جمعرات، 18 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(82)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 82)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
،،،، تو گویا اللہ تبارک تعالیٰ نے " کراۓ کے اس گھر میں میرا جانا ، پارک میں جانا ، اُن بچوں کا ملنا ،، جن پر تجربہ ہوا ، اور نئے سکول کی،پہلی اینٹ کا باعث بنے ،، اور یوں " کوشش پبلک سکول " کا اجراء ہوا ،،، اور ، اِن بچوں کوداخلے کے وقت جو مشکلات پیش آرہی تھیں ، انھیں ذہن میں رکھا ، کہ ایسا ادارہ ہونا چاہیے، ، ، جو ایسی ڈیمانڈز نہ مانگے جو ٖغریب اور ان پڑھ لوگوں کے لیے پورا کرنے میں وقت لگ جاۓ ، بچہ مزید وقت ضائع نہ کر سکے !! بس بچے آئیں ، اورہم انھیں پڑھائیں ،، جب وہ اس " فَلو " میں آئیں گے تو جو ان کے نصیب میں ہوا حاصل کرتے رہیں گے ؟ ، ،اور پڑھائی کے دوران ان کے والدین سے آہستہ آہستہ کاغذات بھی مکمل کروا لیں گے ،، تاکہ کچھ کلاسز کے بعد انھیں سرکاری سکول میں داخل کروا دیں گے۔
وہ سکول جس میں صرف مزمل ایک طالب علم تھا ،، ایک سال کے اندر جب 20 بچے ہو گئے، جو مختلف " کیلیبر " کے تھے ، ایک ٹیچر تعینات کی گئی۔ لیکن چند مہینوں بعداس بچی کو آگے ایم اے میں داخلہ لینا تھا ،، سو وہ چلی گئی۔ اب ان کے کچھ پیرئڈز مَیں اور کچھ جوجی لیتی رہی ،، یہ اُسی بند کرواۓ گئے بر آمدے میں بیٹھتے رہے ۔ فوری طور پر ابتدائی کتابیں ، اپنے سکول کی نرسری ، اور پریپ کی ہی شروع کروائیں ،، کیوں کہ اِن کا کورس ہم نے بہت ریسرچ کے بعد سیٹ کرنا تھا ۔ یہ 20 بچے ، مختلف عمر اور ذہنی سطح کے مالک تھے ۔ اس لیۓ انھیں ایک وقت میں ایک کمرے میں رکھنا خاصا مشکل کام ، اور ان سے ذیادتی کا باعث ہو رہا تھا ،، لیکن ہمارے پاس نہ تو کوئی اور فالتو کمرہ تھا اور نہ ابھی گنجائش تھی کہ کوئی اور بلڈنگ کراۓ پر لی جاۓ ۔ چناچہ ایک سال کے بعد فیصلے ہوۓ کہ ،،،،،،،،1) اب " کوشش سکول " کو شام کی شفٹ میں منتقل کیا جاۓ ،2) جو بچے آرہے ہیں ، اور پڑھنا چاہتے ہیں ، آتے رہیں ، والدین ان کے کاغذات بتدریج مکمل کرتے رہیں گے ،، اور ہماری اس تعاون پالیسی سے بے شمار والدین جاگے ، اور کئ نے اپنے آئ ڈی کارڈ بنوا لیۓ ، بلکہ بچوں کے " ب" فورم بھی بنتے گۓ ،،3) سب سے پہلے ان کے لیۓ کاپیاں ، کتابیں خرید کر ان میں تقسیم کی جائیں ، حتیٰ کہ پینسل ، ربر ، شاپنر ، بھی خرید لیۓ گۓ ، تاکہ بچہ ان چیزوں کے نہ ہونے کا بہانہ بھی نہ کر سکے ، 4) نئی ٹیچرز ، اگر تعینات کرنی ہیں تو وہ با حوصلہ ہوں ، تاکہ وہ "ہاتھ کا استعمال نہ ہی کریں ، تو بہتر ہو ،، 4) فی الحال ہماری گنجائش نہیں تھی کہ ہم انھیں یونیفارم ، یا بیگز دے سکیں ،، اس لیۓ اپنے سکول کے بچوں سے اس وقت ، جب وہ نئی کلاسز میں جا رہے ہوتے،،، صبح اسمبلی میں " کہلوا دیا جاتا ، اگر آپ میں سے جو بچہ پرانا یونیفارم ہمیں دینا چاہتا ہے تو دے دیں ،، وغیرہ ! (اور یہ کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے اپنے یونیفارم ، سویٹر وغیرہ بہ خوشی دینے لگے )5) 10 سال سے ذیادہ بڑے لڑکوں کو داخلہ دینا منع تھا ،، کیوں کہ لڑکے ، قابو میں نہیں آتے ہیں ،،،6) یہ سکول کسی این جی او کے تحت نہیں ہو گا ۔ اور آج تک نہیں ہے ، اسے ہم صبح کے سکول کی آمدن سے چلاتی ہیں ،الحمدُللہ ! اب تک اس رب کے کرم سے یہاں تک پہنچیں ہیں ، تو آگے بھی وہی والی و وارث ہے ،7) یہ سکول نرسری سے جماعت پنجم تک رہے گا ،،، آگے چل کر انھی بچوں کو سرکاری سکول میں داخلہ کرانے کی کوشش کریں گے ،، اگر ان میں کوئی " سپارک " ہوا ، تو !!!یہ اور اس قسم کے خیالات کے تحت ایک لاحۂ عمل تیار کر لیا ، اور بہت حد تک یہ سب " لچکدار " تھا ،،، کہ جب ضرورت پڑتی گئی ، ان نکات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی رہی ، جوں ہی ہم نے یہ سکول " مین برانچ " میں شفٹ کیا، ( 2006ء 2007ء ) آس پاس کے بہت سے بچے جو سرونٹ کواٹرز میں رہتے تھے،نیز وہ بچے جو اپنے ماں باپ کے " مدد گار" بن کے بنگلوں میں صبح کے وقت کام کرتے ہیں۔اُن کے آنے کی ہمیں بہت خوشی تھی کیوں کہ ایسے بچے ذیادہ شوق و ذوق سے آتے ہیںِ ِ،ایک کلاس ایسی تھی ،، اور ،، ہے جس میں"اوورایج" 
بچے داخل کرنے پڑے ، انھیں کبھی کسی سکول جانے کا اول تو موقع ہی نہ ملا تھا ، اور کچھ ایسے تھے جن کو ایک ، دو سال جانے کے بعد پھر کوئی چانس نہ ملا تھا !ان سب کو نرسری کی کتابوں سے شروع کرایا گیا ، پھر پریپ پڑھائی جاتی ہے ۔اور اس کے بعد جماعت اول ، میں داخل کرنے سے پہلے ان کے امتحانات اور کار کردگی دیکھتے ہیں پھر کلاس ون میں داخل کرتے ہیں ،، اور اگر اس میں کوئ بہت غیر معمولی بچہ ہو تو اسے ، ڈبل مرموشن دیتے ہیں ، لیکن ان 12 سالوں میں ایسے صرف دو واقعات ہوۓ ہیں ،،،اسی طرح کوشش سکول کے بچے جو نارمل ایج کے ساتھ پڑھ رہۓ ہیں ، اُن میں سے بھی صرف 3 بچے ایسے ہیں جنکی بہترین کارکردگی سے ہم نے انھیں اپنے صبح کے سکول میں کروایا ہے ، اور الحمدُللہ ، وہ اچھے جا رہے ہیں ،،،!اسی دوران ، 5سال کامیابی سے گزر گۓ اور ، کہ اس نۓ تعلیمی سال میں ، ہماری سہیلی شاہدہ نے سکول کے بچوں کی تعداد کا پوچھا ،، تو ہم نے بتایا اب 200 بچے ہیں ، تو اس نے اتنے ہی سکول بیگز بھجواۓ کہ اس دفعہ یہ میری طرف سے ان بچوں کے لیۓ تحفہ !! سب ہی خوش ہوۓ لیکن بچوں کی خوشی ، دیکھنے لائق تھی۔ اور اس سے اگلے سال انکل رشید (شاہدہ کے ڈیڈی )نے سکول کےتمام بچوں کے لیۓ یونیفارم ، جوتے ، سویٹریں ،بھجواۓ ، بچوں کی خوشی تو سمجھ آتی ہے لیکن ٹیچرز بھی خوش تھیں ،،،کوشش سکول کی شروع دور میں ، مَیں خود ہی بیٹھتی رہی لیکن ابھی چُونکہ صبح کے سکول میں بھی ایکٹیو تھی ، اس لیۓ بھی اور ،، اور اگر کہیں جانا پڑ جاتا ، تو مسلہ پیدا ہو جاتا کہ کوشش سکول کو کون سُپروائز کرے گا ،،،،ہمارے " مارگلہ گرامر سکول " کی اکاؤنٹنٹ ، "راضیہ"چندسالوں سے ہمارے ساتھ تھی ، اور کچھ گھریلو مجبوریوں کے باعث وہ سکول سے چُھٹی کے بعد دو جگہ ٹیوشن پڑھانے جاتی تھی ، اس نے ایف ایس سی کے بعد بی اے ، اور پھر اردو میں ماسٹر کر رکھا تھا ،، گویا ایک وقت میں وہ ، پنجم لیول کی سائنس ، یا انگلش ، مضامین کو چیک کر سکتی تھی ،،، ہم نے اس کا انتخاب کیا ، اور پوچھا "کتنا ان ٹیوشنز سے لے رہی ہو" اس کے بتانے پر ہم نے اِس سے ذیادہ کی پیشکش کی ، تو فورا" راضی ہو گئی کہ اچھا ہے مجھے اُٹھ کر کہیں جانا نہیں پڑے گا ،،، اور یوں ہمیں " مس راضیہ " کی صورت میں " اَن تھک ورکر" مل گئی جس کی ایمان داری تو ہمیں معلوم ہو چکی تھی ! اس طرح ہم دونوں مل کر ان کے سلیبس کو بناتیں ، ان کی مزید ایکٹیوٹیز پر عمل درآمدکا سوچتیں ۔ ہم نے کوشش سکول کے شروعات میں ہی ایک اکاؤنٹ کھول لیا تھا ، تاکہ کسی قسم کی رکاوٹ نہ آنے پاۓ ،،، لیکن اللہ رحیم و کریم نے اِن بچوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی ۔ اور قارئین سے بھی دعا کی التماس ہے!۔
( منیرہ قریشی ، 18 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں