اتوار، 28 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔سفر،حج(2)۔

" یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" (2)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
دسمبر کا مہینہ تھا ، معلوم ہوا کہ مکہ میں تو موسم نارمل ہے لیکن مدینہ میں صبح اور شام شدید ٹھنڈ ہوگی ، چناچہ اسی کے لحاظ سے کپڑے رکھ لیۓ تھے ، ، ، ہمارا حج پیکج 40 دن کا تھا اور ا کتالیسویں دن کو واپسی تھی ، ، ، میرا اور جوجی کا پہلا بیرونی سفر تھا ، جبکہ ہاشم تو ایک دفعہ کینیڈا جا ،آ چکا تھا۔ لیکن اس "سفرِِ خاص" کی تو بات بالکل ہی الگ تھی ، اس سے پہلے اپنے بزرگوں سے ملنے بھی گئی تھیں ، جس سے ملے ، بہت خوش ہوۓ اور ہمارے خیریت سے حج کی دعا کی ،اور جس نے اپنے لیۓ دعا کا کہا ،انہوں نے اپنی دعائیں لکھ کر دیں ، جو میں نے اکھٹی تہہ کر کے اپنے پرس میں رکھ لیں ، ، ،۔
۔12 دسمبر اتوار کا دن ، مصروف گزرا ، اور رات کو آپا کے گھر کا شاندار ڈنر کیا ۔ اور جب ہم دونوں نے بسم اللہ کر کے اپنے " عبائیہ" پہنے تو، تو کچھ لمحے ، ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو ، بہت ہی عجیب لگا کہ برقعہ ہم دونوں نے پہلی مرتبہ اوڑھا تھا۔ ( اب تک ہم چادر لیتی رہی ہیں ) بچوں نے موبائل سےفٹا فٹ تصویریں لیں، اور دوبارہ سب بچوں ، بہو ، آپا ، ملازمین سے گلے ملیں اور علی کی کار میں جا بیٹھیں کہ کہیں آنسو نہ نکلنے لگیں کہ " جوجی کی دونوں  جڑواں ابھی صرف تیسری ، چوتھی جماعت میں تھیں باقی تینوں بےشک بڑے تھے،لیکن ابھی تو کسی کے فرض سے فارغ نہ ہوئی تھی ، جبکہ مَیں خوش قسمت تھی ، کہ تین میں سے دو شادی شدہ اور ایک بچہ ساتھ جا رہا تھا۔ 
کچھ باتیں نشل بیٹی ، کو کچھ علی اور بہو صائمہ کو سمجھائیں ،، اور دل بھر آۓ ، کہ جو شادی شدہ ہوں وہ بھی " بچے " ہی لگتے ہیں ۔ اور دل میں عجیب سے خدشات پلنے لگتے ہیں۔ کہ کیا پتہ دوبارہ ملنا ہو یا نہ ،،، علی کو اس بات سے بڑی تقویت تھی کہ اماں کی ایک اولاد ساتھ تھی ،، اور اس نے متعدد بار یہ جملہ بولا " اماں ، اپنے آپ کو تھکانا مت ،، اور " بس آپ نے قاسم ( ہاشم کا گھر کا نام ) کا کہنا ماننا ہے ۔۔۔۔
جیسے چھوٹے بچوں کو کہا جاتا ہے " اماں کا کہنا ماننا ہے " ۔ دراصل ایک وقت آجاتا ہے کہ جب "" جوانی ، بڑھاپے کو نصیحت کرنی لگتی ہے""!،،، پہلا غیر ملکی سفر ، اور وہ بھی اللہ کی میزبانی کے ساتھ ۔۔۔۔ملےجلے ، جذبات کے ساتھ رخصت ہوۓ ۔ لیکن ابھی دل کے اندر ایسا کوئی جذبہ نہیں تھا جو " ہمارے لیۓ خصوصی احساس کا حامل ہوتا" ۔
رات کے نو بج چکے تھے اور علی ہمیں پنڈی" حاجی کیمپ" تک چھوڑنے جا رہا تھا ۔ ،، ابھی ہم اپنے گھر سے دو، ڈھائی میل ہی دور آۓ تھے کہ، جوجی کے موبائل پر رِنگ بجی ، جوجی نے فون آن کیا تو ثمینہ ایوب کا تھا ، ( شاہدہ کی ٹونز میں سے ایک بہن ، اس نے پچھلے سال حج کیا تھا) ، اور اس نے جب یہ جملہ کہا " منیرہ باجی ، اس سفر کی مبارک ہو ، میں نے بھی آپ کے ساتھ ، احرام ، باندھ لیا ہے ، اور روحانی سفر شروع کر دیا ہے " ،،، اس کے جذبہء ایمان والے الفاظ نے ہمارے لیۓ " ضرب " کا کام کیا،اور بےاختیار آنسو ٹپکنے لگے۔ اللہ کا نام لیتے دروُد پڑھتے رات دس بجے حاجی کیمپ پہنچے ،،،علی اور ہاشم نے سامان پکڑا، اور ہم قدرِ نا ہموار راستے سے چل کر اس بلڈنگ تک پہنچے ،،، جہاں چند دن پہلے آکر ، اپنے ڈاکٹری
سرٹیفلکیٹ لیۓ ، اور ساتھ لے جانے والی دواؤں کے پیکٹ تیار کروا ۓ تھے، اب ہمارا سفر یہیں سے شروع ہونا تھا کہ پنڈی اور اردگرد کے دوسرے چھوٹے شہروں کے حاجیوں کو یہیں آنا پڑتا ہے ۔ ابھی ہم کار سے اتر ہی رہے تھے کہ نگہت اور اقبال بھائی کی فیملی ، آپہنچی ، اقبال بھائی کی بھابھی ، بھتیجی ، اور بڑا بھتیجا بھی پچھلے سال حج کر آۓ تھے ، لہذا انھوں نے پاشا کو خوب بریف کیا ہوا تھا۔خود اقبال بھائی اور نگہت کی بیٹی ، بیٹے بھی موجود تھے ،،، کہ اتنے میں میرا داماد کامران نظر آیا ، ، اور میرا دل باغ باغ ہو گیا ، نئے  رشتے آہستہ آہستہ کتنے پیارے اور اہم ہو جاتے ہیں،وہ آفس سے سیدھا یہیں آگیا تھا ، " میں کتنی خوش قسمت تھی کہ اس سفر میں ایک بیٹا ساتھ جا رہا تھا ، ایک رخصت کرنے آیا تھا،،،، اور میں نے جوجی کی طرف نظر ڈالی ،، تو دل پر غم کا بوجھ پڑ گیا ، دونوں بیٹے ، ہزاروں میل دور ، بیٹیاں ابھی اُس دور میں ، جہاں قدم قدم پر ماں کی ضرورت ہوتی ہے،اور زندگی سراپا گنجلک، ، لیکن اس کے اطمینان اور مثبت سوچوں پر آفرین تھی۔بہرحال ، سب سے ملنا ملانا ہوا ، اور علی نے پھر ایک دفعہ ، اپنے فکرمندانہ جملے دہراۓ  اماں ، آپ نے خود سے کہیں اکیلے نہیں جانا ، قاسم اور جوجی خالہ کے ساتھ رہنا ، خود کونہ تھکانا " وغیرہ ،،، دراصل راستوں کی ڈائریکشن ، بارے میری عقل ہمیشہ سے کمزور رہی ہے ۔ اس لیۓ ان دونوں کو میرے گُم ہونے خدشہ رہتا ہے۔
حاجی کیمپ ، کی مسجد تو صاف تھی ، لیکن غسل خانے ایسے نہ تھے کہ ان میں جا کر " احرام باندھے " جا سکتے ، ہم تینوں خواتین تو ایک کمرے میں رہیں ، کہ ہم گھر سے مکمل تیار ہو کرآئی تھیں۔ہاشم نے سلیپر اور ایک تسبیح یہیں سے خریدیں، اور جب یہ تینوں مرد حضرات احرام باندھ کر واپس آۓ تو ، " فرشتے " لگ رہے تھے ، ہم سب نےعشا ء کی نمازیں پڑھیں، اور پھر ایک نزدیکی ڈھابے ٹائپ چاۓ خانہ سے چاۓ پینے بیٹھ گئے، میں نے صرف چاۓ لی اور باقی لوگوں نے چاۓ کے ساتھ بسکٹ وغیرہ بھی کھاۓ، اور آخرکار ایک مرتبہ اور وُضو کرکے رات ایک بجے ، بسوں میں آ بیٹھے ،، اب مسلسل اللہ کے نام اور جو  جو یاد تھا وہ پڑھنے لگے ، ہاشم اور اقبال بھائی ،اور پاشا اگلی سیٹوں پر اورسب خواتین پچھلی نشستوں پر تھیں ،"بس" میں خاموشی تھی ، لیکن کچھ ہی دیر بعد " لبیک کی تلبیہ " بہت تواتر سے گونجنے لگیں ،، اور ہم سب بھی لبیک کا ورد کرتے پنڈی ایئر پورٹ پہنچے ،،، ہمیں بس سے اترتے وقت علم ہوا کہ سارے راستہ لبیک ، تو اپنا ہارون پاشا پڑھتا رہا تھا ، بہت خوشی ہوئی کہ ، جوان بچہ ہے ، اور بوڑھوں کے ہوتے ہوۓ ، اُسی نے جراؑت کی ، اور اپنے اس مقدس سفر کی ابتدا کروائی۔ ،، اور ہم سفرِِ حج کے مسافر ایئر پورٹ لاؤنج میں جا بیٹھے !لیکن یہاں کچھ خواتین کے حلیۓ ہمارے لیۓ ، اچنبھے کا باعث بن گئےکہ انھوں نے " پی کیپ " پہن کراوپر اپنے عبائیہ کے نقاب ڈالے ہوۓ تھے ۔ جب کہ ہمیں ڈاکٹر فرحت کے حج لیکچر میں بتایا گیا تھا کہ آپ کی گال ، تھوڑی ، آنکھیں ، نقاب سے کوَر نہ ہوں ۔ لیکن یہاں کچھ الگ سوچ کے حامل دیکھے جو ہمارے لیۓ پہلا تجربہ تھا ۔
اور پھر ہم اس حج فلائٹ میں داخل ہو کراپنی سیٹوں پر بیٹھ گۓ ، اتفاق سے ہم تینوں خواتین کو ایک ساتھ جگہ ملی اور تینوں مرد حضرات ہمارے بالکل آگے کی سیٹوں پر بیٹھے ، سخت سردی تھی اور ہم خواتین کے لباس تو مکمل سردیوں والے اور پھر عبائیہ ، اور جرابیں بھی پہنی ہوئی تھیں ، جبکہ مردوں کو احرام کی پابندی کے تحت ، کچھ مزید اوڑھنا یا جرابیں پہننا منع تھا ، اس پر مزید یہ کہ جہاز کا اے سی بھی آن رہا ! لیکن دعاؤں اور تلبیہ کے ساتھ سفرِ خاص شروع ہوا ۔ 
( منیرہ قریشی ، 28 جنوری 2018ء واہ کینٹ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں