اتوار، 14 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(79)۔

 یادوں کی تتلیاں " (79)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کے گھر سے کراۓ کے جس گھر میں شفٹ ہوۓ ، حسنِ اتفاق سے وہ بھی اتنا اچھا گھر ، مناسب کراۓ پر ملا ،، کہ اللہ کی طرف سے یہ بھی غیبی مدد ہوئی ،،، اللہ پاک کی طرف سے2004ء کا سال بہت سےخاص اقدامات کے ساتھ آیا ، 2004ء جون میں ہونے والی چُھٹیاں ، اپنے وقت پر10 جون سے شروع ہوئیں ،،، اس سے اگلے ہی دن، اسکول کے ایریا کا وہ حصہ ، جو پرانے تعمیر شدہ گھر پر مشتمل تھا، فوراً اکھاڑنا شروع کر دیا گیا۔
تاکہ مکمل دو حصوں میں برابر الگ الگ تعمیرات ہو سکیں ، اس سلسلے میں ہمیں نگرانی کے لیۓ ہر وقت ایک ایسا بندہ چائیے تھا جو ایمان داری سے اپنی ڈیوٹی دے، اور وہیں  رہے ۔ کیوں کہ ہمارا گھر کچھ فاصلے پر تھا ۔،، بڑے بھائی جان کے ہاسپٹل میں داخلے پر ایک اٹینڈنٹ ، ہائرکیا گیا تھاجو خود ڈرائیور بھی تھا ، اور جاب لیس بھی ! وہ ہاسپٹل کی ڈیوٹی کے لیۓ راضی ہوا ،، جو رات وہاں گزارتا ، اور دن کو واپس اپنے گھر آجاتا ۔ چند دنوں میں ہی اس نے اپنے کام کو سمجھ لیا ، اس کانام " قمر زمان " تھا ، ،، بڑے بھائی جان کی ڈیتھ کے بعد ، آپا نے اسے اپنے ڈرائیور کے طور پر رکھ لیا ، وہ بھی خوش تھا کہ گھر کے قریب ہی نوکری مل گئی ، اب آپا اپنی عدت گزارنے اپنی بیٹی کے پاس جانا چاہتی تھیں ، ڈاکٹر اسرار صاحب کی بیگم سے پوچھا گیا ، ان کے کہنے پر آپا ، لاہور جانے کی تیاری کرنے لگیں ،،، اس دوران آپا نے کہہ دیا کہ اگر تم لوگ سکول کے کاموں کے
لیۓ اسے رکھ لو گی تو ، یہ کہیں اور نہیں جاۓ گا ، ہم لوگ اس کی دیانت دارانہ ، ڈیوٹی کو دیکھ چکے تھے ، اسی کو کہا گیا " جب تک گھر بنے گا تم ہی چوکیدار ہو گے ،، مناسب تنخواہ دیکھ کر وہ بھی خوشی سے راضی ہو گیا ۔ گھر کے اکھاڑنے ،، تک اس کی نگرانی کا انداز دیکھ کر سمجھ آگئی کہ یہ مزاج کا تو سخت ہے لیکن ، کام کا بھی سخت ہے ۔ البتہ اس پروجیکٹ کی نگرانی چھوٹے بیٹے " ہاشم " کے سپرد کی گئی کہ انہی دنوں وہ ایم بی اے کر کے فارغ ہی ہوا تھا ، آرکیٹکٹ ناصر نے جن صاحب کا نام بطورِ ٹھیکیدار تجویز کیا ،،، اتفاق سے وہ میری میٹرک تک کی کلاس فیلو اور اسی دور کی پڑوسی ، " خورشید" کے شوہر نکلے۔
ہم سب کی  ملاقاتیں ہوئیں ، اور باہمی مشاورت سے ، لین دین ، کے کاغذات فارم وغیرہ " پُر " کیۓ گۓ۔ اس دوران کینٹ بورڈ میں نقشہ پاس ہونے کے لیۓ دے چکی تھی ، وہاں سے اپرول کی بہت دیر ہوتی ہے لیکن اگر این او سی مل جاۓ تو اس دوران گھر شروع کروایا جا سکتا ہے ! ہمیں یہ سرٹیفکیٹ مل گیا ، پہلے 10 ، دن میں پرانا گھر اکھڑا ،، اور جس دن ٹھیکیدار ، صلاح الدین صاحب ، اپنی نگرانی میں زمین پر بنیادیں کھودنے کے نشانات لگوا رہے تھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔
میں ، اپنے بھائی جان اور آپا کو دعا کے لیۓ زمین پر لے آئی ،،، ہم دونوں بہنیں ، آپا اور بھائی جان اور میرے بچوں نے دعائیں کیں ،، آس پاس کے تمام افراد میں مٹھائی ، تقسیم ہوئی ،، بھائی جان نے کہا ،، تم نے " بیسمنٹ " کا پلان کیوں نہیں بنایا ؟ ،، زمین بہت قیمتی ہوتی جا رہی ہے ، ہمیں چاہیے اس کے نیچے کابھی ، فائدہ اٹھائیں ،،، صلاح الدین صاحب بھی پاس کھڑے تھے ،، کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں ، ابھی سکول کی لمبی چھٹیاں ہیں ،، اس دوران " نقشے کی تبدیلی کروا کر دوبارہ پاس ہونے کے لیۓ دے دیں گے " ،،، تب ناصر کو نقشے کی " عین اسی دن " کی تبدیلی سے آگاہ کیا ،،، اور بغیر ، بُرا مناۓ اس نے بات سن لی ،اور جلد دوسرا نقشہ تیار کر کےلانے کا وعدہ کیا،،،، گویا ،،،15 لاکھ میں سے اب 6،یا 7 لاکھ صرف بیسمنٹ کے ایک خاصے بڑے کمرے کے خرچ ہونے تھے ، پیچھے بمشکل اوپر دیواریں اور پہلی چھت پڑنے کا امکان تھا۔ اور میں نے یہ قدم اپنے وسائل سے بڑھ کر اُٹھا لیا تھا ، دوسرے دن ناصر سعید کی تجویزپر ، نئے نشانات لگاۓ گۓ ، سکول کی باؤنڈری وال کے ساتھ ساتھ ، قناتیں لگا دی گئیں ،، اور کھدائی شروع ہو گئی ، ، یہ کام پہلے مشینری سے ، اور پھر " گدھے والوں کے ذریعہ" انجام دیا جانے لگا ،، ہاشم اور قمر ایک ایک روپے کا حساب اپنے اپنے رجسٹر پر لکھتے جاتے ،، ،،، اس دوران آفس پھر بھی کھلا رہا ،، یعنی کچھ وہ کمرے جو گرانے ضروری نہیں تھے ، انھیں موجود رہنے دیا گیا ،،، اس دوران ایک دو لطیفے بھی ہوۓ کہ ایک دن جب " اِکا دُکا " گدھے والے کام کر رہے تھے ،، ایک بچہ اپنے والدین کے ساتھ داخلے کے لیۓ آیا ،، اور اس نے والدین سے پُرزور انداز سے کہا " میں اس سکول میں ضرور پڑھنا چاہتا ہوں کہ یہاں گدھے بھی پڑھتے ہیں "یہ ایک 3 سالہ بچے کا بہت دلچسپ اور گہرا جملہ تھا۔
جون میں کام بہت تیزی سے شروع ہوا ، صدقات کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلا ،، اللہ سے اس کا کرم مانگتے رہنے کا ایک بہترین طریقہ ، بہت ذیادہ صدقہ و خیرات کا ہے ، جو ہم نے اپنے والدین سے سیکھا ،، اور دعا کرتی ہوں کہ یہ چلن میرے ، بچے اور آگے ان کی اولادیں ہمیشہ ہمیشہ اپناۓ رکھیں ، آمین ،،کہ اُس رب کا کرم دو چند ہو جاتا ہے ،،،،،،،،،،،۔
اس کے ساتھ ساتھ مکان کی شروعات کے پہلے دن جب پرانا گھر اکھڑنا شروع ہوا ،، ہر رات ، دو نفل حاجت پڑھ کر سوتی تھی ،، اور یہ ہی دعا کرتی رہی " تیری توفیق ، اور کرم سے یہ ٹھکانہ بن رہا ہے ،، بس اپنی جناب سے برکت ڈالنا ،، مجھے کسی سے کوئی پیسہ نہ مانگنا پڑے ، اور اسی پیسے کے اندر ہمارا کام مکمل ہو جاۓ "،،،،،،،،،،، میں چاہوں گی کہ میرے پڑھنے والے میری اس دعا اور نفل حاجت کے عمل کو ذہن میں رکھیں ،،،،، کیوں کہ میں نے پچھلی قسط میں لکھا تھا کہ میرے اللہ نے غیب سے معاملات کو سیدھا کیۓ رکھا !!!۔
۔2004ء ، جولائی کی  سات تاریخ تھی ،،، جب انگلینڈ کے " ٹیوب سٹیشن میں بم بلاسٹ ہوا " ، اور جوجی کے بیٹے نے انھیں انگلینڈ آنے سے منع کر دیا کہ " کچھ عرصہ پاکستانیوں کے لیۓ پریشانی کا باعث رہے گا ، لہذٰا ابھی نہ آئیں " چناچہ جوجی نے انگلینڈ کا پرو گرام ، کینسل کر دیا ۔ اور کہا ، اب اگر وہ الگ کیۓ گۓ 3 لاکھ ضرورت ہوۓ تو نکلوا لیں گے ۔
ساری بیسمنٹ بن گئی ،، پہلی منزل بن گئی ،، تین بیڈ رومز اور ڈرائنگ ، ڈائیننگ ،کچن ، لاؤنج ،،، سیڑھیاں اوپر چلی گئیں ،،، دوسری منزل شروع ہو گئ ،، اس دوران میں نے اپنی آنکھیں " اس کبوتر کی طرح بند کی ہوئی تھیں ، جس کے سامنے بلی بیٹھی ہو "،،،، ۔
جیسا میں نے ذکر کیا ، اللہ کا شکر کہ ہمیں اس ادارے کے چلانے میں ایسے دیانت دار لوگوں کا ساتھ مل گیا ، جنھوں نے ہمارا کام آسان کر دیا ۔اور ان بہترین مدد گاروں میں سے " مسز شیما زاہد " تھیں ، جس پر ہم گھر کے فرد کی طرح اعتبار کر سکتی تھیں ، اور الحمدُ للہ آج بھی کرتی ہیں ،،۔
جب جوجی کے انگلینڈ جانے کی تیاریاں تھیں ، تو سکول کے اکاؤنٹ کو دو یاتین بندوں کےسائن سے ، چلانے کی پابندی ہوتی ہے ، اب جوجی کی غیر موجودگی ہوتی تو دوسرا کون ہونا چائیے ، ، ہم دونوں کے مشورہ سے تیسرا نام شیما ، کا شامل کر لیا ، اس طرح ایک بنک سے چیک نکلوایا جاتا تو صرف میرے نہیں ، شیما کے سائن بھی ضروری ہو گئے ،،، گھر بنتا گیا ،، ( میں، چونکہ دوسری برانچ جسے " سینئر برانچ کہا جاتا تھا ، کو چلاتی تھی جو اس جونیئر برانچ سے 5 ،6 منٹ کی ڈرائیو پر تھی ،) اس لیۓ جب میرا بیٹا ہاشم آکر کسی بِل کو کلیئر کرنے کا کہتا تو میں ، یا جوجی ،،، شیما سے کہتیں " شیما ، پیسے ہو جائیں ؟ تو وہ پُر یقین انداز سے کہتی " جی بالکل ہیں " ،،، اور چیک سائن ہو کر میرے یا جوجی کے پاس جاتا ، اور کیش کروایا جاتا ،،، پے منٹ ہوتی چلی جاتی ، اور دوسری منزل بن گئی ،، اور اندر کا کام شروع ہو گیا ،،، بیٹا ہاشم ، صلاح الدین صاحب کا بہت پسندیدہ بچہ بن گیا ،،، ان کے اپنے بچے نہیں تھے ، ہاشم کا مؤدبانہ رویہ ، انھیں بہت اچھا لگتا ،، اکثر اس کی تعریف کرتے ،، مجھے اُن کے بارے میں ناصر اور میری دوسری سہیلی نے آگاہ کر دیا تھا کہ یہ مزاج کے غصے والے ہیں ، اس لیۓ ان کے کاموں میں ذیادہ دخل نہ دینا ،،، لیکن وہ اپنے کام کے ایمان دار اور " پرفیکشنسٹ " تھے ،، مجھے ہاشم ، ان کی باتیں بتاتا رہتا کہ ان کی مرضی کا پلستر نہیں ہوا تو مستری کو نہ صرف جھاڑ پلاتے ، بلکہ کام اکھاڑ کر دوبارہ کام کرواتے ،،، میں کبھی جاتی بھی تو سرسری سا جھانک کر آجاتی ، ایک دن انھوں نے خود ہی کہہ دیا " توں آندی کیوں نئیں " ،، میں نے کہا " جی جس کام کی مجھے سمجھ ہی نہیں ، میں نے آکر کیا کرنا ہے " کہنے لگے " عورتیں تو سر کھا جاتی ہیں ، اپنے گھروں میں آ آ کر ۔۔ ضرور آؤ ، جہاں الماریاں بنوانی ہیں ، جس جگہ کچن کی ضروری چیزیں لگوانا ہیں ، یہ سب تو تم خود بتانا "،،،، جب وہ وقت آیا تو ،، جیسا میں نے تجویز دی انھوں نے مانا ،،، صلاح الدین صاحب ،،، اپنی ذات میں فقیر ٹائپ بندے تھے ،، اپنے گزارے لائق " چارجز " کو لے کر خوش تھے ،، ورنہ ذیادہ ترٹھیکدار تو جس گھر کو بنا رہے ہوتے ہیں ، ساتھ ساتھ اپنا بھی ایک آدھ گھر بن رہا ہوتا ہے ۔ ان کا یہ حال تھا کہ 6 مرلے کے گھر میں یہ میاں بیوی، اپنی والدہ ، اپنے دو شادی شدہ بھائی ،اور دو غیر شادی شدہ بھائی، ایک ساتھ رہ رہے تھے ، یہ دو منزلہ گھر لوگوں اور محبتوں سے بھرا ہوتا ۔ میرے گھر کو بنوا رہے تھے ۔ لیکن کہتے تھے " سمجھو یہ میں اپنا گھر بنا رہا ہوں ، اتنے دل سے بنا رہا ہوں کہ تم یاد کرو گی "،،،اور گھر اندر سے بھی تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کرتا گیا ،، ہر بِل پر دھڑکتے دل سے شیما سے پوچھتی " شیما پیسے ہوں گے ، اتنے کا بِل آگیا ہے " ،، وہ اُسی پُریقین انداز سے جواب دیتی " جی بالکل ہیں " ،،،، ا
اندرونی ، آرائش کا وقت آیا ، تو اپنے بیٹے ہاشم کو میں اکثر کہتی تھی ، تمہیں اللہ تعالیٰ کسی نواب کے گھر پیدا کرتا تو اچھا رہتا کہ تمہاری چوائس ، کچھ ذیادہ ہی خاص ہوتی ہے ،،، اب یہاں اس کے ساتھ بڑی بہو بھی مل گئی اور " دیکھیں نا ، گھر تو روز روز نہیں بنتے " یہ کہہ کر دونوں نے بہت اچھے فرش ، لکڑی کا کام ، وغیرہ وغیرہ سب کروا دیا ،،، سبھی نوک پلک ، درست کر لی گئی ،،،،اور آخری بِل کے لیۓ ہاشم مجھ سے سائن کروا کر ، شیما سے سائن کروانے گیا ، تو شیما نے اطلاع دی " بس اب اور چیک نہ بھجوایۓ گا ، آخری 5 ہزار رہ گیا ہے " ،،، اور آخری بِل بھی ادا ہو گیا ، ۔
۔23 ستمبر بروز جمعہ 2005ء میں نے جتنا سامان ہو سکتا تھا اُٹھوایا ،، جمعہ کی نماز اِسی "نئے گھر" آکر پڑھی ،، لڑکے بھی جمعہ پڑھ کر آگئے ،، اور بقایا سامان لینے چلے گئے ،،، اور میں، ،،جس نے صرف خواب دیکھا تھا کہ کبھی نا کبھی ،،، اور صرف سوچا تھا ،،شاید کبھی نا کبھی میں اپنا ذاتی گھر بنوا لوں گی ۔ اور اس خالق و مالک ، و ولیُ و والی نے مجھے صرف 15 مہینوں میں ، بغیر کسی سے پیسے مانگے ، اپنی رحمت کے ساتھ اپنی مدد کے ساتھ گھر عطا کر دیا ، الحمدُللہ ، الحمدُ للہ ، الحمدللہ!۔
دو دن اور دو راتیں میں بالکل سو نہیں سکی ،،، اس رب سے باتیں کرتے راتیں گزریں ، کہ مجھے شکریۓ کے الفاظ عطا کر ، کہ میرا دل مطمئن ہو اور تیری محبت کا " کچھ حق " ادا ہو سکے ِِ،،، ! کہ تو نے میرا پردہ رکھا ، مان رکھا ، اور مجھے صرف اپنے در سے نوازا ۔ اب خیر و عافیت سے اس گھر میں رہنا ہو آمین !۔
( منیرہ قریشی ، 14 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں