ہفتہ، 27 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں (سلسلہ ہائے سفر)۔سفرِحج(1)۔

یادوں کی تتلیاں " (سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِ حج " (1)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔8 ،اکتوبر ہفتہ کا دن تھا ،، اور رمضان چل رہا تھا ، میری بہو اور پوتی اپنے ننھیال گئی ہوئی تھیں ، اور چھوٹا بیٹا ہاشم ، بھی گھر پر نہیں تھا ، میں ، اور علی ہی گھر پر تھے اور روزہ رکھ کر نماز کے بعد سوۓ ہوۓ تھے ، کہ ہفتہ چھٹی اور آرام کا دن تھا ،، صبح ، شہناز کو گھر کے اندر آنے کا طریقہ پتا تھا ،، ہم بےفکر رہتے تھے ، ،، 8 بجے کے قریب ،یا ذرا اس کے بعد کا وقت ہو گا کہ زلزلے سے کمرہ ہلنے لگا ، یہاں زلزلے آتے رہتے ہیں اور میں اور علی " پینک " نہیں ہوتے تھے ،،، لیکن کمرہ مسلسل ہی ہلنے لگا ، تو میں دروازے پرآ ،کھڑی ہوئی دیکھا تو شہناز ، سخت پریشان شکل کےساتھ لاؤنج کے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔ علی نے آواز دی ، اماں ، باہرٹیرس پر آجائیں ۔ اور وہ وہاں کا دروازہ کھول کر مجھے بلانے لگ گیا ، لیکن شہناز کے لیۓ تو کھڑا ہی ہونا محال ہو رہا تھا اور اب میرے لیۓ بھی حرکت مشکل ہو رہی تھی ، میں نے شہناز کو کہا چند قدم بیٹھے بیٹھے آگے بڑھو ،، وہ بےچاری آگے آئی ، دو قدم آگے میَں نے بڑھ کر اسے اپنی طرف کھینچا ،، اور کلمہ پڑھتے ہوۓ ہم دونوں اپنے کمرے کی چوکھٹ تلے کھڑی ہو گئیں ،،، اور یہ منظر ، کہ سارا گھر ایسے پانی کے جہاز کی طرح تھرتھرا رہا تھا کہ لگتا تھا ، بس ابھی ایک زور کا جھٹکا آجاۓ گا اور سب تہس نہس ہو جاۓ گا،،، کہ جھٹکوں میں کمی آئی ، اور پھر زلزلہ رُک گیا ۔ جلدی جلدی اپنی بیٹی کا نمبر ، پھر بھائی جان اور سب بھانجے بھانجیوں کو فون ملا ملا کرخیریت پوچھی ،،، اور پھر ٹی وی کھول لیا ،،، پورے ملک کی صورتِ حال تشویشناک تھی ، فوری طور پر خبریں یہ تھیں کہ زلزلے کا مرکز آزاد کشمیر تھا ، اور اس سے رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا ۔ کہ پتہ چلے کہ وہاں کیاقیامت گزر گئی ہے !۔
اور جب تک شام ہوئی ، یکدم آسمان پر سیاہ بادل چھاۓ ، اور پھر جو مینہ کے ساتھ ژالہ باری ہوئی ،،، کہ لگتا تھا زلزلے کے بعد ایک اور آزمائش آگئی ہے ۔ یہ ژالہ باری مسلسل 20 ، 25 منٹ جاری رہی ۔ میں نے کھڑکی سے یہ خوفناک منظر دیکھا ، اور روزہ داروں کی حالت ، سردی کا سوچ کر ہی دل غم سے بھر گیا ۔ یہ ایک دہلا دینے والا دن تھا ۔ رات  تک غم انگیز خبریں آنے لگیں کہ ، کہ آنسو بےاختیار ہو گئے،۔
اور اگلے ہی دن پاکستان کی پوری قوم پھر ایک مُٹھی ہو کر اپنے برباد شدہ علاقوں میں مدد پر جُت گئی ۔ ترکی اور چین کی امدادی ٹیمیں معہ ڈاکٹرز ، نرسسز ، تمام ایسے خیموں کے ساتھ آگئیں ، جو موبائل ہاسپٹل تھے ، یہ بےحد ضروری مدد تھی ، لیکن ، آزاد کشمیر سے ایسی دردناک خبروں کا تانتا بندھ گیا کہ، دل غم سے پھٹنے لگا ، ہر واقعہ پہلے سے زیادہ دکھ والا ہوتا تھا ، سب نے جتنا ہو سکا ، عارضی گھروں ، اور سردی کے بچاؤ کے لیۓ امداد پہنچائی ، علی کا ایک دوست خرم ، تو ایک بڑی وین میں کمبل ، رضائیاں اور برتن وغیرہ لاد کر جاتا ، اور وہاں تقسیم کر کے آتا ، اسی کے ایک پھیرے میں علی بھی ساتھ چلا گیا ، اور ہمیں مزید وہاں کی  صورتِ حال سمجھنے کا موقع ملا ،یہ صرف امداد نہیں ،، بلکہ یہ ہم سب کا فرض بھی تھا ، اللہ تعالیٰ سب کی کوشش اور ہمدردی کو قبول فرماۓ ،،، اسی زلزلے میں ہمارے جاننے والے ایک ڈاکٹر کرنل کی دو بیٹیاں چھت گرنے سے شہید ہو گئیں وہ اُن دنوں آزاد کشمیر میں پوسٹ تھے ، ان میں سے ایک بچی ہمارے سکول کچھ عرصہ پڑھ کر گئی تھی ۔ ان کی میتیں واہ میں ان کے دادا کے گھر لائی گئیں میں اور جوجی ، سکول سٹاف کے ساتھ ان کے گھر گئیں تو سبھی، ماں کا حوصلہ دیکھ کر آفرین کہنے لگے ، !۔
یہ سال پاکستان کے لیے شدید دکھ بھرا سال ہے کہ ، آج بھی 8 اکتوبر کادن آتا ہے تو ، میڈیا ، ان درد ناک واقعات کو دہراتا ہے ، اور اس دن ہر گھر ، کا موضوع اتنا خوفناک زلزلہ ہوتا ہے جو 6ء7 ریکٹر سکیل پر تھا ،، جو ایک منٹ اور کچھ سیکنڈ رہا لیکن سارے آزاد کشمیر کو نیچے ، سے اوپر ، کر گیا ،، لاکھوں گھر اور گھرانے تباہ برباد ہو گۓ !! یہ زلزلہ دنیا کے بڑے زلزلوں میں سے پانچویں نمبر کا تھا ، اور پاکستان کے صوبہ پنجاب اور کے پی کے ، میں بھی اس کے شدید اثرات آۓ تھے ،، ذیادہ تر لوگوں کی اپنی مدد آپ کے تحت ہی مسائل حل کیۓ گۓ ۔ ،، اور اتنے بڑے سانحے ، کے زخم بھرنے میں بھی وقت تو لگنا تھا۔
نومبر 2005ء کا دوسرا ہفتہ تھا۔ انہی دنوں " حرمین ایجنسی " والوں نے ہمیں فون پر اطلاع دی کہ، ہم تینوں کے حج کے کاغذات مکمل ہو گئے ،، آکر لے جائیں ۔ اور تب ہم نے خود کو جسمانی ، اور ذہنی طورپر تیار کرنا شروع کر دیا ، ورنہ زلزلے کے حادثے نے ہم سے حج کا جوش وخروش ختم کر دیا تھا ، اور جیسے یہ بات ہمارے ذہنوں سے محو سی ہو گئی تھی ، ، لیکن یہ ہی زندگی کے نشیب و فراز ہیں کہ بندے کی قوتِ برداشت ، سے وہ جھیلتا چلا جاتا ہے۔ 
حج سے متعلق کچھ مپفلٹ ،" الہُدیٰ اسکول " سے منگواۓ ، اور اس دوران " حرمین حج ایجنسی " والوں کی طرف سے اس ایک ڈیڑھ ماہ میں دو مختلف ورک شاپ کرائی گئیں ، اور واہ کینٹ کے اندر بھی دو ، لیکچرز کا اہتمام کیا گیا ، جسے کروانے والے ، ہر سال اللہ کے مہمانوں کی خدمت سمجھ کر خود ہی کرواتے ہیں ،، ہم یہ سب بھی اٹینڈ کرتی رہیں ۔ اور اب شام ہوتے ہی ہم دونوں لمبی سیر کے لیۓ نکل جاتیں ، تاکہ پیدل چلنے کی عادی ہو جائیں ،،، ، ! اور اپنے " دنیاوی سامان ِ سفر " کی شروعات بھی ہوئیں ،، کچھ نئے  کچھ پہلے کےکپڑے ، جوتے جو دراصل بہت سستے سلیپرز کی صورت میں تھے ،، کہ بتایا یہ ہی گیا کہ اکثر یہ سلیپرز مسجد سےباہر آئیں تو غائب ہوتے ہیں ،اس لیۓ تین ، چار ، جوڑے فالتو ہونے چائیں ۔ نیز عیدِ الاضحیٰ بھی آۓ گی تو اس کا ایک جوڑا ، بھی وغیرہ ۔ لیکن ہاشم کا خیال تھا کہ وہ تو ایکٹیو ہے اور اسے ان تیاریوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں ، وہ آخری دن تک اپنی جاب پر بھی جا تا رہا تھا ،،، جب کہ دوسری طرف ہماری " لیڈنگ پارٹی " یعنی اقبال بھائی نگہت،،،،،، تو ہم سے ذیادہ " آرگنائز " ورکشاپس سے بہت کچھ سیکھ رہی تھی !دراصل ہم سب چھے افراد کا یہ پہلا حج تھا ،،، اور ہم سب کا پہلا غیرملکی سفر بھی ۔ ،،، اور یہ سفر تو " سفر الخاص " تھا ۔ 
اس دوران ، ہم دونوں سکول بھی جاتی رہیں ،، اگلے 40 دن کی غیرحاضری کے لیۓ ، اپنی سینئر موسٹ ٹیچر " شیما زاہد " کو تیار کرتی رہیں۔کیوں کہ ہمارے بچوں میں سے سبھی اس سٹیج پر تھے کہ وہ ابھی ایک بڑے سِٹ اَپ کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے ،، شیما کے بارے میں پہلے بھی لکھا تھا کہ وہ نسلوں سے تعلیمی شعبے سے وابستہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے ،، اور خود اس کے اندر ،،سر تا پا ، ، اچھے استاد کی صلاحیتیں تو ہیں ہی ،، لیکن جب سے ہم نے اسے " مین برانچ " کی انچارج بنا دیا تھا ، اس کی انتظامی صلاحیتوں سے بھی ہم مطمئن تھیں ، سکول تو ایک ہی تھا لیکن اسے جگہ کی کمی کے باعث پھیلا کر تین حصوں میں کر دیا گیا تھا ،، مین برانچ ، پہلی جماعت سے جماعت ششم تک کی تھی ، پلے گروپ تا پریپ ، ایک الگ بلڈنگ میں اور ساتویں سے دہم تک کی جماعتیں ، تیسری بلڈنگ میں شفٹ ہو چکی تھیں ،،، اسی سینئر برانچ کی انچارج میں خود تھی ،، اور عارضی طور پر اپنی" کور آرڈینیٹر " مسز سلمیٰ کو دیکھ بھال کی ٹریننگ دی ،، تاکہ وہ اس کے مسائل" شیما سے ڈسکس کر کے حل کرتی رہے ۔ جبکہ پلے گروپ تا پریپ کی انچارج" مسز فرحت ممتاز " کا اب کچھ عرصہ گزر چکا ، اور وہ اپنے کام کو بہت حد تک سنبھال چکی تھیں ۔اس لیۓ شیما   اس برانچ کے لیے اتنی فکرمند نہیں تھی ۔ ،،، اور صورتِ حال کچھ اتنی اطمینان بخش چل رہی تھی کہ ہمیں اس سلسلے میں کوئی ذہنی دباؤ بھی  نہیں تھا ،،،یہاں مَیں اس بات کو لکھنا چاہوں گی کہ "بہت سے معاملات میں ہمیں دوسروں پر اعتماد کرنا بھی پڑتا ہے، ، کرنا بھی چاہیۓ ،، اور ہمیں اپنے ساتھ کام کرتے رہنے والوں کی عزت کرنا چاہیۓ ، اسی طرح ہی ایک بہتر ٹیم سامنے آتی چلی جاتی ہے ۔ اور ایک ادارہ اسی طرح مضبوط بھی ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر صرف ایک ہی بندہ اپنے آپ کو " عقلِ کل " اور " پر فیکٹ " سمجھ کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ، تو اسے بااعتماد ٹیم نہیں مل پاتی اور وہ خود بھی " کام کے شدید دباؤ " میں رہتا ہے ،، ! ۔
اللہ کا شکر ، شیما ، فرحت ، اور سلمیٰ نے اپنے اپنے کام بہ خوبی سمجھ لیۓ ،، اور ہمیں بےفکر ہونے کا کہتی رہیں۔،،، ہم پچھلے کئی سالوں سے دسمبر میں ، سارے سکول کا "آرٹ اور سائنس ایگزیبیشن " کروا رہے تھے ۔ اور اب ہماری حج کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ تھیں کہ، اس تقریب کا جو نوٹیفیکیشن بچوں میں تقسیم ہوا ، اس پر 10 دسمبر بروز ہفتہ درج تھا،،، اور دو دن بعد ہمیں حج فلائٹ کا پیغام ملا کہ 11 دسمبر کی آپ کی فلائٹ صبح 4 بجے روانہ ہو گی ۔۔۔۔ لیکن ہم نے اسی شیڈول کے تحت پروگرام قائم رکھا  کہ سکول کے روٹین کے مطابق ہر چیز چلتی رہے ،، اور ہمارے بکس بند ہو گئے ،، میری بیٹی پنڈی سے آچکی تھی ،، اور میری تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں کو پیک کر چکی تھی بلکہ اس نے اپنے بھائی کا ، اور خالہ کے سامان کو بھی بہ نظرِ خاص دیکھا ،، کہ کوئی چیز رہ نہ جاۓ ۔ اُس میں یہ خاص صلاحیت ہے کہ وہ کسی جگہ جانےکے وقت صرف اپنی فکر نہیں کرتی ، ، ، بلکہ اپنی ساتھ جانے والی ٹیم کے سب ممبران کو اپنی پوری مدد دیتی ہے ،، اور اس صلاحیت کے استعمال میں کبھی " بخیلی " نہیں کرتی ۔۔ اُس کی اس عادت پر مجھے فخر ہے ،۔ اسی عادت نے اسے سسرال میں بھی باعزت مقام دیا ہے ،، اللہ اسے ہمیشہ شاد و آباد رکھے ، آمین ثم آمین !۔
میری بہو ان دنوں نئےآنے والے بچے کی تیاری میں تھی ، اسے ڈاکٹر نے 25 دسمبر کی تاریخ دی ہوئی تھی ، اور وہ اپنے بیگز کو پیک کر رہی تھی کہ میرے جانے کے اگلے دن ہی اسے اپنے والدین کے گھر اسلام آباد جانا تھا ،، اور اس کا ہاسپٹل بھی اسلام آباد ہی میں تھا ۔ اب گھر میں صرف علی نے رہنا تھا ، جسے اِن بچوں کی پرانی اور مزاج دار " گورنس " ،، شہناز نے سنبھالنا تھا ،، میرے لیۓ میرے اللہ نے آسانیاں ہی آسانیاں کر رکھی تھیں ، اور ہیں !!!۔
۔11دسمبر 2005ء کا دن سکول کے " ایگزیبیشن " کا مصروف دن گزرا ، اس سے حاصل ہونے والی تمام تر آمدنی ہم ہرسال "نشیمن " سکول ( گونگے بہرے بچوں کا سکول ) کو دیتے آۓ ہیں ،، ان کی پرنسپل کو بلا رکھا تھا آفس میں ہی انھیں یہ رقم پیش کی گئی ، وہ بہت خوش تھیں کہ ان بچوں کی کچھ اہم ضروریات کی خریداری کی رقم مل گئی ہے ، الحمدُللہ ! ، شام چار بجے تک فارغ ہوئیں ،، ہمارا رات کا کھانا ، آپا کے گھر تھا ، جس میں میرے سب ہی بچے ، جوجی کی تینوں بیٹیاں ، اور ایک ہماری چچی بھی موجود تھیں ،، سارا سامان علی کی کار میں رکھا جا چکا تھا ، رات کے کھانے میں انتہائی مزیدار مٹن پلاؤ تھا ، علاوہ اور لوازمات کے ،، ( مجھے آج بارہ سال بعد بھی ایک ایک تفصیل یاد آرہی ہے کیوں کہ میں نے اس پہلے "سفرِِ خاص" اور حج کے اہم فریضے کی جزیات کو ذہن سے محو نہیں ہونے دیا ۔ الحمدُ للہ )،،، ۔
( منیرہ قریشی ، 27 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں