پیر، 22 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(84)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 84)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
الحمدُ للہ، کہ گھر بنتا رہا ،، روپے بنک سے ایشو ہوتے رہے ،،، اور جیسا میں نے پہلے بھی لکھا کہ آخری بِل ادا ہوا ، اور بنک میں صرف 5 ہزار باقی رہ گۓ تھے ،،، جب گھر بنانے کے خرچے کے جمع ، تفریق کیا ،، تو معلوم ہوا 33 لاکھ روپے لگے ہیں ،،، حیرت سے منہ کھل گۓ کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ، ہمارے پاس تو گھر کے لیۓ ٹوٹل 15 لاکھ تھے ،،، تب میڈم شیما ، جن کو بنک کے معاملات میں اتھارٹی دی ہوئی تھی ، نے بتایا " آپ لوگوں کو شاید پتہ نہیں ،، ایک سال مسلسل داخلے ہوتے رہے اور گھر شروع ہوا تو ہمارے سکول میں 622 طلباء تھے ،، اور اس دوران داخلے ہوتے چلے گۓ ، میں نے ہر اچھے اینٹری ٹسٹ والے کو اس امید کے ساتھ داخلہ دیا کہ ہمارے کمرے تو بن ہی رہے ہیں ، بس چند دنوں میں ان کو بٹھا نا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا ، اور مکمل ہونےتک 850 طلباء ہو چکے تھے ،،،، نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی بِل ادائیگی سے رُکا نہیں ،، " بس میں کیا ہی بتاؤں ،،،اُس رب کی حیران کر دینے والی قدرت پر حیران ہی ہوتی رہی ، ،، اور اس نے میرے روزانہ کے دو نفل حاجت کوقبول فرمایا ،، اور وہی پردہ پوشی فرمانے والا بہترین ہے !۔ 
میں شاید پہلے لکھ چکی ہوں کہ گھر ٹھیک ایک سال اور تین ماہ میں ، مکمل ہوا تو 23 ستمبر 2005ء میں ، اپنے بچوں کے ساتھ اس رب کے حکم سے شفٹ ہوگئی ،،،، جیسا میں نے لکھاتھا کہ دو دن مجھے نیند نہیں آئی کہ میں کیسے اپنے رب کی حمدوثنا کروں ، کہ " میرا دل مطمئن ہو جاۓ ، کیوں کہ اُس خالق و مالک کا حق تو کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا " میرے شفٹ ہونے کے ایک ہفتے کے بعد ہی مبارک باد کہنے والوں کا تانتا بندھ گیا ، اللہ تعالیٰ اُن سب احباب کو بہت نوازے جو میری خوشی میں شامل ہوۓ ، ، ، میں اور دونوں بیٹے ، کامل اور ہاشم ، بڑی بہو صائمہ اور میری پوتی ،،، اپنے اپنے طور پر اپنے کمروں کو سنوارتے رہے ، ، ،۔
میں اور دونوں بیٹے ، پہلےصلاح الدین صاحب کے گھر معہ تحائف گۓ ،، کہ جس طرح دل سے ، خلوص سے اور دیانت داری سے انھوں نے یہ گھر بنایا ،، ٹھیکیداری میں اس کی مثال شاید ہی کسی کی ہو ،،، میں نےان کے لیۓ تو کچھ لے جانا تھا لے گئی ، لیکن ان کی بیگم اور والدہ کے لیۓ بھی تحفے لے گئی تو اس بات پر وہ بہت خوش ہوۓ ۔ ساتھ ہی انھوں نے ہاشم کی بہت تعریف کی کہ " اتنا مؤدب، اور  جس تحمل سے میرے ساتھ کام کیا ہے کہ میری دعا ہے " کہ اگر میرا بیٹا ہوتا تو ایسا ہوتا " !!! صلاح الدین بھائی ،نے اس ملاقات کے بعد ہمارے اگلے پروجیکٹ کے لیۓ بھی حامی بھری ، یعنی آدھا میرا حصہء زمین پر ایک گھر اور بقیہ حصہ لان بنا دیا گیا یہ لان13،یا 14 مرلے پر مشتمل تھا، اور جوجی کے ایک حصہء زمین پر پہلے لائن سے سکول کی طرز پر8 کمرے ( اوپر نیچے ) اور پھر اسی کے آدھے حصے پر میری طرز کا مکان بننے کا فیصلہ ہوا ،، ہمارے مکان سے بہت میٹریل بچ گیا تھا ، انھوں نے تیزی سے اگلا پروجیکٹ شروع کر دیا ، پہلے لائن سے نچلی منزل کے 4 کمرے ، چار باتھ ، اور ایک کچن بنایا گیا ، پھر سیڑھیاں بنیں اور اوپری منزل کے 4 کمروں اور دو باتھ رومز کی دیواریں کھڑی ہو گئیں ،، میں جب فارغ ہوتی تویہ سب اپنے نئے گھر کی اوپر کی منزل سے کھڑکی سے دیکھتی رہتی۔ اُس دن بھی صلاح الدین بھائی، اوپر بناۓ گۓ چوڑے برآمدے میں کرسی بچھاۓ ، سگریٹ پیتے نظر آۓ ،،، اور تھوڑی دیر کے بعد مزدوروں کا کام ختم ہوا ،، سب چلے گۓ ،، اگلے دن صلاح الدین بھائی نظر نہ آۓ ، شام کو سکول سے آئی تو پتہ چلا ، وہ بیمار ہو گۓ ہیں اور ہاسپٹل میں داخل کروا دیۓ گۓ ہیں ،، اگلے دن ان کو دیکھنے جانا تھا ، ہاشم خود ہی جا کر پہلے مل آیا ، جب کہ ہمیں آکر بتایا ، ان کے  گردے فیل ہو گۓ ہیں ، اور وہ آئی سی یو ، میں داخل ہیں ، اور اس سے اگلے دن اُن کے انتقال کی خبر آگئی ،، یقیناً  گھر والوں کے لیۓیہ انتہائی گہرا صدمہ تھا ، جس پر اللہ ہی انھیں صبر و ہمت دے سکتا تھا ۔ لیکن کتنے دن تک ہم سب کو یوں لگا جیسے ہمارے گھر کا کوئی فرد چلا گیا ہے ،،، ہماری سہیلی خورشید بہت ہمت سے اپنے غم کو قابو کرنے میں لگ گئی، اور والدہ کے دل کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، لیکن مجھے ان کے دنیا سے جانے کے بعد پتہ چلا وہ "جگت پھوپھا" تھے ، ماشا اللہ خورشید کے تینوں بھائیوں کی اولادوں اور آگے ان کے زندگی کے ساتھیوں ، سب میں وہ مقبول ،تھے ،۔ سب کے ساتھ انتہائی دوستانہ ، محبت بھرا رویہ تھا ، ، ہمارے آرکیٹیکٹ ناصرسعید بھی خورشید کی بھتیجی کے شوہر ہیں ، جو صلاح الدین بھائی کی رشتہ داری سے ذیادہ ان کی صلاحیتوں کامعترف تھے ،،،، میں جب اِس گھر کو دیکھتی ہوں تو " میرے دل سے ان کے لیۓ دعا نکلتی ہے " صلاح الدین بھائی اللہ آپ کو جنت الفردوس میں بیترین گھر عطا کرے ، آمین ثم آمین ،، !۔
اس  نئے گھر میں اوپر کی منزل ہمارے رہنے کے لیۓ تیار کی گئی تھی ۔ میرے کمرے کی بڑی سی کھڑکی ، مشرق کی جانب کھلتی ہے ، میں صبح سویرے ، نماز سے کچھ پہلے اُٹھ جاتی ، اگر تہجد کا وقت ہوتا ، تو ٹھیک ، ورنہ نماز پڑھی ، ادوار کے ساتھ ساتھ کھڑکی کاپردہ ہٹا کر سورج کے نکلنے کے منظر سے بھی محظوظ ہوتی ،، اور میرا دل اس رب کی شکرگزاری سے لبریز ہو جاتا ، کہ مجھے اوپر کی منزل سے یہ نظارہ اور بھی واضح  نظر آتا ،(نیچے کی منزل میں سکول کی چند کلاسز بٹھائی گئی تھیں ، کیوں کہ یہ ہماری مجبوری تھی)،،، خیر،،، مجھے صبح سویرے کایہ تجربہ بھی اسی کھڑکی کے پاس سے حاصل ہوا۔ کہ اذانِ فجر سے پہلے ، اِکا دکا،، کبھی کسی فاختہ کی آواز آ جاتی ، کبھی کسی چڑیا کی ،،، آذان کے فورا" بعد کچھ اور چڑیوں کی چہکار شامل ہو جاتی ، اور اکا دکا کوؤں کی ،،، گویا ان جانداروں کی عبادت کا وقت بھی ہے اور یہ سارا مدھم " ردھم " اس بات کابھی اعلان ہو رہا ہے کہ کہ نماز کا یہ ہی وقت ہے ،، ردھم بہت ہی آہستگی سے اونچا ہو رہا ہے کہ ابھی بھی نماز کا وقت ہے ،،، اور جیسے ہی نماز کا وقت ختم ہونے ہی والا ہوتا ،، ایک ہنگامہ خیز سا شور اُٹھتا ،،، بالکل ایسے ہی جیسے میوزیشن ، اپنے آخری حصہء موسیقی کا بلند شور سے اختتامیہ کر گزرتا ہے !،،، کہ لوگو! اب تو اُٹھ بیٹھو !!! اورعین اس وقت سورج قریبا" آدھا یا ذرا کم بلند ہو کر دنیا پر شاہانہ نظریں ڈال رہا ہوتا ہے ،،، پرندوں کا شور چند منٹوں کے لیۓ اب براۓ نام ہو چکا ہوتا ہے ،،، فضا میں خاموشی کی عجیب سی لہر چھا چکی ہوتی ہے ،،، اور اب موسیقی کا نیا انداز پیش کیا جاتا ہے جیسے ہی " اشراق " کا وقت شروع ہوا کہ ایک بلند آہنگ موسیقی شروع ہو جاتی ، اس موسیقی کے شور میں ہر پرندے کی آواز کا حصہ ہے ،،، چڑیاں ، کوے ، فاختہ ، مینا ، اور طوطے بھی ۔ کہ وہ بندوں کو اللہ کی محبت کی طرف بلانے کی آخری کوشش کر رہے ہوتے ہوں !! اور جیسے ہی سورج مکمل ، طور پر مشرق کی سمت اُٹھ چکا ،،، تو بس پرندوں کی ڈیوٹی ختم ،،، سب پُھر سے اُڑ جاتے ،، کہ ہم نے اپنی ثنا خوانی بھی کی اور دنیا کے لوگوں کو جگانے کی ڈیوٹی بھی دی ،، آگے تمہاری مرضی لوگو !!!!۔
لیکن بے شمار ایسے بندے جنھوں نے اپنی دنیاوی ڈیوٹیوں پر جانا بھی ہوتا ہے تو بے زار شکل کے ساتھ تیار ہوتے ہیں ،، گھر والوں پر " ایسی نظر ڈالتے ہیں جیسے صرف یہ ہی کمانے نکل رہے ہیں ،،، اس لیۓ اپنے اپنے غصے کی چھاؤں میں خود کو خود رخصت کرتے ہیں ،،، اور ایسے میں یہ نظارے ،،یہ قدرت کے انوکھے رنگ ،،، ان کی نظروں سے جیسے یکسر اوجھل ہوجاتے ہیں ، کہ اللہ نے ان پر " غور وفکر " کے دروازے شاید بند کر دیۓ ہوتے ہیں ،،، آہ انسان بھی کتنا بدنصیب ، ناشکرا، اور محرومِِ نظارہ بن جاتا ہے ،،، کیا پتہ ، یہ نظارے ، یہ خوب صورت پرندوں کی ، انتہائی دل کش آوازیں ، موسیقانہ ردھم ،، دوبارہ نصیب نہ ہو ،،،کیا پتہ اِن پر غور کرنے سے ہمیں اس خالق کی محبت کی حلاوت نصیب ہو جاۓ ،،، کیا پتہ ، کیا کچھ مل جاۓ کہ، پھر دنیا کی یہ ساری ڈیوٹیاں ہمارے لیۓ نارمل بن جائیں اور وہ رازقِ حقیقی ، کانوں کے رزق، آنکھوں کے رزق، اور شکر گزاری والی دھڑکنوں کے رزق سے جب نواز دے ،، تو پھر اِس سے بڑا غنی کون ہو گا ۔
صبح کے یہ خوب صورت لمحے کچھ ایسی کیفت کے حامل ہو جاتے ہیں ِ ، جو مجھے یوں لگے ،،، !۔
" میرا اللہ "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
" الہام و کشف کچھ نہیں ،،،
بس تُو ۔۔۔۔۔
فِکر و ادراک کچھ نہیں ،
بس تُو 
ذِکر و جذب کب تک ۔ 
ذِکر و جذب تو بس تو ۔۔۔۔۔۔
وصال و وبال کچھ نہیں ،
بس تُو 
عذاب و ثواب ، کیا ہیں 
میرے لیۓ ،، بس تُو ،،، !!!
( منیرہ قریشی 22 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں