ہفتہ، 6 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(75)۔

یادوں کی تتلیاں "(75)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کا مکمل چیک اَپ واہ کینٹ کے پی او ایف ہاسپٹل میں بھی ہوتا تھا ، اور جب ضرورت پڑتی فوجیوں کے سی ایم ایچ سے بھی ! لیکن اس زمانے میں واہ کے ہسپتال کا حال ، احوال بہت بہتر تھا ،، اباجی اسی ہسپتال کو ترجیح دیتے تھے ، اُن کی یاداشت کے متاثر ہونے پر مکمل چیک اِپ کیا گیا تو ڈاکٹر شاہد سلیم جو کارڈیالوجسٹ بھی تھے ،،نے واضع کیا کہ یہ "پارکنسن" کے شکار ہوتے جا رہے ہیں ،، تب میں نے اس بیماری کی تفصیل پہلی مرتبہ سنی ۔ انھوں نے واضع کیا کہ مریض کی یاداشت بھی 
متاثر ہوتی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ، چلنا پھرنا ، یا کھانا چبانا بھی بھولنے لگتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے اس طرح کہنے پر مجھے تو بالکل یقین نہیں آیا تھا ،، بےشک وہ 81 کے سال میں آ چکے تھے لیکن ،، باقی گھر کے اندر ان کا چلنا پھرنا ،، یا مہمانوں کو وقت دینا ، اخبار پڑھنا ، یہ تسلسل ٹوٹا نہیں تھا ،،، لیکن اباجی کی خاموشی بتدریج بڑھتی جا رہی تھی ،،، !۔
ذاتی ، ادارہ چلانا اچھا خاصا توجہ چاہتا ہے۔ چُھٹی ، بلکہ چُھٹیوں کا سوچنا بھی نا ممکن نظر آرہا تھا ، والدین کے بوڑھے ہونے پر صرف اولاد کی ہی آزمائش شروع نہیں ہوتی ، بلکہ خود بزرگوں کی آزمائش بھی شروع ہو جاتی ہے ،،، یہ آزمائشیں ،،،، ہوتیں چند سالوں کے لیۓ ،،، لیکن ہمارے حوصلے مہینوں اور کبھی کبھی "دِنوں " میں جواب دے جاتے ہیں ۔ اور ایسے ہی موقع پرکبھی تو اُس مہربان مالک الملک ، رحیم و کریم کی حیران کر دینے والا " کرم کا نظارہ " نظر آتا ہے اور کبھی ، "افسردہ "کر دینے والا نظارہ سامنے آجاتا ہے ۔ 
ہماری اماں جی تو " ڈھلتی عمر کی ابتدا " ہی میں چل بسیں ،، اور جیسا میں نے پہلے لکھا تھا کہ اباجی ، گھر میں کسی کی بیماری کو نارمل نہیں لیتے تھے ۔ حتیٰ کہ کسی بڑے ، یا بچے کو، گھر کے فرد کو یا ملازم کو ،،، کھانسی بھی لگتی تو ،،، دو تین قسم کی دوائیاں آجاتیں ، اور اپنے سامنے کھلائی جاتیں ،،، وہ کسی کی بھی بیماری سے نہیں ،،،،،، " دراصل جدائی سے خوفزدہ " تھے ! کیوں کہ ان کی ماں ان کی 6 برس کی عمر میں چل بسی، اور ایک پیاری ڈھائی سالہ بیٹی بھی نمونیا میں مبتلا ہو کر جُدا ہو گئی۔ پھر بیوی اور میرے ایک بچے نے انھیں " بیماری سے متعلق " حساس " بنا دیا تھا ، ، ، اماں جی کے ہوتے ہوۓ بھی وہ ان کی بیماری میں پریشانی کی انتہا پر ہوتے۔
اب جب وہ خود بیماری ،،، یا ،، لاچاری کی طرف جا رہے تھے تو ،، ابتدا میں ، سچی بات ہے اسے اتنا سیریس نہیں لیا ،، لیکن دو چار ہفتوں میں احساس ہوگیا ، کہ معاملہ ذیادہ توجہ چاہتا ہے ،،، کیوں کہ ایک رات کو وہ کمرے سے نکل ، ہاتھ میں چھڑی پکڑے بیرونی ، داخلی دروازہ کھول رہے تھے کہ میری آنکھ کھل گئی ،،، میرا کمرہ اُن کے کمرے کے ساتھ ہی تھا ،، میں فوراً کاریڈور میں آئی تو اباجی باہر جانے والے تھے ، پوچھا " خیریت "؟ کہنے لگے " صبح ہو چکی ہے ، گیٹ کھولنے جا رہا ہوں ، میں نے انھیں کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دکھایا ، دیکھیں ابھی تو اندھیرا ہے " ، تب انھیں تسلی ہوئی اور جا کر لیٹ گئے ،،،، یہ الارمنگ حرکات تھیں ، اس دن کے بعد میں انہی کے کمرے میں سونے لگی ،،،، !۔
تب وہی دن تھے جب آپا ،،احسان بھائی جان ، اور میں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ کسی " میل " ہیلپر کو رکھا جاۓ ، دن تو سب کی موجودگی میں گزر جاتا ہے ، رات کو میں خود ان کے کمرے میں ہوتی ہوں لیکن باتھ روم لے جانا ، نہلانا ، ان کی مالش کرنا ، اور ایک خاص وقت کے لیۓ باہر بٹھانا ، واپس کمرے میں لانا ، یہ کام وہی کرواۓ ۔ فوری طور پر ایک ریٹائیرڈ حوالدار مل گیا ، جو کام کی تلاش میں بھی تھا ۔ وہ اونچا لمبا ، صحت مند بندہ تھا ، سارا وقت وہ باہر بر آمدے میں بیٹھا رہتا ، جب کسی وقت اس کی ضرورت ہوتی ، تو بُلا لیتے ،،، لیکن وہ صرف ایک ہفتہ رُکا ،،، کیوں کہ اسے جب کہا جاتا ،، یہ اب باتھ روم جانا چاہتے ہیں تو کہتا " جی یہ میرا کام نہیں ،، یا مجھے اس کی پریکٹس نہیں " ،،، اور اگر کہتے کہ اس وقت کوئی مہمان نہیں ،، چلو تم ان کی مالش کردو ،، تو بہت بےدلی سے آتا ، اور بےدلی سے بس تھوڑی دیر مالش کرتا ، اور واپس برآمدے میں جا کر بیٹھ جاتا ،،، بلکہ فوراً چاۓ کا آرڈر دیتا ،، اسی لیۓ ایک ھفتے بعد ہی اس کی چُھٹی کر دی ،،، اب یہ صورتِ حال ، آپا نے اور میں نے خود سنبھالی ،،طے یہ ہوا کہ ٹائمنگ سیٹ کر لی جائیں، تو ہم اپنے والد کی خدمت خود کریں گی۔صبح سویرے "شہناز ( ہماری بہت پرانی اور وفادار ملازمہ ) تو پہنچ ہی جاتی ہے، صبح 8 ، 9 کے درمیان آپا پہنچ جایا کریں ،،، اور اباجی کی دوا ، یا دوسری ضروریات کی نگرانی کریں ، اورمیں سکول چلی جایا کروں ، اور میرے سکول سے واپسی پر آپا واپس گھر چلی جایا کریں ، اور پھر میں جانوں ، اور میرا کام ،،! ہمارےبھائی جان اسلام آباد رہتے تھے ( اور ہیں) اور وہ فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر کینیڈین ایمبیسی میں بہت اچھی پوسٹ پر تھے ، ، اور وہ صبح 8 سے شام 5 کے پابند ِ جاب تھے ۔ وہ ویسے شام کو ایک چکر واہ کا لازماً  لگاتے لیکن اکثر انھیں بیرونِ ملک بھی جانا پڑتا ،،اور جوجی اگرچہ قریب ہی رہتی تھی لیکن اس کی جڑواں بیٹیاں ابھی بہت چھوٹی تھیں ، اس لیۓ ،، ہم نے اسے شامل ہی نہیں کیا !!! ۔
ہماری اس " خوشدل خدمت پارٹی" میں اباجی کی سب سے چھوٹی بہن ، یعنی ہماری رقیہ پھوپھی جی بھی بہ خوشی شامل ہو گئیں ، وہ اپنے بھائی کی محبت میں سر شار تھیں ،،ان کا گھر نزدیک تھا ، آرام سے پیدل یا عزیزالرحمٰن چاچا جی کے ساتھ ویسپا میں آجاتیں ،،،سبھی بچے شادی شدہ تھے ،، ایک بیٹی رابعہ مانو نے گھر اچھے سے سنبھالا ہوا تھا ، اس لیۓ وہ بےفکر ہو کر وقت دے سکتی تھیں۔پھوپھی جی کے آنے سے آپا کو بھی مزید مدد مل گئی اور گپ شپ کا ماحول بھی بن گیا ،،،، اس دوران ، مہمانوں کا سلسلہ ، تواتر سے چلتا رہتا ، اور کچن سے شہناز ، کی طرف سے کسی کو شکایت نہ ہوتی !!۔
ایک مرتبہ اباجی کی طبیعت ذیادہ بگڑ گئی ، ڈاکٹر شاہد سلیم ، کا ذکرِخیر کررہی ہوں ، کہ انتہائی مصروف ہونے کے باوجود ، جب میرا فون جاتا ، وہ لازماً آتے ، اچھی طرح معائنہ ہوتا ،،، وہ بہت شریف النفس ، اور ادب و احترام کے اوصاف سے مالا مال ہیں ،،، انھیں فون کیا ، وہ آۓ تو دیکھ کر کچھ ٹسٹ کرانے کا کہا ،، ٹسٹ رپورٹ اگلے دن آگئی ،، وہ خود ہی آۓ ، اور بتایا ،، ان کے گُردے فیل ہو رہے ہیں ،، اور عمر بھی 81، 82 ہو رہی ہے ،،، صورتِ حال ذیادہ خراب ہو سکتی ہے ،،، لیکن جو علاج ہاسپٹل میں ہو گا ، میں سبھی کچھ یہیں گھر میں لے آتا ہوں ، بس آپ لوگ دعا کریں ،،، میں نے پوچھا ، ہم اباجی کے لیۓ ایسا کیا کریں کہ کوئی بہتری ہو جاۓ ،، کہنے لگے ،، جتنا ہو سکے ابال کے ٹھنڈا کیا پانی پلاتے رہیں (اُن دنوں موسم ِبہار چل رہا تھا ) ،، انھوں نے دوائیں منگوا دیں ۔ اور اس دن میں نے خود ، ، میرے تینوں بچوں نے شہناز سمیت ، ڈیوٹی سنبھال لی کہ ، ایک نیم بےہوش مریض کو چمچ سے منہ میں پانی پلاتے رہیں ،،، یہ عمل اتنے تواتر سے انجام دیا گیا کہ دن رات میں کم ہی وقفہ ہوا ہو کہ پانی نہ پلایا جا رہا ہو ۔،تیسرے دن اباجی کے یورین کا رنگ نارمل ہونے لگا جو بالکل دہی کی طرح سفید ہو چکا تھا ،،، ڈاکٹر شاہد سلیم قریباً روزانہ چکر لگاتے تھے، انھوں نے یورین کے رنگ اور مزید ٹسٹ کے بعد کہا ،،،،، " اتنی اچھی نر سنگ " بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ،،، یہ ہم خود ہی اپنے والدین کے لیۓ کر سکتے ہیں ، کوئی ہاسپٹل ،کوئی غیرایسی کیئر نہیں کر سکتا ،، پاکستان میں ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ اور( اگرچہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے) لیکن اس نے ہمیں شاباش بولا  دراصل وہ خود بھی ایک بہترین بیٹا ، شوہر اور باپ ہے ،، اور بہت اچھا ڈاکٹر بھی !!۔
اباجی بتدریج ٹھیک ہو گئے ،، کھانا پینا، اور چلنا پھرنا بھی نارمل ہو گیا۔ لیکن چند ماہ بعد ان کی یاداشت کمزور ہونے لگی ۔ وہ نام بھول جاتے ، خاموشی ان کی طبعیت کا حصہ بننے لگی ،،، اور حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ ، رات کو اکثر نارمل باتیں کرتے یا ذیادہ باتیں کرتے تھے ۔ چلنے کی عادت بھی بھولنے لگے ، جبکہ میں اور میرا بیٹا کامل علی ، اور پھوپھی جی روزانہ ان کے ٹانگوں کی مالش ایک خاص تیل سے کرتے ، اور آخر کار ، دو تین ماہ بعدایک شام اچانک اباجی اُٹھ کھڑے ہوۓ ، اس وقت اتفاق سے میں اور تینوں بچے کمرے میں موجود تھے،وہ کھڑے ہوۓ اور باتھ روم کی طرف خود ہی چلنے لگے ،،، یہ منظر ہم سب کے لیۓ اتنی خوشی اور ہیجانی کیفیت کا تھا کہ ہم سب بےاختیار تالیاں بجانے لگے ،،، میری تو آنکھوں میں آنسو آگئے ،، بیٹی نِشل نے اپنی دونوں خالاؤں کو فون کرنا شروع کر دیا اور اباجی مسکرا کر کہنے لگے ،،،" کیوں بھئ ، میں چل نہیں سکتا ،، ! ؟"۔
اباجی کی خرابیء صحت کی اونچ نیچ سات آٹھ مہینے رہی ،،، پھر جب چلنا شروع کیا تو مسلسل چار ، پانچ ماہ خوب صحیح رہے ،، مالش اب دوسرے ، تیسرے دن ہوتی ،،، لیکن جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو دوا میں شفا آ جاتی ہے ورنہ وہی دوا بےاثر ہونے لگتی ہے ،،، اور پانچ ماہ بعد پھر ، چلنا بند اور یاداشت ختم ہونے کی کیفیت میں آنے لگے ،،، میرے دونوں چھوٹے بچے فسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر میں تھے ، جبکہ علی ایم بی اے کے آخری سال میں تھا ،، چھوٹے دونوں کالج سے آکر کچھ دیر تک ضرور اباجی کے پاس بیٹھتے ،، ان دنوں جب اباجی چل نہ سکتے تھے تو پلنگ پر صرف ایک طرف منہ کر کےبیٹھتے تھے ،، اور چونکہ کمرے کا رنگ آف وائٹ تھا اور الماریاں ، بالکل سفید پینٹ میں تھیں ،،، تو اباجی ، چند دن سے اکثر کہتے ، " ہم ہسپتال میں ہیں ؟ " ،،، میں یا بچے بتاتے ،" یہ آپ کا کمرہ ہے " !۔
لیکن چند دن بعد ہی نشل کو احساس ہو گیا کہ کمرے کی بےرنگی انھیں ہسپتال کا احساس دلارہی ہے ،، اس نے اپنے کمرے سے رنگارنگ ربن لا کر ان کی الماریوں کے ہینڈل سے لٹکا دیۓ ، شاید یہ ہی رنگینی ان کو خوش گوار احساس دے ،،، یہ دونوں چھوٹے ، کالج سے آکر انھیں اخبار پڑھ کر سناتے ،، اور اباجی کو خاموشی کی دنیا سے آوازوں اور اہم خبروں سے " اِن ٹچ " رکھتے ،،، سردیوں میں اباجی کو باہر دھوپ میں میں لانا ، واپس کمرے میں پہنچانا ، ، انہی کی ذمہ داری تھی ۔نِشل اکثر ان کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا دیتی اور ، اللہ کے نام ،، یا آیت کریمہ کا ورد ، دہراتی ، تاکہ انھیں یاد آجاۓ ۔ 
لیکن علی جو عادتاً تیزیوں میں رہتا ، ، جوانی کی ترنگ میں، اپنی مرضی سے وقت گزارنا پسند کرتا تھا،،، لیکن اباجی ، جو بہت بزرگ اور مریض تھے ، یکدم ،، اللہ نے اُس کے دل میں ان کے لیۓ محبت اور کیئر ڈال دی ،، اور ایسی ڈالی کہ جیسے اُس کے نانا اسی کی ذمہ داری ہوں ،،، وہی انھیں رات کا کھانا خودکھلاتا ، اُن کی شیو کرنا ، سَر کے بالوں کی کٹنگ ، انھیں نہلانا ، ، تمام جسمانی صفائی سُتھرائی کا خیال کرنا ،،، اور اگر وہ دوا کھانے سے انکار کرتے تو ، وہی انھیں لاڈ پیار کر کر کے دوا کھلاتا ، ، ، یہ سب میں دیکھتی ،،، اور رات کو اُنہی کے کمرے میں سوتے وقت انھیں دیکھتی تو سوچتی ، اباجی کتنے خوش قسمت ہیں ، زندگی بھی عزت سے گزاری، اور اب بڑھاپے میں بھی اپنی اولادوں کے جھرمٹ میں ، "ہتھیلی کا چھالا " بنے زندگی کے آخری دور کو گزار رہے ہیں۔
سردیاں چل رہیں تھیں ،، اس دوران ، علی کے ایک جگری دوست کی شادی آگئی ،،، دونوں بھائی اس شادی کے ہنگاموں کو انجواۓ کرنے جاتے لیکن رات کو واپس آجاتے ، لیکن ایک رات بارات کی وجہ سے وہ وہیں رُک گیا ،، اور اباجی کی دوا کا وقت ہوا تو انھوں نے دوا لینے سے انکار کیا اور کہنے لگے " وہ کہاں ہے ،، میں بار بار پوچھتی ،،کون ؟ لیکن وہ بار بار پوچھنے پر یہ ہی کہتے وہ کہاں ہے جو مجھے گال پر پیار کرتا ہے " ،،، میں سمجھ گئی کہ علی کو یاد کیا جارہا ہے وہ جب اباجی کو مناتا تو وہ ان کے گال پر پیار کرتا ،، تب اباجی ، ہنس پڑتے ،،، جیسے اندر سے وہ یہ لاڈ پیار چاہتے تھے۔ 
اسی بیماری کے دوران ، ایک دفعہ رات دو ڈھائی بجے اباجی اُٹھ جاتے ، اور پوچھتے صبح ہوگئی ہے " ؟؟ میں بتا دیتی ، نہیں ابھی تو آدھی رات ہے !!!۔
وہ مزید دو تین بار پوچھتے ،،، اگلی رات بھی یہی وقت ہوا تو اباجی یہ ہی پوچھتے ،،، لیکن بتا نہ پاتے کہ صبح کاکیوں پوچھ رہے ہیں ،،، جب تیسری رات بھی قریباً اُسی وقت جاگ گئے اور یہ ہی سوال پوچھا تو یکدم ،،، مجھے خیال آیا ،،، کہ انھیں بھوک لگی ہو گی ، تو وہ سوچ رہے ہوں گے ، صبح ہو تو کچن سے کچھ لا سکے گی ،،،، میں فورا" کچن گئی اور ان کی پسندیدہ چیز گرم کر کے لے آئی ،،، یعنی شہد ملا دودھ ، اور رَس ،،، انھوں نے کھایا اور پُرسکون ہو کر سو گۓ ،،، مجھے اپنے اوپر سخت غصہ اور افسوس ہوا کہ ان کی کچھ مطالبہ نہ کر سکنے کی حالت میں ،،، مجھے اس بات کی طرف خیال کیوں نہ آیا ،،،،، اور اس دن کے بعد ان کی ہر بات کا ہر پہلو سے اندازہ کیا جاتا ،، کہ یہ کیوں با ر بار ایک بات کو دہرا رہے ہیں۔ 
اباجی ، صرف اولاد کے ہی لاڈلے نہ تھے ، بلکہ اپنے تمام کزنز ، اپنی دو بہنوں اور بہنویوں ، اپنے بہت سے رشتہ داروں میں ہر دل عزیز تھے ، اس لیۓ خاندان کا شاید ہی کوئی بندہ ہو گا جس نے دو، چار دفعہ وزٹ نہ کیا ہو ، اور اس طرح یہ آخری دو ، سال ، کی بیماری میں جیسے ہمارے گھر مہمانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ،،، یہ ان سے محبت کا اور ان کی ذات سے پہنچنے والی آسانیوں کا انداز بھی تھا۔ 
( منیرہ قریشی ، 6 دسمبر 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں