جمعرات، 11 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(77)۔

یادوں کی تتلیاں " (77)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کی رحلت ہم بہنوں ، اور بھائی کے لیۓ  شدید اداسی کا باعث تھی کیوں کہ اماں جی کے بعد ،، " ایک گھر،ایک مرکز" ختم ہو گیا تھا ، ، کتنے شاندار ہوتے ہیں وہ گھر جس کے دروازے ، " ہر ایک کے لیۓ ، ہر وقت " کُھلے رہتے ہیں ، اماں جی کے بعد اباجی نے 22 سال یہ سلسلہ بخوبی نبھایا۔ ہم دونوں چھوٹی بہنوں کو اپنے ماں باپ کی توجہ کی وجہ سے اور اپنی بڑی بہن اور بھائی کی شفقت کی وجہ سے بھی،ایک کندھا لینے کی عادت سی پڑ ی تھی۔ہم دونوں بہنیں تو کچھ ذیادہ ہی "اَپ سٹ" تھیں ،،،لیکن میرے بچوں کا وقت اپنے " نانا " کے ساتھ سب سے ذیادہ گزرا ،، لہٰذا ان بچوں کی اُنسیت سب سے سَوا تھی ،، شروع کے دو ، تین ماہ سردیوں کے گزر رہے تھے، میں اور بچے رات کو کافی دیر تک ہیٹر کے گرد بیٹھے رہتے ، اباجی کی باتیں ، کچھ وہ کرتے، کچھ میں ،،،! اور یوں ایک دوسرے کے غم کو شیئر کرتے ، وقت گزر گیا ،،۔
،زندگی پہلے کب کسی کے جانے سے رکی ہے کہ آئندہ رُکے گی ، علی کا آخری سمسٹر چل رہا تھا ، باقی دونوں بھی کالج میں مصروف ہو گئے،، میں بھی 8 ، 10دن بعد ہی سکول جانے لگی ۔ اور آہستہ آہستہ ، ہمارے جذبات ، اور مصروفیات ہمارے قابو آنے لگیں ۔ 1999ء کے سال کا درمیان میرے لیۓ مزید مصروفیت لے کر آیا ،،، بڑے بیٹے علی کی منگنی طے پا گئی ،، وہ ایک معزز پٹھان فیملی تھی ، جو ہماری ہی سٹریٹ کے ایک گھر میں رہ رہے تھے ،،، تھوڑی سی علیک سلیک ہوئی ، اور آپس کی کیمسٹری نے کام کر دکھایا،،، بلکہ اللہ کی طرف سے جو لکھا تھا وہ ہو کر رہتا ہے ،، اور بہت اچھے طریقے سے منگنی ہوئی ،،، اور پھر سال یکم جنوری 2000ء ہمارے گھر نئے افراد کی آمد کا نیا سلسلہ شروع ہوا ،، صائمہ ،، زیارت گُل خٹک صاحب کی بیٹی ، اپنے گھر میں سب سے چھوٹی ہےاور ہمارے گھر کی بڑی بہو بن گئی،، ! زیارت گُل خٹک صاحب اور اُن کی بیگم ،،، جنھیں ہم باجی گُل کہتے ہیں ،،، بہت وضع دار ،، اور رشتے نبھانے والے وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ،، خود بخود عزت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ، وہ جب ملتے ، مجھے لگتا ، اپنے بڑے بھائی سے مل رہی ہوں ، ٹھیک گیارہ ماہ بعد اللہ پاک نے اس گھر میں ، ایک بہت پیاری بچی بھیجی ، جس کا نام اِن دونوں نے ملائکہ علی رکھا ، ! ! تو گویا اب میری یہ پوتی 17ویں سال میں لگ چُکی ہے ، اس کے 5 سال بعد اللہ کی مہر بانی سے ایک پوتا عطا ہوا محمد عمر علی ،، جو اب  سکستھ کلاس میں ہے !۔
اس دوران میری فیملی ، اباجی والے گھر میں ہی رہی ،، ! کیوں کہ ابھی میں اپنا گھر نہ بنا پائی تھی ،،، اور بھائی جان نے کہہ رکھا تھا کہ جب تک تم بیٹی کے فرض سے سبکدوش نہیں ہو جاتیں ،، تب تک تم کہیں نہیں جاؤ گی ۔۔ اور اُن کی یہ محبت ، یہ شفقت میرے لیۓ ناقابلِ فراموش ہے ،،،، ایسے بھائی بہت ہی کم ہوں گے ، جو اپنی بہنوں کے لیۓ ڈھال ، اور سنبھال بن جاتے ہوں ،، اور بھائی جان ایسے ہی بھائی ہیں ! اللہ  کے کرم سے صرف  ہم بہنوں کے لیۓ ہی نہیں ، بلکہ ہمارے بچوں کے لیۓ ،، اور اباجی کے بعد سارے خاندان کے لیۓ "سربراہ " بن گئے ہیں ،،، اگر ہم قبائلی انداز میں رہ رہے ہوتے ،تو یقیناً ، اباجی کے بعد بھائی جان کے سر پر خاندان کے سربراہ کی علامت "پگڑی "پہنائی جاتی ،،،،اس لیۓ کہ قریباً سارے خاندان میں کوئی دور کا رشتہ دار ہے ، یا نزدیک کا ، کوئی غریب ہے یا امیر ، یہ اُن کی خوشی غمی میں ضرور پہنچتے ہیں ،،، اباجی کی زندگی میں وہ اس طرح کی ذمہ داریوں کو کبھی کبھی نبھاتے تھے ، لیکن اُن کے بعد ان کے اندر کا " احساسِ ذمہ داری " ایسا جاگا ، کہ خاندان میں اُن سے بڑے کزنز موجود ہیں ، پھر بھی بہت سے خاندان اپنے گھر کے بگڑے فیصلوں کے لیۓ انھیں ہی بُلاتے ، انہی کی بات کو مانتے ہیں ، اور یوں بہت سے گھر اُجڑنے سے بھی بچے ہیں ،،، لیکن وہ ایک حد تک یہ میٹنگز کرتے اور کوشش کرتے ہیں ،، اب بھی اگر کوئی نہ مانے ، تو وہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ کہ اب آپ کی اپنی سوچ اور فیصلہ ہو!! اپنی طرف سے وہ خاموشی سے جس کی مدد کرنی ہوتی ، بتاۓ بغیر کرتے ہیں ۔ اُن کی نیک فطرت بتدریج انھیں عزت دلا رہی ہے ، الحمدُللہ ، جب  کوئی اُن کی تعریف کرتا ہے تو میں سوچتی ہوں ، ایسی ہی  اولاد والدین کے لیۓ صدقۂ جاریہ ہوتی ہوں گی ،،، !!! ان شا اللہ ،، ہم بہنیں دل کی گہرائیوں سے ان کے لیۓ دعاگو  ہیں ،۔ کہ اللہ انھیں دنیا و آخرت میں سُرخرو کرے آمین ۔
اللہ پاک نے مجھے دو بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا ،،، بیٹی دونوں بیٹوں کامل علی ،، اور ہاشم سے چھوٹی ہے ،،، میں نے پہلے بھی ایک صفحے پر لکھا تھا کہ یہ میرے گھر اُس دکھ اور کرب کے دور میں آئی ، جب مجھے اس کی اُس وقت اہمیت کا احساس نہیں تھا ،، میں تو بس حیران تھی ، ایک نیا وجود دینے میں کیا مصلحت ہو سکتی ہے ! اور آہستہ آہستہ ، احساس ہوا کہ یہ میرے زخم پر مرہم بنا کر بھیجی گئی تھی ، اور جوں جوں وہ بڑی ہوئی ، وہ قدم قدم پر میرے لیۓ ایک" کُشن "بنی رہی ،، کیوں کہ میں کافی مزاج دار ہو چکی تھی ،، اورکبھی کبھی ذیارتی کی حد تک سخت ماں بن جاتی تھی ( اور ہوں ) ،،، !لیکن اس نے تعلیم کے میدان میں ، اخلاق کے لحاظ سے ، دین پر عمل کے لحاظ سے ،، مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا ۔ اور  اپنے پسندیدہ مضمون میں بی ایف اے کرلیا تو، ، الحمدُ للہ ،،، میٹرک سے ہی اس کے رشتے آنے لگے تھے ،، میں  اللہ تعالیٰ سے بار بار  صرف ایک دعا مانگتی تھی کہ " اس کی زندگی کا ساتھی نماز ، روزے کا پابند اور رزقِ حلال پر قناعت کرنے والا ہو " ، بس،، ! اور ایک غیرخاندان ، ایک معلوم فیملی کےتوسط سے آۓ تو ،،، ہم انھیں اور وہ ہمیں پسند آگئے، چند ملاقاتوں ،، استخارہ کے بعد میں نے، اپنے تمام فیملی ممبران سے مشورے کے بعد ہاں کردی ، میرا داماد کامران شریف، پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئر ہے، جب مجھے علم ہوا کہ وہ نماز اور روزہ کا بہت پابند ہے ، تو مجھے بہت خوشی ہوئی ،، اور جب میں نے رشتہ قبول کرنے سے پہلے ، اس کے آفس سے بھی معلومات لیں کہ وہاں اس کا مزاج کیسا ہے ۔ جن صاحب سے پوچھا ، وہ کامران کے سینئر تھے " انھوں نے بتایا یہ چند ایمان دار ، افسران میں سے ایک ہے ، اگر میرے گھر آتے تو میں فوراً ہاں کرتا ! تب دونوں جانب سے تیاریاں ہوئیں،اور 4 جنوری 2003ء کو میری بیٹی بیاہ کر"اٹک"چلی گئی،۔
میری بیٹی ، نے اپنا شادی کا جوڑا ، سُرخ شلوار قمیض بنوایا ، اور وہ ناقابلِ یقین حد تک ، کم قیمت تھا ،، ( دراصل اس کے خیال میں ہر دُلہن شرارے وغیرہ کے بھاری جوڑوں میں نظر آتی ہے ، میں منفرد کیوں نا نظر آؤں ،، اور اتنے بھاری قیمتی جوڑاے اورصرف چند گھنٹوں کے لیۓ کیوں فضول خرچی کروں ) ،، اس کی پریکٹیکل سوچ کی مزید انتہا کہ کسی قسم کے " کام دھام والے جوڑے " نہیں بنواۓ ،، جو جوڑے کبھی کسی شادی ، کبھی عید پر بنے ،، وہ ہی اپنے ساتھ لے گئی ،، اس کے لیۓ کچھ زیور بنا ہوا تھا ، جو تھا، اس سے ذیادہ ایک انگوٹھی کی بھی "اور " فرمائش نہیں کی ! اللہ نے اسے بھرا ظرف عطا کیا ہے ،،، وہ آج بھی " بریینڈڈ کومپلیکس " کا شکار نہیں ، نہ اس میں وہ کسی قسم کے مقابلے میں رہتی ہے !! وہ جس خاندان میں گئی ہے وہ آپس میں خوب مضبوطی سے جُڑے ہوۓ ہیں ، اور پہلے سے ایک جیٹھ ، جیٹھانی ، اور ساس موجود تھیں ، دو شادی شدہ نندیں بھی اپنے گھروں میں شاد و آباد تھیں ،،، "کامران"دونوں بہنوں اور بھائی سے کافی چھوٹا تھا ۔ تب بعد کی ایک ملاقات میں کامران کی خوب صورت والدہ نے بتایا کہ جب اُن کے شوہر کی اچانک وفات ہوئی تو سب سے بڑی بیٹی 8ویں میں اور کامران ڈیڑھ سال کا تھا ،،، والد کا کنسٹرکشن کا کام تھا ، ایک گھر انہی دنوں بیچنے کے نکتۂ نظر سے بنوا رہے تھے کہ ہارٹ اٹیک سے ختم ہو گئے۔ پیسے کی کمی نہ تھی ، بچے بہت اچھے پڑھاۓ ،، اور بڑا بیٹا ڈاکٹر بنا ، اور کامران " کیڈٹ کالج حسن ابدال " سے پڑھ کر یو ۔ ای ۔ ٹی لاہور سے پڑھ کر جاب پر لگ گیا ،، اِن خوبصورت خاتون کو بھی گھر والے " گُل آپا " کہتے ہیں ! میری بیٹی انھیں بھا،، گئی ،،یا اپنی فراست سے انھوں نے اسے جانچ لیا ،،اوروہ نشل پر مکمل  اعتماد کرنے لگیں ، میں نے بھی اپنی بیٹی سے کہہ دیا " اپنے اس" اعتبار و اعتماد " کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دینا ،،، دوسرے وہاں گھر میں سب ہی افراد تم سے کافی بڑے ہیں ،، ان کے آگے کبھی پلٹ کر جواب نہ دینا ، کہ چُپ کا روزہ نہ ہی ٹوٹے ، تو عزت ہے ! الحمدُ للہ ، آج اس کی شادی کو 15 سال ہو گۓ ہیں ، گُل آپا ، نشل کے گھر خوشی سے آتیں ، رہتیں ، اور خوشی سے جاتیں ہیں ،،، ان میں پرانی قدروں ، اور رسوم کو نبھانے کا حوصلہ بہ احسن ہے ! ۔
اللہ رحیم و کریم نے پہلے میری بیٹی کو ایک بچی حمنہٰ سے نوازا ، اور پھر پانچ سال بعد بیٹا محمد موسیٰ کامران عطا کیا ،،، اب میری نواسی بھی 14 سال کی ہوچُکی ہے ،، اللہ تعالیٰ نے اپنی کرم نوازیوں کا سلسلہ کہاں تک نہیں کیا ، میرے پاس الفاظ نہیں ،،،،،،،،!۔
اپنے دوسرے بیٹے ہاشم ( جو علی سے 5 سال چھوٹا اور نشل سے دو سال بڑا ہے ) کے ایم بی اے کرنے اور جاب کرنے کی ابتدا ہی تھی ، کہ میرے پاس اتنا سر مایہ جمع ہو گیا کہ گھر بنانے کا نہایت مشکل قدم اُٹھالیا۔ اور اس کی نگرانی اِسی کے سپرد کر دی۔
(منیرہ قریشی ، 11 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں