد ختم کر لوں ،،، تب تک وہ نہایت صبر سے بیٹھے رہے۔ جب اباجی انھیں لے کر کمرے میں آۓ تو انھوں نے نہایت رازدارانہ انداز سے کہا " بھائ جان ، مجھے محسوس ہوا ہے کہ آپ کا گزارا بہت مشکل سے ہو رہا ، میں نے بیوی سے چُھپ کر کمیٹی ڈال رکھی تھی ، اب یہ کمیٹی نکل آئی ہے میں 8 ہزار روپے آپ کے لیۓ لایا ہوں ،، آپ لیں گے تو مجھے بہٹ خوشی ہو گی ۔ بلکہ آپ کو لینا پڑیں گے !!!۔
اباجی ،،، نے کچھ دیر سوچا ، اور کہا ٹھیک ہے حمید ، رکھ جاؤ " ،،، اُن کے چہرے پر بےاختیار مسکراہٹ باہر صحن میں آکر بھی پھیلی رہی ۔ وہ کچھ دیر ہی بیٹھے ، اور چلے گئے،،، اُن کے جانے کے بعد اباجی نے سارا واقع سنایا ، تو اُن کی آنکھیں نم ہو گئیں ،، کہنے لگے ،،، اپنے سارے خاندان میں انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتا ،،، اسے محض میری توجہ ، نے یہ سُجھایا کہ شاید بھائ جان ریٹائر ہوچکے ہیں تو انھیں پیسے کی ضرورت نہ ہو ! تو یہ اُس نے اپنی سمجھ کے مطابق میرا" خیال " کیا ہے " ،،، چاچا جی اگلے دو ہفتےمزید آۓ ،، اباجی کا کہنا تھا کہ وہ جذباتی لمحوں سے نکلے گا تب امانت واپس کروں گا تو اسے بُرا نہیں لگے گا " وہی ہوا تیسرے اتوار کو چاچا جی آۓ تو اباجی نے انھیں کہا " حمید ، میرا ایک ضروری کام ہے ، ذرا میرے کمرے میں آؤ ،،، وہ تابعداری کے انداز میں پیچھے چلتے ہوۓ گئے" تب اباجی اسی رازدارانہ طریقے سے کہا ، " مجھے پیسے جس کام کے لیۓ چاہیۓ تھے ، وہ مسئلہ حل ہو گیا ہے " سوچا جب مسئلہ ہی نہیں رہا ، تو حمید کو اپنے بچوں کے لیۓ ضرورت ہوگی ، یہ اپنی امانت لو ، اور سیدھے لے جا کر بیوی کو جا کر دو " ،، انھوں نے مسکراکر ، کہا ، جی اچھا ! اباجی ، دراصل اپنی طرف سے"جس کا جس وقت بھی ، جس حد تک جائز کام ہوتا" ،،، اپنے رشتہ دار ،یا ملنے والے کو اپنی وسائل سے فائدہ پہنچاتے رہے تھے ،،، لیکن " اِن کو ایکنالج " کوئی کوئی کرتا  ،،، !جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ،، اباجی کی یادداشت متاثر ہوتی جا رہی تھی ، اور اسی بنیاد پر اُن کا علاج ہو رہا تھا ،،، !۔
( منیرہ قریشی ، 5 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں