منگل، 16 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(81)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 81)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جس گھر کو کراۓ پر لیا تھا ، اس کے مالک ،، متو صاحب تھے ، وہ خود تو فوت ہو چکے تھے ، اُن کے بیٹے احسن متو ، نے ہمارے سکول کے شروع دور میں سکول کا فرنیچرکا بنانے کا ذمہ اُٹھایا تھا ،کیوں کہ اس کا یہ بزنس تھا ،، اس سے بہت اچھے تعلقات بن گئے، وہ ایک تعاون کرنے والا، اپنے کام اور بزنس کا ماہر ، پڑھا لکھا ، اور مہذب شخص ہے ،،، یہ گھر ان دنوں خالی ہوا ، ہمیں علم ہوا تو اس کی امی سے ملاقات کی اور ، بتا بھی دیا کہ جیسے ہی گھر مکمل ہوا ، میں شفٹ ہو جاؤں گی ۔اس کی والدہ ایک بہادر اور بہت ملنسار خاتون ہیں ، جن سے مل کر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔ 
اس گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پارک تھا ،،، جس میں چار ، پانچ جھولے لگے تھے ،، سکول کے بعد اگر وقت ہوتا تو میں اپنی پوتی کے ساتھ اِس پارک میں کچھ دیر گزارتی ،، وہ کھیلتی رہتی اور میں لوگوں کو " پڑھتی "رہتی ۔ہمارے سکول کی ہمیشہ سے ہفتہ ، اتوار کی چھٹی رہی ہے ۔ اور سرکاری سکولوں میں ہفتہ کی چھٹی نہیں ہوتی ہے ،،، !۔
مَیں ، تو پیدل کی شوقین تھی ہی ، میری پوتی ملائکہ ( ملیکا ) جو گھر کا پہلا بچہ ہے ،،، وہ بھی سیلانی روح ہے ،، اُس دور میں وہ ساڑھے تین ، چار سال کی تھی لیکن ، اس کا میرے ساتھ ہر جگہ جانا ، لازم ہوتا ،،، ایسا ہی ایک دن ہفتے کا تھا  جب ہم ، دادی پوتی ،،، اُس کے پسندیدہ پارک پہنچیں ، میں تو ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ وہ جھولے جھولتی رہی وہاں دو کم عمر لڑکے اور ایک کم عمر لڑکی بھی کھیل رہے ، تھے ،،، میں، ہر وقت ہی ایک " ٹپیکل ٹیچر " بنی رہتی ہوں ،، میں نے ان تینوں کو اپنے پاس بلایا۔ اورپوچھا؟ سکول کیوں نہیں گئے؟ ان میں سے چھوٹی بہن نے جواب دیا " ہم سکول میں داخل نہیں ہوۓ ! "وہ تینوں بہن بھائی تھے ، ان میں سے بہن اور ایک بھائی جو اچھے طریقے سے بات کا جواب دے رہے تھے ، جب کہ ایک لڑکا جو قریباًً نو سال کا تھا ، اس کی زبان واضح نہیں تھی ، غور سے دیکھا تو اس کی ایک ٹانگ ، اور اسی طرف کا ہاتھ کچھ کمزور تھا ، اسے پولیو ہوا تھا ۔میں نے چھوٹوں سے مزید سوال کیۓ۔ تو انھوں نے بتایا " ہم کچھ عرصہ پہلے اٹک کے ایک گاؤں سے شفٹ ہوۓ ہیں ، یہاں ایک سرونٹ کواٹر میں رہتے ہیں ، یہ سامنے والی گلی میں ہمارا کواٹر ہے ،،، میں نے کہا ،، چلو مجھے اپنے گھر لے چلو ،،، میں تو مہماتی طبیعت والی ہوں ، لیکن میری پوتی مجھ سے ذیادہ ، آگے آگے ہوتی ہے ، وہ جھولوں کو چھوڑ ، آگے چل پڑی ،، چند منٹ آگے ان کا کواٹر تھا ،،، غربت سے ذیادہ " جہالت " کا مکمل منظر ،،،،، ایک 34، 35 سال کی خوش شکل عورت ، جس نے ایک سال ڈیڑھ کا بےزار شکل والا بچہ کندھے سے لگا رکھا تھا اور ایک ابھی دنیا میں آنے والا تھا ،، ایک نہایت پُرکشش ، 10 سال کی بچی گھر کے کام کاج میں مصروف تھی ، لیکن مجھے دیکھ کر دونوں حیرت سے دیکھنے لگیں کہ یہ اجنبی عورت کون ہے ،،، خیر میں نے اپنی زندگی کے مختلف تجربات سے دوسرے کو فوراً   ریلیکس کرنے کا گُر سیکھا ہے ،، اور مسکراہٹ کا بہترین طریقہ اختیا کرلیتی ہوں ، اور حدیثِ مبارکہؐ بھی ہے " مسکراہٹ بھی صدقہ ہے " ،،، اس لیۓ کہ آپ کی اپنائیت بھری مسکراہٹ دوسرے کو بھی مسکراہٹ دے دیتی ہے ،، بلکہ خوش آمدید کا پیغام ہوتی ہے ،،، یہی ہوا ،،، اس عورت نے بھی مسکرا کر دیکھا اور میرے لیۓ اپنی " بان کی چاپائی " بیٹھنے کے لیۓ بچھائی،، میں نے اسے بتایا میں " اُستانی " ہوں ،،، اور میرا دل چاہتا ہےہر بچہ سکول جاۓ یہ بچے کیوں سکول نہیں جا رہے ؟؟؟؟ اس کا نام زبیدہ تھا ،، اس نے بتایا ، ہم قریباً سال پہلے اٹک کے قریب ایک گاؤں سے شفٹ ہوۓ ہیں ، میں خود بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں ، اور شوہر سفیدی کا کام کرتا ہے ۔ جب ادھر اُدھر سکولوں میں داخلے کی کوشش کی تو، انھوں نے کہا کہ " نہ تو آپ کے پاس ویکسی نیشن فارم ہیں ، علاقے میں رہنے کا مستقبل پتہ نہیں ہے ، اور ب فارم بھی مکمل نہیں وغیرہ ،،،  میں  نےان سے ایک کاپی کا صفحہ مانگا اور ایف جی سکول نمبر 8 ( جو اس گھر سے نزدیک ہے ) کی سینئر ٹیچر مس رضیہ کے نام ، درخواست لکھی کہ ان میں سے جو بچے آپ کے اِنٹری ٹسٹ میں پاس ہو جائیں ، یا کوئی اور مسئلہ نہ ہو تو داخل کر لیں ، ان کے سب کاغذات مکمل کروانے کی کوشش کروں گی ،،،اور زبیدہ کو سکول کا سمجھایا ، وقت کا بتایا ،،،اور میَں گھر آگئی۔ اگلے دو دن نہ جا سکی ، جبکہ میری پوتی کو سخت بےچینی تھی کہ " چلیں نا ،، اماں ، ہم سکول کے بچوں کو دیکھ آئیں " اس کے خیال میں میری درخواست نے معجزہ دکھایا ،ہو گا اور بچے سکول جا رہے ہوں گے ،،،، اور جب دو دن بعد پارک گئیں ، تو پہلے ان کے گھر کی طرف آۓ ۔ وہ گھرانہ تو جیسے ہماری دید کا منتظر تھا ،، وہ جھجک سے گلے نہیں لگی ورنہ اس کی اور اس کی بڑی بیٹی کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں ،،، زبیدہ نے بتایا ، آپ کی درخواست ، مس رضیہ نے لی ، اور فوراًٹسٹ کے لیۓ لے گئی ، واجبی سا ٹسٹ لیا گیا ، اور اب کل بلا یا ہے ۔ مجھے خوشی ہوئی، اور اگلے دن پھر گۓ تو معلوم ہوا ، سب سے بڑی ، ماریا تو جماعت سوم میں اور چھوٹی جماعت اول میں داخل کر لی گئی ہیں ، جب کہ لڑکا مزمل ، کو عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے جماعت دوم میں نہیں لیا گیا اور اس کا ٹسٹ بھی اچھا نہیں تھا ،، جبکہ پولیو والے بچے کی نہ تو بات سمجھ آرہی تھی ، نہ اس نے کچھ لکھا تھا ،، مجھے تو خوشی ہوئی ،لیکن میری پوتی ایسے خوش تھی جیسے یہ سب کام اسی نے کیا ہو ،، وہ ایک ایک بات کو غور سے دیکھتی اور پھر اپنی ماما کو ہر ایکشن تفصیل سے بتاتی تھی ،،، بہر حال ، کاپیوں کتابوں کا مرحلہ طے ہو گیا ، اور اس بڑے بچے سے متعلق کہا کہ اسے کوئی ہنر سکھا دینا ،، کیا ہنر ؟،،، اس وقت مجھے بھی کچھ سمجھ نہ آیا ،،، البتہ مزمل کے مستقبل کا حل یہ سوچا گیا کہ ابھی میں اور جوجی اس کی ابتدائی بنیاد بناتے ہیں ، جب اچھا چل نکلے تو پھر اسی سکول میں کوشش کریں گے ،، کچھ دن بعد مس رضیہ کا شکریہ ادا کرنے اس کے گھر گئی ،،، وہ بھی ہر ضرورتمند کے لیۓ سراپا ،غمگسار اور ہر طرح کے تعاون کے لیۓ تیار ٹیچر تھیں ،، بعد میں ان کی مدد  سے مزید بچے انہی کے سکول میں داخل کرواۓ۔ اللہ ایسے لوگوں کو اندھیری رات کے جگنو بنا کر بھیجتا ہے ، ان کے لیۓ ہمیشہ دعاگو ہوں۔
دراصل ہمارے سکول کا سلیبس، سرکاری سکول کی نسبت ذرا مشکل تھا اور ابھی سرکاری سکول کی ذیادہ کتابیں اردو میں تھیں ،، اس لیۓ بےشمار بچے انہی سکولوں میں پڑھتے ہیں ، مزمل کو اپنی سینئر برانچ ( جو اس کے گھر کے بہت قریب تھی ) میں آنے کا کہا ، اس کی امی چھوڑنے آنے لگی ، اور چند دن بعد وہ بچہ تھا تو 6 سال کا لیکن ہوشیار تھا ، خود ہی آنے لگا ،،، سکول کے پچھلے بر آمدے میں اسے ڈیسک اور کرسی دی گئی ، یہ بر آمدہ میرے آفس کے سائڈ والا تھا ،، اور کاپیاں ، کتابیں ، اپنے ہی سکول کی نرسری کی دیں ،، میں تو اسے صرف اُردو ،، پڑھنا اور لکھنا سکھا دیتی ، لیکن جوجی اسے انگلش ، اور میتھ پڑھانے لگی ،، اور اپنی طرف ہم اسے خوب "اِن کریج " کرتیں ،،، اور مزمل ذہین نکلا ، اور ایک سال میں اس نے نرسری کا کورس اتنا اچھا پڑھا اور لکھا کہ ، ہم نے اسے اپنے سکول میں داخل کر لیا ، جی ہاں ، اپنی پوتی کی کلاس پریپ میں ۔ اور وہ اتنی دلچسپی سے سب کام کرتا کہ فائنل رزلٹ میں ٹاپ ٹِن بچوں میں اس کا نام بھی تھا ! الحمدُللہ !۔
اور اسی طرح ، جماعت اول میں بھی وہ ٹاپ ٹن میں موجود تھا۔ ہم اسے ایکسٹرا وقت دیتی رہیں ،، اور جماعت دوم ، سے پنجم تک پہنچ گیا ،، ،،،اس نے ہمیں مایوس نہیں کیا ،،،،،،،،،،، ! مزمل ہمارے لیۓ تجربہ گاہ ثابت ہوا ۔،،، اور تب ہم نے انہی دنوں جب مزمل تو ہمارے سکول داخل ہو چکا تھا ،،، لیکن اپنے سکول کی دونوں برانچز کی " آیا ؤں " کے بچوں کو دعوتِ عام دی کہ ہم انھیں پہلے اپنے طور پر کوچنگ دیں گے ،، چل پڑے تو سرکاری سکول میں داخل کروائیں گے ،،، ،،،، اور پہلے ہی سال 5 بچے داخل ہوۓ ،، اُسی بر آمدے کو بند کروا کر کمرے کی صورت بنایا ، اور ان بچوں کے لیۓ ایک الگ ٹیچر تعینات کی گئی ،،، اور مزید چند ماہ میں 10 بچے اور آگئے ،، جو ہماری آیاز کے بچے نہیں بلکہ ارد گرد کے غریب والدین کے بچے تھے ، جو آج تک سکول نہیں گئےتھے !!۔ 
دوسری طرف مزمل کے خاندان کو کچھ ایسے مسائل آن پڑے کہ انھیں دوبارہ ، واپس اپنے گاؤں جانا پڑا ،،، ہم نے زبیدہ سے وعدے لیۓ کہ بچوں کو پڑھاتی رہو گی ،، اس نے وعدہ بھی کر لیا ،، میں نے اس کے گاؤں کے قریب کے سرکاری سکول تک اپروچ کی اور ان کے داخلے اور باقی لوازمات کو پورا کروا دیا ،، زبیدہ سے کہا کہ چھے مہینے کی فیسیں اکٹھی لے جایا کرو ، اور ہمیں ان کی پراگریس بھی بتا دیا کرنا،،، خبردار ماریا کی شادی میں جلدی نہ کرنا ،،، جس وقت ماریا یہاں سے گئی وہ ساتویں میں تھی ، اور اس نے میٹرک سیکنڈ ڈویژن میں کر لیا ،،، مزمل ،،، البتہ نویں کے بورڈ امتحان میں فیل ہو گیا،توپڑھائی چھوڑ دی ،،، چھوٹی بیٹی ، بیٹا ( گود والا ) ،، پڑھ رہے ہیں ،، اور سب سے چھوٹا جو پیدا ہوا تھا ، ابھی جماعت پریپ میں پہنچا تھا ،،، واہ کے قیام کے دوران انہی دنوں ، زبیدہ سے قسمیں لیں تھیں کہ اور بچے پیدا نہیں کرنے ، انہی کو خوب پڑھاؤ ،، اس نے یہ بات مانی ،،، لیکن ، اپنی بیٹی ماریا کو دس جماعت کے سال بعد بیاہ دیا ،،،، یہ سب اس لیۓ بھی تفصیل سے لکھا کہ یہ خاندان ہمارے " اُس خواب " کی ابتدا بنا ،،، جو ہم نے اپنے والدین کے نام سے ان کے لیۓ صدقۂ جاریہ کرنا تھا ،، اور بہت آہستگی سے یہ کام اللہ نے شروع کروا دیا ،،، اور آج اس " فری سکول کا نام " کوشش پبلک سکول " ہے ،،، جسے آج 12 سال ہونے کو ہیں !!! اس ربِ کریم کا شکر کیسے ادا کریں ، کوئی لفظ سمجھ نہیں آتے ! الحمدُللہ !۔
( منیرہ قریشی ، 16 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں