پیر، 29 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہاۓ سفر) " سفرِ حج" (3)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِ حج" (3)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہاشم کی طبیعت میں ، ایسی جھجک تھی کہ وہ بہت جلدی کسی سے فری نہیں ہوتا، حج کی تیاری کے دوران اور عین جہاز میں سفر کے دوران بھی یہ ہی دعا کرتی رہی کہ اللہ پاک اس کے حصے میں ہمارے لیۓ محرم کا ثوابعطا کرے ، اور اب ساتھ میں اس کی مشقتوں اور سجدوں کو بھی قبول کرنا ، تاکہ اُس کا جانا اُس کے لیۓ باعثِ شفاعت ہو آمین ،، اس کے یہ دن اچھے طریقے سے گزریں ،،،،سفر آدھی رات کے وقت ، شروع ہوا،۔
اس لیۓ باہر کی دنیا کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا، پہلے تو جہاز کی لائٹس روشن تھیں، گھنٹے بعد لائٹس بند ہوئیں تو مجھےگھٹن شروع ہو گئی ،، طبیعت پر بوجھ بڑھتا گیا ،، آخر میرے سامنے کے پیکٹ میں رکھے تین بیگز جو مسافر کی اُلٹیوں کے لیۓ رکھے جاتے ہیں ، پہلے میں نے اپنے تین ، پھر جوجی اور پھر نگہت کے بھی تینوں لفافے مَیں نے استعمال کر لیۓ، ، اور ہر دفعہ جہاز کے واش روم میں جانا پڑتا ، اور وہاں الگ میرا بُرا حال ہو گیا،،، اور جب اپنی سیٹ پر بیٹھی تو ایئر ہوسٹس سے کمبل منگایا ، حالانکہ میں نے پاکستان کے موسم کے مطابق گرم کپڑے پہنے ہوۓ تھے لیکن پانی کی کمی سے بدن پر لرزا طاری ہو گیا ، مجھے بھول گیا میں نے کیا پڑھنا ہے ، مَیں کس سفر پر ہوں ۔ لوگوں نے صبح کی نماز پڑھی تو گرتے پڑتے وُضو کیا اور سیٹ پر بہ مشکل نماز پڑھی ۔ بس میرا یہ حال کہ لگتا تھا " شاید میرا بلاوہ نہیں ہے اسی لیۓ بیٹھے بیٹھاۓ یہ حالت ہو گئی ، مجھے تو رونا آرہا تھا ، جہاز صبح 7 بجے جدہ ایئر پورٹ پر اُترا ،،،اُس سے پہلے عمرہ کی دعا نگہت نے پڑھوائی تو پڑھ لی ۔ ایئر پورٹ پر اُتر کر آس پاس ایسی نظریں ڈالیں ، جن میں کوئی جذبہ نہیں تھا ،،،ایک وسیع و عریض ایریا تک بہ مشکل پہنچی،، سب مرد حضرات تو سامان کی فکر میں اُدھر چلے گۓ جوجی اور نگہت نے واش روم میں جا کر وُضو کو تازہ کیا لیکن مجھے ایک بنچ نظر آیا جس پر دھوپ تھی میں تو جلدی سے اُس پر بیٹھ گئی ، اب اُلٹیاں نہیں تھیں ، سب کچھ تو جسم سے نکل چکا تھا ، جوجی نے کینو کھانے کو دیۓ، انھیں کھانے سے واقعی آنکھیں کھل سی گئیں۔ ،،،، لیکن اپنی حالت پر غور کرتی رہی ، کہ ضرور مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے یا اللہ کی اس میں کوئی مصلحت ہو گی ۔ باقی سب ممبرز جہاز میں بھی اور اب ایئر پورٹ پر بھی ناشتے کررہے تھے
،،،میرا بولنے کو بھی دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ لیکن دھوپ میں بیٹھنے سے سکون مل رہا تھا ،، باقی کوئی احساس تھا تو صرف " دکھ " کا ،،، کہ کتنے جذبے سے ، سفر شروع ہوا ،، اور اب عجیب خالی پن سا تھا۔
خدا خدا کر کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے بسیں چلیں تو جدہ سے مکہ کا سفر ، انتہائی شوق سے باہر جھانکتے گزرا ۔ایک ایک منظر کو دیکھتی رہی۔ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہمیں سب سے پہلے کس جگہ پہنچنا ہو گا ،، ہمیں سب سے پہلے کیا نظر آۓ گا !!۔
کیا میں چل سکوں گی ،؟ پتہ نہیں کتنا چلنا ہو گا ؟؟؟ جدہ سے مکہ تک کا ایک گھنٹے کا فاصلہ ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا ۔ جب مکہ کی حدود میں پہنچے ، اور اپنی رہائش گاہ پہنچے تو ، صاف ستھرا ہوٹل دیکھ کر ، کمروں کو دیکھ کر شکر کیا کہ بہت اچھا ہوٹل تھا ۔ اس کا نام " برج الاقصیٰ " تھا ۔ ہمیں جو کمرہ ملا ، اس میں چار بستر لگے ہوۓ تھے ، اور ہاشم ہی مردوں میں چھوٹا تھا ، اس لیۓ اسے ہی ہمارے کمرے کو شیئر کرنا پڑا ، اور شروع میں اسے برا لگا لیکن جلد ہی نارمل ہو گیا ، اس کمرے میں فریج ، ٹی وی ، ایک الماری ، اور اٹیچ واش روم تھا ،، میرا حال کچھ اچھا نہیں تھا ، دوبارہ طبیعت تو خراب نہ ہوئی لیکن، عمرہ کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ۔ باقی سب ایکسائیٹڈ تھے ، انھوں نے تازہ وُضو کیا اور فوراً عمرہ کےلیۓ نکل گۓ اور مجھے کہا گیا کہ آپ کل عمرہ کر لینا ۔ میں چُپ رہی اور دوپہر کی نماز کی نیت کر لی ۔ چار فرض ہی پڑھے تھے اور دعا میں بس یہ ہی کہہ رہی تھی ،،، میری پردہ پوشی کر دے ،، بےشک " مَیں کالی ، میرا تن کالا ، میرا من کالا، کالا مینڈا ویس ( سراپا ) " لیکن میں تیری مہمان ہوں ، تیرے دروازے پر ہوں ،، ابھی یہ آہ وزاری چپکے چپکے شروع ہی ہوئی تھی کہ ، کہ سب افراد واپس آگۓ ،، میں حیران ہو گئی ، کہ عمرہ اتنی جلدی ہو گیا !!! تب سب نے بتایا کہ ہم ہوٹل کے لاؤنج میں پہنچے تو ہوٹل والوں نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں ، ابھی دوپہر کا کھانا ہماری طرف سے کھا کر عمرہ کرنے چلے جائیں ، توہم واپس آگۓ ،،، مجھے لگا یہ واپسی میری وجہ سے ہوئی ہے ،، اگر یہ لوگ عمرہ کرتے رہتے ، تو مجھے اس دوران کہاں چین آتا ۔ بس میں نے باقی نماز مکمل کی اور کہہ دیا آپ لوگ کھانا کھائیں ، مَیں ساتھ جاؤں گی ،۔ 
سلیپر پہنے ، عبائیہ پہنا اور تیا رہو گئی گلے میں لٹکے پرس میں ایک دو کینو رکھ لیۓ ،،، میری تو جیسے بھوک ختم تھی ۔ اور وہاں سے صرف دس منٹ کا فاصلہ تھا " اس پاک ، اعلیٰ و ارفعٰ مسجدِ حرم کا " ،،، میری رفتا ر باقیوں سے آہستہ تھی ، جوجی میرے ساتھ ساتھ رہی، اور اب ہاشم کے چہرے پر اطمینان تھا ، کیوں کہ اسے میرا پیچھے کمرے میں رہ جانا اچھا نہیں لگا تھا ۔ جب ہم سب تلبیہ پڑھتے ہوۓ " حرمِ پاک کی حدود تک پہنچے ،،،اب نگہت نے اور اقبال بھائی نے، ہمیں کھڑا کر کے کہا ،، پہلے نظر یں نیچے رکھنی ہیں ، ہم سیڑھیاں اتریں گے ، تب فرشِ کعبہ پر نظر ڈالنا ،، ،، اور پھر نظریں اوپر کر کے خانہ کعبہ پر نظریں ڈالنا ،، اس دوران کچھ بھی یاد نہ آۓ تو تیسرا کلمہ پڑھ لینا ، اور جو دعا اُس وقت مانگنی ہے ،وہ ضرور قبول ہوتی ہے ،۔ اس لیۓ سوچ لینا ،۔ مجھے صرف اپنا پتہ ہے کہ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ،باقی ہر احساس ، مدھم پڑ چکا تھا ۔
اور جب ہم تلبیہ پڑھتے سیڑھیاں نیچے اُترنے لگے ، تو ہم تینوں خواتین ساتھ ساتھ تھیں ،،، مرد الگ الگ چلے گۓ تھے ،،، اور ،،، جب خانہ کعبہ پر نظر پڑی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سُن ہو کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ نہیں معلوم تین منٹ گزرے یا پانچ ،، یا دس ،، مجھے لگ رہا تھا خانہ کعبہ بالکل خالی ہو گیا ہے، اصل میں مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میری آنکھیں ، واقعی خانہ کعبہ کو دیکھ رہی ہیں ،، مجھے لگا میں خواب دیکھ رہی ہوں ۔ اسی عجیب سی کیفت میں ، مَیں نے جوجی کی طرف دیکھا ، جو دو گز دور کھڑی تھی ، اور ہماری نظریں ٹکرائیں تو جوجی نے کہا " نہیں یہ خواب نہیں ہے "" ، ( یہ جملہ سو فیصد ٹیلی پیتھی سے ادا ہوا ، میں نے ایک لفظ نہیں کہا ، اور میں آج بھی اُس کیفیت پر حیران ہوں )،،،،،،،،،،،، تب میں نے اس ربِ رحیم سے یہ دعا مانگی ، " تو رحیم ہے ، مجھے بلایا ہے،تیرا شکر ، تیرا شکر ! ،،، بس میری آل اولاد کے لیۓ اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنا " ،،،، ۔
نگہت بہت پریکٹیکل ، سوچ اور اُطوار والی ہے ، اسے اپنے جذبات کنٹرول کرنے آتے ہیں ، اور اس میں لیڈرانہ صلاحتیں ہیں ، وہ ہم سے مزید دو گز دوری پر تھی ، اس نے مکمل اطمینان سے دعائیں پڑھیں ، اور ہم آرام سے " حجرِاسود " کی طرف چل پڑیں ، ،، ابھی رش کچھ خاص  نہ تھا لیکن ہم نے حجرِ اسود کو چومنے کی زیادہ کوشش نہیں کی ،،، اور طواف شروع کر دیا ، ، ، مَیں جوجی کے پیچھے اور جوجی نگہت کے پیچھے ، چلتی رہیں ، طواف ہوتا رہا ، سارا کعبہ ، اور آس پاس مجھے ہلکا ہلکا ڈولتا محسوس ہو رہا تھا۔ رَش بالکل نہ تھا دائرۂ طواف کم ہو گیا تھا اسی لیۓ طواف 25 منٹ میں مکمل ہوا ،،، اب سعی کے لیۓ صفا و مروا کی طرف چل پڑیں ،، لیکن اب مجھ پر نقاہت طاری ہونے لگی تھی،، سعی کے ہر پھیرے پر بیٹھ جاتی ، نگہت اور جوجی نے کہا بھی ، وہیل چیئر ، لے لیتے ہیں ، لیکن مجھے لگا کہ مجھے اپنے رب کے لیۓ خود کو تکلیف دینا بھی پڑی تو کوئی بات نہٰیں ۔ میں اپنے قدموں سے چلنا چاہتی تھی ۔ وہ دونوں میری خاطر ٹھہرتیں ،، میں چند منٹ سانس درست کرتی ، تب چلتی ۔ خیر اللہ کے کرم سے یہ مرحلہ مکمل ہوا اور ہم نے اپنی اپنی دعائیں مانگیں ، اپنے بال تھوڑے تھوڑے کاٹے ،،، اور عمرہ مکمل کر کے ایک دوسرے کو مبارک کہی،،،، اور واپس باہر آگۓ ،، جس مخصوص جگہ کی نشان دہی اقبال بھائی نے کردی تھی کہ جو پہلے فارغ ہو جاۓ ، وہ اس بابِ عبدلعزیز کی سیدھ میں بنے چبوترے پر آجاۓ ،، ہم وہاں پہنچیں ہی تھیں کہ باری باری سب مرد حضرات بھی آگۓ ، ایک دوسرے کو مبارک باد دیں ، اور کچھ کھانے کے خیال سے ارد گِرد نظریں دوڑائیں ، شاید چاۓ کے ساتھ کچھ کھانے کی چیزیں آگئیں ،،، میں نے صرف چاۓ پر اِکتفا کیا ، ابھی تک بھوک جیسے ختم ہو کر رہ گئی تھی ،، لیکن عمرہ خود سے مکمل کر لینے کا احساس اتنا " لطیف احساس " دے رہا تھا کہ کیا ہی بتاؤں ،،،، ( کیوں کہ جب آپ کو لگے کہ آپ کا عمرہ اگلے ہی دن ہو پاۓ گا ،،، یا وہیل چیئر پر عمرہ ہو گا ، تب عمرہ پہلے ہی دن ہو جاۓ اور وہ بھی اپنے قدموں پر ،، تو لطیف کیفیت کیوں نہ ہو )۔
ہم نے چاۓ پی  اور یہ طے پایا کہ سب مشورے تو اقبال بھائی دیں گے ، لیکن ہمارا خزانچی ہارون پاشا ہو گا جس کے پاس ہم سب ایک مخصوس رقم رکھوا دیتے ہیں ، ہر روز صبح کے ناشتے ، اور رات کے کھانے کا بل یہی ادا کرتا رہے گا ۔ اور ، ہم سب تہجد کے لیۓ آئیں ،،، صبح کی نماز ،اور اشراق پڑھ کر نو بجے تک ناشتہ کرکےاپنے ہوٹل میں آرام کرنے پہنچ جائیں گے ، اور پھر ، ظہر کی نماز کے لیۓ جب خانہ کعبہ آئیں تو پھر عشاء پڑھ کر نکلیں اور تب رات کا کھانا کھا کر پھر اپنے ہوٹل میں آ جائیں ۔ ۔۔۔ !۔
دراصل ہمارے سب فیصلے اقبال بھائی نے طے کر لیۓ تھے کیوں کہ ان کی حج ورک شاپ ، ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب نے کروائی تھی جو خود بہت سے حج کر چکے تھے ، اور اب وہ دوسروں کو گائیڈ کرنے کا کام کرتے تھے ۔اسی لیۓ انھوں نے ہی بتا دیا تھا کہ اپنے " حج ایجنسی کے ساتھ کھانے کا طے نہ کرنا کیؤں کہ وہ بہت " ہیوی " کھاناکھلاتے ہیں ،، تم لوگ کھانے کا اپنا بندوبست کرنا چنانچہ ، ہم نے اپنے رہائشی ہوٹل اور حرم کے درمیان ایک چھوٹا سا ہوٹل " ملتزم " پسند کر لیا تھا جو کسی بنگلہ دیشی کا تھا ،، وہاں ہمیں کم نمک مرچ والی بہت سے سالن کی چوائس بھی مل گئی تھی ، وہیں ، صبح کا ناشتہ بھی ہونے لگا اور رات کا کھانا بھی ۔۔۔ اور یہ روٹین سیٹ ہو گئی ۔ اور یوں ہم نے پورے سکون و اطمینان سے اللہ کی میزبانی کے لُطف کا آغاز کیا ،،الحمدُ للہ ،الحمدُ للہ !!۔
( منیرہ قریشی ، 29 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں