اتوار، 7 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(76)۔

 یادوں کی تتلیاں " (76)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کی خدمت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ تو کسی کی طرف سے ہو رہی تھی ، نہ کسی کوتاہی کو برداشت کیا جاتا تھا ،، اُن کی بیماری میں ، اباجی کی چھٹی حِس شاید تیز ہو گئی تھی ،،، کہ وہ بےدھیانی سے بعض ایسے جملے کہہ دیتے ، جس میں ان کی مضبوط ٹیلی پیتھی کا انداز ہ ہوتا ، ایک دن یکدم اُٹھ کر بیٹھے اور اپنے بہت ہی عزیز ترین دوست کرنل افضل کو آوازیں دیں ،،، اور پھر کہا " بھئ افضل کی فیملی آگئی ہے ، چاۓ تیار کرو "۔
ہم سمجھ گئےکہ کوئی خواب دیکھا ہے ، کیوں کہ افضل چاچا کو فوت ہوۓ اس وقت تک 18 سال ہو چکے تھے اور ان کی فیملی گجرات میں رہتی تھی۔ البتہ ان کی ایک شادی شدہ بیٹی وہیں واہ میں رہتی تھیں ، جن سے کبھی کبھی ملاقات ہوتی رہتی ۔ اور حیرت ہوئی جب اگلے دن افضل چاچا جی کی بیوی ، بیٹی اور دو بیٹے ہمارے گھر آۓ ،،، اور ہم گھر والوں میں سے کسی کواُن کی آمد کا علم نہیں تھا ۔ کہ وہ اپنی بیٹی کی طرف ایک دن پہلے ہی پہنچیں تھیں ۔ 
اللہ کا شکر کیسے ادا کرتی ہوں کہ اباجی کو اِس بڑھاپے میں ، بیماری میں سب نے محبت کے ساتھ ان کی کیئر میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ،،، اور مزید شکر کہ اُس دو ڈھائی سال سکول ، بھی چلتا رہا ، اباجی کی شام کی ڈیوٹی بھی پوری ہوتی رہی ، الحمدُللہ ، الحمدُ للہ ، الحمدُ للہ !!! اور اس سلسلے میں مجھے اپنے بچوں کو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی ،،، اس لیۓ کہ وہ نیک فطرت تو ہیں ہی ،،لیکن میں سمجھتی تھی ،، والد میرے ہیں مجھے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہیۓ ،، اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آجاتا ،،، کیا پتہ یہ اس ذمہ داری کو بےدلی سے نبھائیں گے ، تو مجھے بُرا لگے گا ،، اس لیۓ میں نے انھیں کبھی زبردستی کسی کام کا نہ کہا ! تاکہ مجھے کوئی ناگوار جواب نہ سننا پڑجاۓ ! کہ جوانی میں کون بیمار اور بوڑھے مریض کے ساتھ خوش دلی سے وقت گزارنا پسند کرتا ہے،،، لیکن اللہ کا شکر اس دو ڈھائی سال کی سخت بیماری میں میرے بچوں نے بہت تعاون کیا ، اور میرے ساتھ ہر موقع پر ہاتھ بٹایا ۔ اباجی کی بیماری میں ضروری تھا کہ ایک کوئی " بڑا " ہر وقت گھر میں موجود رہے ،،، خاندان میں کوئی شادی ہوتی ، یا کوئی نرمی سستی یا کوئی فوتگی ہوتی تو میں گھر میں رہتی ،، کیوں کہ مجھے لگتا ، کہ میں اباجی کو ذیادہ بہتر طریق سے سنبھال سکتی ہوں ،،، یا میں ان کے مزاج کو زیادہ بہتر جانتی ہوں ،،،، ! اس باہر کی ذمہ داری کو آپا اور بڑے بھائی جان نے ہی نبھایا ،،۔ 
اباجی کی یادداشت کبھی کبھی ایک سپارک سا ہوتا ، اور بالکل ٹھیک بھی ہو جاتی لیکن ایسا موقع بہت ہی کم وقت کے لیۓ آتا ،،، ایک دن میں ان کو کھانا کھلا کر فارغ ہوئی ، اُٹھنے لگی تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ،، اور ایسے مریض کی ہاتھ کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے ،، میں نے ان کی طرف دیکھا ،، میرا خیال تھا ، کچھ اور کھانا چاہتے ہیں ،،، لیکن انھوں نے میرا ہاتھ پکڑے پنجابی میں یہ جملہ " تُوں تھک گئی ہوسیں " ،،، ( تم تھک گئی ہوگی ) ،،، میری آنکھوں میں آنسو آگۓ ، اور میں نے اباجی کا ہاتھ چوم کر کہا " اباجی ،، آپ 20 سال بھی اس حالت میں رہے تو میں خود سنبھالوں گی " ،،، ان کی آنکھوں کے کونے بھیگ گئے ،،، اور اس واقع کے بعد تو جیسے اباجی چُپ سے ہو گۓ ،، آپا اور رقیہ پھو پھی جی ،،، باقائدگی سے دن کی ڈیوٹی دے رہیں تھیں ، دوسرے دن بھائی جان معہ فیملی آۓ ، ملاقات ہوئی ،، لیکن اباجی مزید بےنیاز دکھائ دیۓ ،،، جیسے اب وہ جانے کو تیار بیٹھے تھے ۔ اورٹھیک تیسرے دن،، اس دن جمعہ تھا ، سکول سے واپس آکر نماز پڑھی ،، آپا اور پھوپھی جی اپنے گھر جا چکی تھیں،،، بچوں نے نماز پڑھ لی ،،، تو میں نے اباجی کو کھانا کھلانا ،، چاہا ،،لیکن انھوں نے سختی سے منع کر دیا ،، میں نے سوچا ، تھوڑی دیر بعد کوشش کرتی ہوں۔ اور 20 منٹ کے بعد دوبارہ درخواست کی کچھ کھا لیں ۔،، لیکن اباجی نے اس وقت """ میری طرف دیکھا ،،، لیکن انھوں نے میری طرف نہیں ، بلکہ میرے پیچھے کی طرف دیکھا ،، اُن کی آنکھوں میں حیرت سی تھی ،، لیکن صرف چند لمحے کے لیۓ ،، اور کہنے لگے ،، میں کچھ دیر بعد کھالوں گا "لیٹانے کا اشارہ کیا ، میں نے لیٹا دیا ،،، اور آپا اور پھوپھی جی کو فون کیا ، اباجی کی طبیعت صحیح نہیں لگ رہی ،، آپ کچھ دیر آرام کر کے پھر آجانا ، مجھے ان کی آنکھوں کی " عجیب سی اجنبیت " نے الرٹ کر دیا تھا ،،، کیوں کہ ایسی ہی حیرت ذدہ آنکھیں میرے بیٹے عمر رؤف کی آخری گھنٹے میں نظر آئیں تھیں ۔ آپا اور پھوپھی جی شام 4 بجے تک دوبارہ آگئیں ، میں نے بتایا ، انھوں نے ابھی تک کھانے سے انکار کیا ہوا ہے ، آپ انھیں شہد ملی چاۓ پلا دیں ،، ان کی کوشش سے شاید آدھی پیا لی پی لی ۔ لیکن پھر لیٹانے کا کہا ،، میں اِن دونوں کے آنے سے بے فکر ہوگئی اور کچھ دیر ریسٹ کرنے اپنے کمرے میں آگئی ، عصر پڑھ کر لیٹ گئی اور گہری نیند میں تھی کہ میری بیٹی نِشل نے بہت گھبرائی آواز میں جگایا " اماں اُٹھیں ، بڑے اباجی کو کچھ ہو گیا ہے " ،، لمحوں میں اُن کے کمرے میں گئی ۔لیکن وہاں ایک " باوقار ،، پُرسکون ،،، خوب صورت بوڑھا وجود " اپنے اصل کی طرف جا چکا تھا ،،،،، !۔
یہ 24 نومبر جمعہ کادن ، مغرب کا وقت تھا اور 1998ء کا سال !! اگلے دن تدفین کی گئی۔
یہ جو میں نے اباجی کی بیماری کی ایک ایک تفصیل بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس کی چند وجوہات ہیں ،، جو میں نے اپنی زندگی کے ان تجربات سے سیکھا ہے ،،،اسی کو شیئر کرنا چاہ رہی ہوں۔
؛ ۔ گھر کے بڑے اپنی زندگی کی شام گزار رہے ہوتے ہیں ،،، ان کی کافی عادات بھی فِکس ہو چکی ہوتی ہیں ،، نئی نسل اگر اکھٹے رہ رہی ہے تو انھیں ان کی عادات سمیت ، بہت نارمل انداز سے قبول کر لے ،،، کہ ان کے ساتھ منفی رویہ اپنانے کا نہ دین میں گنجائش ہے ،،، نہ دنیا کے کسی اخلاقی پیمانے میں ،،،،،،،،،،۔
؛۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ گھرانے جو مشترکہ خاندانی سسٹم سے رہ رہے ہوتے ہیں ،، بچے خودبخود ، بزرگوں سے کچھ نا کچھ سیکھتے ہیں، اور بزرگ یا مریض بھی اکیلا نہیں ہوتا ، ،،،،۔
؛۔ گھر کے بزرگ بیمار ہو جائیں تو ان کی ذمہ داری گھر کے سب بالغ لوگوں میں بانٹی جاۓ تو ، وہ بچے بہت کچھ سیکھتے چلے جاتے ہیں ،،،،،۔
؛۔ جب بھی گھر کے بزرگ بیمار ہوں ، اپنی توفیق کے مطابق ، اور ڈاکٹر کی ہدایات لے کر ، انھیں آسانیاں دینے کی کوشش کریں ،،،،،،،،،۔
؛۔ اس دوران اپنے رویۓ کو "روزانہ" کی بنیاد پر پرکھتے رہیں ،،کہیں خدمت کے دوران ہمارا لہجہ ،سخت یا اُکتایا ہوا تو نہیں ،،،،، ایسا ہرگز نہ ہونے دیں یہ ہی آزمائش کا وقت ہے ،، اور وقت کی سوئی " پِھر کر "واپس آتی ہے تو وہاں ہم بھی لیٹے ہوئے ہو سکتے ہیں ،،،،،۔
؛۔ مریض کے بستر ، اسکے جسم ، کپڑوں ، اور کمرے کی صفائی کا ازحد خیال رکھیں ،،، اس بات کا تعلق مالداری سے نہیں ،، ایک تو مریض بیمار ،، اور جب گندہ بھی ہو گا تو وہ مزید بیمار ہو گا ،،، اور عیادت کو آنے والے ناگوار تائثر لے کر جاتے ہیں ۔ ،،،،،،،
؛۔ اپنے مریض کواول تو محبت سے سنبھالیں ،،، کہ وہ چند دن ، چند سال کی محبت سے کی گئی خدمت ،، دراصل اللہ کی رضا کا باعث بن رہی ہوتی ہے ،،، ورنہ آپ نے صرف فرض سمجھ کر یہ عرصہ گزارا ،، تو اپ کا ضمیر آپ کو بےچین رکھے گا۔
؛۔ مریض کے کھانے میں اس کی خوشنودی کا ضرور خیال رکھیں ،،،،،،۔
؛،۔مریض کے پاس عیادت کے لیۓ آنے والے،اس کے رشتہ دار یا دوستوں کو اخلاق سے پیش آئیں کیوں کہ وہ سمجھ سب رہا ہوتا  ہےلیکن ،،بےبس ہوتا ہے ،،،اور یہ انتہائی سنگین بد اخلاقی ہوگی،کیا پتہ مریض کے دل سے کیسی دعائیں یا   بددعائیں نکل رہیں ہیں ، اسی کے مطابق آپ نے " مال " سمیٹنا ہے !!!۔
؛۔ اگر کسی کے گھر والدین میں سے ایک یا دونوں زندہ ہیں ،،،تو آج ، اورابھی سے قدر کر لیں ،، گلے شکوے اگر آپ کو ہیں تو انھیں بھی ہوں گے ۔ اور یہ ضرور یاد رکھیں ، والدین کی خدمت آپ کا فرض ہے ، لڑکے کی بیوی کا نہیں ، اگر وہ کرے گی تو اخلاقی فرض نبھاۓ گی ! ! اسی طرح بیٹی کو بھی ماں نے اتنا ہی درد سہہ کر پیدا کیا ہے جتنا لڑکے کو ! اس لیۓ اگر وہ اپنے والدین کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی تو خود آ کر ان کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالے ،،، اور اس سلسلے میں داماد کو چاہیۓ کہ اپنی بیوی کو لازماًاکثر بھیجے ،،،،،،،،،،۔ 
حدیثِ مبارکہﷺ ہے " خاک آلود ہوا اس کا چہرہ ،،، پھر فرمایاؑ " خاک آلود ہوا اُس کا چہرہ ،،، اور پھر تیسری مرتبہ فرمایا ؑ " خاک آلود ہوا اس کا چہرہ ،،،! صحابہء کرام نے بےچین ہو کر پوچھا " یا رسول اللہ ﷺکس کا ؟؟؟ 
فرمایاؑ "جس نے والدین یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت نہ کی " ۔
( منیرہ قریشی 7 جنوری 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں